ہائی وے پر کھڑا آدمی(3)۔۔مشرف عالم ذوقی

ددّو نے پوچھا۔’ پانچ سوروپے کماؤگے ؟اس بار نوجوان کے چہرے پر خوشی تھی۔ کیوں نہیں، نوجوان نے مسکرا کر کہا،پترکار ہونا۔۔۔۔۔؟ ہاں۔‘’ میں پہلے ہی سمجھ گیا تھا۔ لاؤ پانچ سو کے نوٹ دو۔میں نے پانچ سو کا نوٹ بڑھایا۔نوجوان نے پوچھا۔ کیا نام ہے تمہارا۔ددّو شاستری نے کہا۔ میں ددّو شاستری اور یہ رویش کمار۔ رویش۔۔۔۔۔ وہ والا۔۔۔۔۔نوجوان ہنسا۔ جو ٹی وی پر الٹا پلٹا بولتا ہے۔ نہیں یہ وہ رویش نہیں ہے۔ پھر ٹھیک ہے۔یہاں باہر سے پترکار ہی آتے ہیں اورمیں ہر پترکار کو اپنے چچا سے ملواتا ہوں۔” چچا؟” وہ پولیس میں ہیں۔ یہاں پاس میں ہی تھانہ ہے۔

ددّو کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ لیکن وہ ایک ہزار لیں گے۔ میں اپنے گھر پر ہی بلا لوں گا۔‘’ ٹھیک ہے۔‘’ آؤمیرے ساتھ۔‘تھوڑی دور چلنے کے بعد نوجوان ایک گھر کے آگے رُکا۔یہ تین منزلہ پختہ مکان تھا۔گھر کے باہر دو گائیں بندھی تھیں۔ ایک مرد تھا، جو دودھ  دوہ  رہا تھا۔ نوجوان نے آگے بڑھ کر باہر کی  بیٹھک  کھول دی ۔ یہ چھوٹا سا کمرہ تھا۔ مذہبی کلینڈر جھول رہے تھے۔ ایک طرف دیوی دیوتا کی مورتیوں کے ساتھ چھوٹا سا مندر بھی بنا رکھا تھا۔ کمرے میں حبس تھا۔ چھت سے قدیم زمانے کا ایک پنکھا لٹکا ہوا تھا۔ ریک کے پاس دو تین آدھی جلی موم بتیاں بھی نظر آئیں، جو اس بات کی گواہ تھیں کہ اس قصبہ میں روشنی کا نظام درست نہیں ہے۔ دو کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔ نوجوان نے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ پھر کہا۔۔میں تھانے سے چچا کو لے کر آتا ہوں۔ تب تک میں سامنے سے چائے بھجواتا ہوں۔نوجوان کھلے دروازے سے نکل گیا۔اس درمیان ایک چھوٹا سا بچہ گلاس میں دو چائے لے کر آگیا۔اس کے ماتھے پر تلک لگا ہوا تھا۔ددّو شاستری نے میری طرف دیکھا۔ اب یہاں صرف ایک ہی قوم کے لوگ رہتے ہیں۔ میرے اندر شدید طور پر ایک سنسناہٹ دوڑ گئی۔’ کیا یہ کوئی پرتیک ہے؟‘ ددّو میری طرف دیکھ رہے تھے۔’ پتہ نہیں۔‘’ اب ایسے کئی قصبے ملیں گے۔‘’ پتہ نہیں۔‘’ ایک ہی قوم۔‘ ددّو کے لہجے میں ناراضی پوشیدہ تھی۔ کیا یہ وجے کی علامت ہے؟ جشن کی؟‘’ پتہ نہیں۔‘’ لیکن اس نوجوان کو سب پتہ ہے۔‘’ جو ابھی ابھی یہاں سے اٹھ کر گیا ہے۔؟‘’ ہاں۔‘’ ایک راشٹر۔۔۔۔۔ ایک دھرم۔۔۔۔۔۔‘مجھے اب خیال آیا کہ یہ شہر مجھے شہر خموشاں کیوں لگ رہا تھا۔ خوش ہونے کے باوجود یہ لوگ ابھی بھی اس جشن کا حصہ نہیں بن سکے تھے جو خوشی انہیں کچھ لوگوں کے گھر چھوڑنے سے ملی تھی۔ یہ بھی ایک طرح کی بیزاری ہے کہ ایک رنگ مسلسل نگاہوں کے سامنے رہے تو کچھ دیر بعد یہ رنگ آنکھوں کو چبھنے لگتا ہے۔ یہ رنگ میں نے پہاڑوں پر بسنے والوں کی آنکھوں میں بھی دیکھے تھے، جنھیں پہاڑوں کی خاموشی بیزار بنا دیتی ہے۔

کچھ دیر بعد نوجوان اپنے چچا کو لے کر آگیا۔ چچا کا نام ناگیندر پانڈے تھا۔ وہ تھانے میں حوالدار تھا۔ اس کا چہرہ سیاہ اور مونچھیں گھنی تھیں۔ کمرے میں ایک بستر بھی تھا۔ وہ بستر پر بیٹھ گیا۔ اس کا قد چھوٹا تھا اور چہرے سے مکاری و عیاری صاف نظر آتی تھی۔’ پہلے روپے دو۔‘میں نے پانچ سو کے دو نوٹ اس کی طرف بڑھائے۔ اس نے نوٹ اپنی یونیفارم کی جیب میں ڈال دیا۔ وہ زور سے ہنسا۔ پیسہ بولتا ہے۔ددّو مسکرایا۔پیسہ چیختا بھی ہے۔ناگیندر کھلکھلا کر ہنسا۔ اس کے ہنسنے کا انداز بے حد ڈراؤنا تھا۔2013ء 2مئی پچھلی تین راتوں سے لگاتار ٹرک آرہے تھے۔ کبھی کبھی ایک ساتھ تین چار ٹرک۔ ٹرک کے گھڑگھڑانے کی آواز کچھ دیر تک رہتی، پھر خاموش ہوجاتی۔ جیٹھوارہ میں برہمن، یادو، کرمی، بنیا کے ساتھ پچاس خاندان مسلمانوں کے آباد تھے۔ محمد علی بھائی، شکیل میاں،نصیر میاں، امجد بھائی یہ چاروں دوست تھے اور جیٹھوارہ سے باہر ان کا کاروبار تھا۔ کاروبار اچھا چل رہا تھا۔ ان کی دکانیں دلبر نگر میں تھیں۔ ٹرک انہی کے گھر آیا کرتے تھے۔تھانہ کے انسپکٹر کو شک تھا کہ ٹرک میں مال کے ذریعہ کچھ اور لایا جارہا ہے۔ تھانیدار شیو پال یادو اونچی پہنچ کا آدمی تھا۔ سیاسی تعلقات تھے۔سب انسپکٹر رادھے چتر ویدی کو بھی شک تھا کہ جیٹھوارہ کی فضا کو خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔مگر جب تک اوپر سے کوئی آرڈر نہ آئے، وہ کسی بھی تفتیش سے گھبراتے تھے۔خاص طورپر شیو پال یادو سے ڈرتے تھے۔یوپی میں اس وقت یادؤں کی حکومت تھی۔ شیو پال کے پاس فون آیا۔ فون لکھنؤ سے آیا۔’ سب خیریت ہے؟‘’ نہیں سر۔‘’ ہمیں پتہ ہے۔‘یہ ستیندر یادو تھے۔ حکومت کے خاص آدمی۔ان کو جیٹھوارہ پرنظر رکھنے کے لیے کہا گیا تھا۔شیو پال نے رات کے وقت آنے والے ٹرکوں کی اطلاع دی تو دوسری طرف سے کہا گیا۔’ ہمیں پتہ ہے۔‘’ پھر کیا کیا جائے۔؟‘’ معاملہ ذرا دھارمک ہے۔۔۔۔۔‘’ لیکن جیٹھ واڑہ پر اس کا اثر پڑ رہا ہے۔‘’ ہمیں پتہ ہے۔‘ دوسری طرف سے کہا گیا۔ الیکشن میں زیادہ دن نہیں ہیں۔’ پھر کیا کیا جائے۔؟‘’ ابھی کچھ مت کیجیے۔ انتظار کیجیے۔

کچھ دن تک ٹرک کے آنے کا سلسلہ بند رہا۔ ایک مہینے بعد رات میں پھر ٹرک کے گھڑ گھڑانے کی آواز آئی تو شیو پال یادو، رادھے پولیس اہلکاروں کے ساتھ جائے واردات پر پہنچ گئے۔ ٹرک روکا گیا۔ڈرائیور نے بھاگنے کی کوشش کی تو انکاؤنٹر میں مارا گیا۔ ٹرک میں اسلحہ تھا ۔ اے کے47بھی۔پولیس نے جب امجد میاں، محمد علی بھائی، شکیل میاں اور قیصر میاں کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تو کئی گھروں کے مسلمانوں نے دھاوا بول دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جیٹھ واڑہ کی فضا خراب ہوگئی۔ انکاؤنٹر میں چاروں مارے گئے۔پولیس نے بڑی تعداد میں ان کے گھر سے اسلحے برآمد کیے اور گھر کو سیل کردیا۔تنازع  نے دیکھتے ہی دیکھتے فرقہ وارانہ فسادات کا رُخ اختیار کرلیا۔ کافی لوگ مارے گئے، ان میں دونوں مذہب کے لوگ تھے۔ قصبہ میں کرفیو لگا دیا گیا۔ ایک ہفتہ تک لگاتار جیٹھواڑہ اماحول خراب رہا۔ ماحول اتنا خراب تھا کہ دس دن کے اندر مسلمانوں میں سے جو لوگ زندہ بچے تھے، وہ جیٹھواڑہ سے ہجرت کرگئے۔۔۔۔۔۔

2013 نومبرلکھی پورہ کیمپایک کیمپ سے جمیلہ کی چیخ گونجی تو آس پاس کیمپوں میں رہنے والی عورتیں جمع ہوگئیں۔ جمیلہ حاملہ تھی اور وقت قریب آپہنچا تھا۔ کیمپ میں چاروں طرف بدبوکی حکومت تھی۔ رہائش کے علاوہ کوئی بھی انتظام نہیں تھا۔ پانی کا ایک ٹینکر صبح اور شام آیا کرتا تھا۔ ان حفاظتی کیمپوں میں رہنے والوں کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ یہاں محفوظ بھی ہیں یا نہیں یا ان لوگوں کو کب تک ان کیمپوں میں رہنا ہوگا۔کبھی ٹی وی چینلز والے چلے آتے۔ کبھی ملی تنظیموں کے لوگ آکر گفتگو کرتے۔ کبھی پولیس بھی دو چار چکر دن میں کاٹ جاتی۔حکومت کے آدمی بھی آس پاس گھومتے رہتے۔ پانی کا ٹینکر آتا تو پانی بھرنے کے لیے قطار لگ جاتی۔ قطارمیں اکثر بدنظمی سامنے آتی اور گالیوں تک کی نوبت آجاتی۔لکھی پورہ کیمپ میں زندگی گزارنے والے ہر عمر کے لوگ تھے۔ ان میں کچھ بزرگ مرد اور عورتیں بھی تھیں۔ بزرگوں نے تقسیم کے دور کی کہانیاں سنی تھیں اب جو کچھ وہ محسوس کررہے تھے، وہ تقسیم کی ہولناک کہانیوں سے کہیں زیادہ ڈراؤنا تھا۔

ایک تیز بدبو حفاظتی کیمپوں میں بڑھتی جارہی تھی اور کیمپ میں رہنے والے یہ سوچنے پر بھی مجبور تھے کہ اگر یہی حال رہا تو وہ بیماریوں سے مرجائیں گے۔حفاظتی کیمپ نام کا کیمپ تھا، یہاں آنے کے بعد بیشتر لوگ بیمار ہوگئے۔ آشیانے لٹ چکے تھے، یہ درد اپنی جگہ۔ دوسرے آشیانے کی تلاش اس زندگی میں ممکن ہوگی بھی یا نہیں،یہ سوال بھی منہ پھاڑے اپنی جگہ کھڑا تھا۔ حکومت نے معاوضے کا اعلان تو کیا تھا مگر اب تک کسی کو معاوضے کی کوئی رقم نہیں ملی تھی اور نہ ملنے کی امید تھی۔ پہلی اور دوسری ریاستی حکومت تک کیمپ میں رہنے والوں کے لیے زندگی عذاب بن چکی تھی۔اس کیمپ میں80  برس کے محمد ہاشم تھے، جو ٹی بی میں مبتلا تھے۔ حفاظتی کیمپ میں اب تک 15 سے زیادہ لوگوں کی جانیں جاچکی تھیں۔ محمد ہاشم کے پاس بھی اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ محبت کی رسم کیو ں اور کیسے ٹوٹ گئی؟ پہلی جنگ عظیم آزادی کے بعد سے یہ پورا علاقہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت تھا۔1857ء کی آگ بھی یہاں نہیں پہنچی تھی۔ یہ آگ میرٹھ تک پہنچی مگر دلبر نگر کو نہیں چھو سکی۔ وہیں کیمپ میں مولانا ناظم علی ہیں جو بچوں کو پڑھایا کرتے تھے۔ اب کیمپ میں موت کا انتظار کررہے ہیں۔ان کی پیدائش آزادی سے پندرہ سال پہلے ہوئی۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنی نفرت نہیں دیکھی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ دلبر نگر کے غیر مسلم بچے ان کے پاؤں چھوکر ان سے آشیرواد لیا کرتے تھے۔ حملہ آوروں نے ان کی، بارہ کمروں کی حویلی جلادی۔ ان کو یقین ہے، یہ لوگ باہر سے آئے تھے۔۔۔ اور فساد کے چھ ماہ قبل سے کچھ خطرناک سرگرمیاں اس علاقے میں بڑھ چکی تھیں۔ ملی تنظیموں کے لوگ بھی اس علاقے میں کئی بار دیکھے گئے اور اس بات کا اندازہ ہوچکا تھا کہ دلبر نگر میں کچھ خطرناک کھچڑی ضرور پک رہی ہے۔ لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر فسادات ہوں گے جو کئی خاندانوں اورسینکڑوں لوگوں کی تباہی کا باعث بن جائیں گے۔اسی کیمپ میں رہنے والی ایک بزرگ خاتوں نعیمہ بی نے بتایا کہ پہلی بار اس نے لو جہاد کا نام سنا۔ ایک ہندو لڑکی کسی مسلم لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی تھی، لیکن یہ کوئی نئی بات تو نہیں تھی۔ ایسا تو ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔ جاٹ مسلمانوں کے خلاف ہوگئے۔ پنچایت بنی۔ پھر پنچایت مہا پنچایت میں تبدیل ہوئی۔ پھر مہاپنچایت کے بعد مہا بھارت کا کھیل شروع ہوگیا۔ فساد سے چھ ماہ قبل ہندوؤں کے درمیان مسلمانوں کے لیے اتنی نفرت بھری جانے لگی کہ مسلمانوں نے خوف کے مارے گھروں سے نکلنا بھی بند کردیا تھا۔ باہر سے اسلحے آنے لگے تھے۔ لاؤڈسپیکر میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں دہرائی جاتیں۔چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے اندر بھی زہر بھرنے کی کوشش کی جاتی۔نعیمہ بی بتاتی ہیں کہ یہ تو ایک دن ہونا ہی تھا۔

سیواڑہ بستی کی کہانی بھی ان کہانیوں سے ملتی جلتی ہے۔فساد متاثرین میں سب سے بڑی تعداد نچلے طبقے کے لوگوں کی تھی۔ خوشحال مسلمان بھی نشانہ بنے۔ کیمپ میں رہنے والے زیادہ تر کا تعلق سیفی، سلمانی جیسی مسلم برادریوں سے تھا، ان میں زیادہ تعداد میں وہ لوگ تھے جو لوہار، دھوبی، بڑھئی جیسے پیشوں سے وابستہ تھے۔ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی تھی جو جاٹوں کے ملازم تھے۔ نفرت کی آگ پھیلی تو تمام رشتے ختم ہوگئے۔ متاثرین کو شکایت رہی کہ ان کو بچانے کے لیے ملی تنظیمیں سامنے نہیں آئیں۔ جب عذاب گزر گیا تو ایسے لوگ خیریت پوچھنے کیمپوں میں نظرآرہے ہیں۔

سیلواڑہ کے کیمپ میں رہنے والے محمد حنیف کو خدشہ ہے کہ مستقبل میں یہ نفرت مزید بڑھتی جائے گی۔ذات پات کی سیاست نے بھی فسادات میں نمایاں کردار ادا کیا۔ کھاپ اور جتھے دار مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ پنچایتوں نے فسادات سے پہلے ہی مسلمانوں کی دکانوں سے خرید وفروخت پر پابندی لگادی تھی۔کیمپ کے سلیم بھی کھاپ پنچایت کو فسادات کے لیے قصور وار مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چھوٹے چھوٹے معاملات بھی کھاپ پنچایت تک پہنچ جاتے ہیں۔ مثال کے لیے دو چھوٹے بچوں کی لڑائی۔ اگر ان میں دو ذات کے لوگ ہیں تو کھاپ کا فیصلہ مسلم بچے کے خلاف ہوگا۔

ہندو مسلم شادی کی بات ہوتو کھاپ پنچایت میں تلواریں  نکل آتی ہیں۔۔۔ اور پھرمسلم خاندان کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔ جب تک عشق کے خلاف انتقام پورا نہیں ہوجاتا، کھاپ پنچایتیں خاموش نہیں بیٹھتیں۔اب سب کو اذیت کا ذائقہ لگ چکا ہے۔بڑھئی کاکام کرنے والے انیس میاں نے بتایا کہ اب کھاپ پنچایت کے نام پرڈر لگتا ہے۔اب یہ پنچایتیں روز بیٹھنے لگی ہیں۔ کبھی بھی گاؤں والوں کو جمع کرلیا جاتا ہے۔ بستی کے ہندو اور مسلمان عرصہ پہلے دو حصوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔پھر فسادات کا سلسلہ— گاؤں کے گاؤں، بستی کی بستی مسلمانوں سے خالی ہوگئی۔

عبدالرؤف کی سیواڑہ میں کپڑوں کی دکان تھی۔رؤف نے بتایا کہ تجارتی سطح پر پہلے ہندو مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔کئی جگہ دونوں برابر کے حصے دار تھے۔چینی اور گڑ کی ملیں ہندوؤں کی تھیں۔ لوہے کی بڑی بڑی ملیں مسلمانوں کے پاس تھیں۔ ملوں کے علاوہ دیگر کاروبار میں 20 فی صد ہندو اور 40 فی صد مسلمان شامل تھے۔ اب مسلمانوں کی تجارت ان علاقوں میں تقریباً ختم ہوچکی ہے۔

سفینہ بی بی نے بتایا کہ اب سب کچھ اجڑ گیا۔ ایسا لگتا ہے، ہم کسی اجنبی ملک میں رہ رہے ہیں۔وہ نیا انسان تھا اور اس کی پیدائش تیز بارش اور آندھی کے درمیان ہوئی تھی۔ لکھی پورہ کیمپ سے جمیلہ کی چیخیں گونجیں، اس وقت آسمان گرج رہا تھا۔ بدبوکی ایک تیز لہر تھی جو ماحول میں پھیلی ہوئی تھی۔ جمیلہ جس حصے میں تھی، اس حصے میں بھی زبر دست سیلن اور بدبو بھری تھی۔ عورتوں نے فیصلہ کیا کہ پاس میں ہی عیدگاہ ہے، جمیلہ کو لے کر وہیں چلتے ہیں۔ کیمپ کے مردوں نے منع کیا لیکن عورتوں میں غضب کا جوش تھا۔ کیمپ میں یہ کسی بچے کی پہلی پیدائش تھی۔ جمیلہ کا درد ناقابل برداشت ہوا جارہا تھا۔ عورتیں جمیلہ کو سمجھا رہی تھیں۔ کیمپ میں جندو بھائی رکشہ چلاتے تھے، وہ رکشہ لے کر آگئے۔ جمیلہ کو کسی طرح رکشے پر سوار کیا گیا۔ بادل گرج ضرور رہے تھے لیکن اس بات کی امید کم تھی کہ بارش ہوگی۔ بارش کے ہونے کا احساس ہوتا تو شاید جمیلہ کی کوٹھڑی میں بیٹھی عورتیں مان بھی جاتیں۔ کچھ عورتوں نے پیدل ہی عید گاہ جانا قبول کیا۔ ویسے بھی چار قدم کا راستہ تھا اور یہ بات کیمپ کے مرد اور عورتوں کو تقویت پہنچا رہی تھی کہ پہلے بچے کی پیدائش عید گاہ میں ہوگی۔عید گاہ والا علاقہ سنسان تھا۔ گھر فساد میں لٹ چکا تھا اور اب کیمپ کے پہلے بچے کی پیدائش۔چالیس پچاس کی تعداد میں مرد عورتوں کا قافلہ عید گاہ پہنچ گیا۔ عید گاہ کی مٹی والی زمین پر چھوٹی چھوٹی گھاس اُگ آئی تھی۔ ببول کے درخت بھی تھے۔زمین ابھی خشک تھی مگر بارش ہوجانے کے بعد چلنا مشکل ہوجاتا تھا۔جس وقت قافلہ عید گاہ پہنچا، ٹھیک اسی وقت بادل زور سے گڑ گڑائے، بلکہ بادلوں کا کارواں آہستہ آہستہ نیلے آسمان پر پھیل گیا۔ بجلی چمکی اور کچھ ہی دیر میں بارش شروع ہوگئی۔جمیلہ کو رکشہ سے اتارا گیا۔ وہ درد سے تڑپ رہی تھی۔ جمیلہ کو ایک بہتر جگہ لٹادیا گیا۔ ان عورتوں نے ساری تیاری کی ہوئی تھی۔ یہ وہ عورتیں تھیں، جن کو بچے کے پیدائش کے لیے کسی ہسپتال یا کسی سرجری کی ضرورت نہیں ر ہتی ہے۔بچہ ہونے، نال کاٹنے تمام عمل میں یہ عورتیں ہوشیار تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply