بارود کی فصلیں ۔۔گوتم حیات

ہندوستان میں کورونا کی حالیہ لہر نے ہر ایک کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے بےچین کر دینے والی خبریں اور ویڈیوز سوشل میڈیا  پر  گردش کر رہی ہیں ،جن میں دکھایا جا رہا ہے کہ لوگ وبا کا شکار ہونے والے اپنے عزیزوں کو ہسپتالوں میں داخل کروانے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں لیکن انہیں ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے ایک ہی بات بتائی جا رہی ہے کہ نئے مریضوں کے لیے گنجائش نہیں ہے، اس دوران کئی مریض محض بروقت علاج کی سہولت نہ ملنے کی وجہ سے دم توڑ چکے ہیں۔

آج دوپہر تک دہلی سمیت کئی شہروں کے مختلف ہسپتالوں میں آکسیجن کی قلت کا بھی سامنا رہا۔ ہسپتالوں میں داخل مریضوں کے اقارب کو انتظامیہ کی طرف سے باقاعدہ تحریری نوٹس بھی دیے گئے جن پر لکھا تھا کہ آپ اپنے مریض کو دو گھنٹے یا آدھے گھنٹے کے اندر کسی اور ہسپتال میں لے جائیں جہاں پر آکسیجن سلنڈر دستیاب ہو۔

گنگا رام ہسپتال کا شمار دہلی کے بڑے ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔ آج اس ہسپتال میں آکسیجن کی فراہمی معطل ہونے کی وجہ سے پچیس مریض دم توڑ گئے، یاد رہے کہ یہ وہ مریض تھے جنہیں آکسیجن کی سہولت فراہم کر کے موت کے منہ میں جانے سے بچایا جا سکتا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق بھارت بھر میں پچھلے دو دن میں کورونا کے تین لاکھ سے زیادہ نئے کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ ان دو دنوں میں دوہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔

ایسی رپورٹس بھی سوشل میڈیا کے ذریعے منظرعام پر آئی ہیں جن میں بتایا گیا کہ کورونا کے سبب ہونے والی مستقل ہلاکتوں کی وجہ سے شمشان گھاٹ بھر گئے اور پھر انتظامیہ نے بعد میں آنے والی اموات کی آخری رسوم ادا کرنے سے صاف انکار کر دیا، جلد بازی میں عزیزوں نے اُن بدنصیب لاشوں کو کچی آبادیوں کے قریب میدان میں جس طرح ممکن ہو سکا ، جلایا، یا زمین کھود کر لاشوں کو دبا کر فرار ہو گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق لوگ کاروں میں اپنے عزیزوں کی لاشیں اور مٹی لے کر آتے ہیں اور ہلکی سی زمین کھود کر اس میں لاش دبا کر چلے جاتے ہیں اور پھر کچھ دیر بعد کُتّے ان ادھ جلی اور دبی ہوئی لاشوں کو بھنبھوڑنے کے لیے آجاتے ہیں۔ لاشوں کے تعفن سے رہائشی خوف و ہراس کا شکار ہیں، انہیں اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ کہیں ہَوا کے سبب یہ مہلک وائرس ان کو نہ منتقل ہو جائے۔ رہائشیوں کے مطابق ہولی سے پہلے مہینے یا دو مہینے میں معمول کی کوئی دو، چار اموات ہوتی تھیں لیکن ہولی کے بعد سے اموات کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے ،اب ایک دن میں کبھی دس اور کبھی بارہ لاشیں یہاں لا کر جلائی یا دفنائی جا رہی ہیں۔ کچھ دنوں سے یہ سلسلہ صبح سے رات گئے تک چل رہا ہے۔

گجرات کے بڑے تجارتی شہر سورت کے شمشان گھاٹوں میں وہ وقت بھی آیا کہ لوگ اپنے مُردوں کی آخری رسومات کے لیے طویل قطاروں میں لگائے گئے، انہیں کئی گھنٹوں تک انتظار کرنا پڑا۔ ایک، ایک دن میں 80، 90 مردے یہاں لائے گئے۔ اس نازک صورتحال کے پیشِ نظر سورت شہر کی انتظامیہ نے ان شمشان گھاٹوں پر پڑنے والے اضافی بوجھ کو کم کرنے کے لیے ایک ایسے پُرانے شمشان گھاٹ کو دوبارہ سے استعمال میں لایا جو کئی عرصے سے ناقابلِ استعمال تھا۔

لکھنو کے ایک شمشان گھاٹ کی انتظامیہ کے مطابق یہاں پر مہینے میں کبھی دس یا بارہ مردے لائے جاتے تھے لیکن ہولی کے بعد اچانک مُردوں کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا اور اب یہاں پر ہر روز کبھی 90 اور کبھی 100 مُردے لائے جا رہے ہیں۔ ان مُردوں کو بروقت جلانے کے لیے شمشان گھاٹ سے متصل اُن راستوں اور چوراہوں کو بھی استعمال میں لایا جا رہا ہے جہاں پر عام دنوں میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ اپنے عزیزوں کی آخری رسومات کو ادا کرنے کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کریں گے۔

اس وقت بھارت کے بہت سے شہروں کی کم و بیش یہی صورتحال ہے۔ ماہرین کے مطابق آنے والے روز و شب عوام کے لیے مزید کٹھن ثابت ہوں گے، کیونکہ کورونا کی وبا اتنی پھیل  چکی ہے کہ اس کا تھمنا اب فوری طور پر ناممکن ہے۔

سوشل میڈیا کی وساطت سے ہی ان دنوں پاک و ہند کو لے کر ایک طنزیہ پوسٹ بھی گردش میں ہے، جس کے مطابق؛

“دو ایٹمی طاقتیں: ایک کے پاس ویکسین نہیں اور دوسری کے پاس آکسیجن نہیں۔ آخری میزائل تجربہ دونوں نے اسی مہینے کیا ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مندرجہ بالا ان دو سطروں میں سوچنے سمجھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں پوشیدہ ہیں۔ اس تناظر میں اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ پاکستان میں بھی آکسیجن کوئی وافر مقدار میں دستیاب نہیں ہے۔۔۔ ملک بھر کے سرکاری ہسپتالوں کی حالتِ زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور رہی بات نجی ہسپتالوں کی تو وہاں پر صرف اُن ہی کو علاج کی سہولیات دستیاب ہیں جن کے پاس پیسے ہیں۔ وبا کے دنوں میں سرکاری اور نجی ہسپتال ایک ہی جیسی ہنگامی صورتحال کا شکار ہوتے ہیں، پڑوسی ملک ہندوستان کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں پر اس وقت دنیا بھر کے کورونا مریضوں کی تقریباً چالیس فیصد تعداد موجود ہے۔ اس وقت دونوں ملکوں میں صورتحال انتہائی نازک ہے۔ ہیلتھ سسٹم کو دونوں ممالک نے کبھی ترجیح ہی نہیں دی۔ یہ ممالک بس بارود کی فصل ہی کاشت کرتے رہے، ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے کے لیے۔۔۔ کیا یہ بارود کی گھنی فصلیں کورونا کے امڈتے ہوئے سیلاب کے آگے کوئی حفاظتی بند باندھ پائیں گی؟

Facebook Comments