• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اس کو پڑھتے ہوئے سوچیے،اور سوچتے ہوئے پڑھیے۔۔اسد مفتی

اس کو پڑھتے ہوئے سوچیے،اور سوچتے ہوئے پڑھیے۔۔اسد مفتی

ایک خبر میں بتایا گیا کہ امریکہ میں کسا د بازاری کی وجہ سے برآمدات میں کمی اور اندرون مل طلب و رسد گرنے کی وجہ سے امریکی بجٹ خسارہ 14کھرب کے لگ بھگ پہنچ چکا ہے،ستمبر میں امریکہ کا ماہانہ بجٹ خسارہ 2کھرب ڈالر رہنے کا امکان ہے،جبکہ ملک کو 11ماہ کے دوران 13کھرب 78ارب ڈالر بجٹ خسارے کا سامنا ہے۔
ڈالر کا موقف دوسری جنگ عظیم کے بعد نہائیت ہی غیر مستحم ہوچکا ہے، اور کسی بھی وقت ڈالر کا موقف دوسری جنگ عظیم کے بعد نہائیت ہی مستحکم ہوچکا ہے،اور کسی بھی وقت ڈالر دنیا کی دیگر کرنسیوں کے لیے ایک بہت بڑی مصیبت بن سکتا ہے۔

2009میں بیوروآف انٹرنل ریونیو کے سابق سربراہ ٹی کول مین انڈریو نے کہا تھا،کہ “چاہے وہ انسان ہو یا شیطان،میں ہر اس نفس کو چیلنج کروں گا جو میری اس بات سے اختلاف کرے گا،کہ موجودہ صورتِ حال میں ڈالر مزید ایک دہائی تک بھی باقی نہیں رہے گا”۔
زرمبادلہ کی عالمی منڈی میں ڈالر کی قدر میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے،امریکی اقتصادیات کی ناؤ ہچکولے کھا رہی ہے۔

گزشتہ برسوں میں،2005تا 2012،اٹھارہ بار امریکی خزانے کی طرف سے شرح سود میں کمی کی گئی ہے،لیکن اس سے ڈالر کو استحکام حاصل نہ ہوسکا،ڈالر کے مقابلے میں دنیا کی چھوٹی بڑی کرنسیوں کی قدر میں لگاتا ر اضافہ ہورہا ہے۔

یورو کے روپ میں ڈالر کی حریف کرنسی پید ا ہوچکی ہے،جس نے تھوڑے ہی عرصے میں اپنے لیے نمایاں جگہ بنا لی ہے،تیل اور سونے کی مارکیٹوں کے عدم استقرار کے علاوہ امریکہ کا اعراق شام لیبیا،افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران جنگی اخراجات میں ہونے والے اضافے نے ڈالر کو ناقابلِ اعتبار کرنسی بنا ڈالا ہے۔

بش انتظامیہ امریکی تاریخ کی سب سے زیادہ فضول خرچ اور جنگی انتظامیہ تھی،اس کے عہد تاریک میں قومی قرضہ 13ٹریلین تک پہنچ گیا تھا،جب میں سے ایک تہائی قرضے چین،جاپان اور سعودی عرب سے لے رکھے ہیں،تجارتی خسارہ900اردب ڈالر تک پہنچ گیا تھا،امریکہ کا ہر شہری تین ہزار ڈالر کا مقروض بن چکا ہے،جو کرنسیاں یورو سے مربوط ہیں،وہ  کافی حد تک محفوظ ہیں،یورو کے عالم وجود میں آنے کے بعد ڈالر کے عدم استحکام کے سبب پریشان بعض چھوٹے ممالک میں سب سے پہلے یمن نے اپنے زرمبادلہ کے تمام اثاثہ جات کی یورو میں تبدیلی کا اعلان کیا تھا۔عراق کے سابق صدر مرحوم صدام حسین نے بھی ڈالر سے ناطہ توڑنے کا اعلان کیا تھا اور عربوں پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی کرنسیوں کے استحکام اور تیل کی قیمتوں میں ہر روز ہونے والے اتار چڑھاؤ سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنی کرنسیوں کا تبادلہ یورو میں عمل میں لائیں،عربوں کے لیے امریکہ کے رعب و دبدبہ کے سبب اپنی کرنسیوں کو ڈالر کے سوائے کسی اور کرنسی سے مربوط کرنا آسان نہیں ہے،اور ملک عزی کے لیے تو تقریباً ناممکن ہے۔

عرب ممالک نے اپنے تمام اثاثہ جات زرمبادلہ کے ذخائر بیرونی جائیدادیں منقولہ اور غیر منقولہ اثاثے ڈالر میں تبدیل کررکھے ہیں۔
دنیا کے بے شمار بنکوں میں خلیجی ممالک ے حکمرانوں،تاجروں اور شیخوں کی کثیر دولت ڈالر ہی کی شکل میں جمع ہے۔
انہوں نے ڈالر کے سوائے کسی اور کرنسی کو متبادل کرنسی کے طور پر کبھی نہیں سوچا،اب جبکہ ڈالر کے سفینے میں سینکڑوں سراخ ہوچکے ہیں،تو یہ لوگ اس سفینے کے دیگر مسافروں سے ہٹ کر یہی سوچ رہے ہیں کہ اس سفینے کو کس طرح پارلگایا جاسکتا ہے،جب کہ ان کے ساتھ سفر کرنے والے دوسرے مسافر اب اس بوسیدہ کشتی کے بجائے کسی دوسرے مضبوط اور محفوظ جہا ز کے ناخداؤں سے روابط قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

ڈالر کی حقیقی قیمت کیا ہے؟۔۔فیڈرل نے گزشتہ دنوں 13ٹریلین امریکی ڈالر چھاپنے کا حکم دیا ہے،تاہم اسے انتہائی خفیہ رکھا جارہا ہے،ریزرو بینک کے ملازمین سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ باہر اس کا ذکر نہ کریں،سونے اور چاندی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے،چاند ی نے گزشتہ پندرہ برس کا ریکارڈ توڑ دیا ہے،جبکہ سونا 25سالہ ریکارڈ توڑنے والا ہے۔
امریکی کاندیس نے 1913میں فیڈرل ریزرو سسٹم متعارف کرایا تھا،سونے سے ڈالر کی شرح 1.35رکھی گئی تھی،جنگ عظیم کے بعد دنیا بھر کے سونے نے امریکہ کا رُخ کرلیا،کیونکہ یورپ جنگ عظیم دوم میں تباہ ہوگیا۔جبکہ امریکہ براہ راست کسی حملے اور تباہی سے محفوظ رہا،یورپ کی تعمیرِ نو کے لیے بڑی اور خطیر رقم کی ضرورت تھی،سونے کو کرنسی کا معیار بنانے کی پالیسی وقتی طور پر تبدیل کردی گئی،اخراجات کو کنٹرول کرنے یا ٹیکس لگانے کی بجائے نوٹ چھاپنے کی پالیسی اپنائی گئی،سیاسی اور فوجی طاقت کے بل بوتے پر امریکہ نے دنیا سے ڈالر کو ریزرو کرنسی کے طور پر منوا لیا۔
بعد ازاں امریکہ نے OPECاوپک سے معاہدہ کرلیا،کہ تیل کی خریدو فروخت صرف امریکی ڈالر میں ہوگی۔

اس معاہدے سے سونے کی بجائے تیل ڈالر کے لیے زر ضمانت بن گیا اور ڈالر مضبوط ہوگیا۔اس کی طلب میں بھی اضافہ ہوا، امریکہ نے خلیج فارس میں تیل کی دولت سے مالا مال ریاستوں کی کسی قسم کے حملے یا مقامی بغاوت کی صورت میں بھرپور حفاظت کا وعدہ کیا،لیکن حالات سدا ایک جیسے نہیں رہتے۔یہ بات تاریخ ہمیں بتاتی ہے،امریکی مصنف ویلارڈ کانیلٹن نے یہ بات دنیا کو سمجھانے کے لیے ڈالر کی موت کا دن،کتاب لکھی۔ویلارڈ نے مذکورہ کتاب میں لکھا ہے،انسانی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دنیا کی کوئی معاشی طاقت ماضی میں اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکی،جب اس کے محاصل کی شرح قومی آمدنی کے 30فیصد کے برابر ہوگئی،امریکہ میں محاصل کی مجموعی شرح 30فیصد سے تجاوز کررہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی میں اوسطاً ہر امریکی اپنی بارہ ماہ کی آمدنی میں سے 4ماہ کی آمدنی محاصل کی ادائیگی میں دے دیا کرتا تھا۔ویلارڈ کے بیان کے مطابق امریکہ کی اقتصادیات تیزی کے ساتھ اپنی تباہی کے آخری دہانے پر پہنچ رہی ہے۔ جہاں سے اس کی واپسی ممکن نہیں،ایک جرمن ماہر معاشیات کلاروس نوئے نے ڈالر کے زوال کی پیشن گوئی کرتے ہوئے کہا تھاکہ آپ لوگ امریکی تاریخ کے اس لمحے میں داخل ہوچکے ہیں،جب ایک آدمی ماچس کی تیلی کے بجائے دس ڈالر کے نوٹ سے آگے جلائے گا،ڈاکتر کاروس کا دعویٰ ہے کہ ڈالر کے انحطاط کا دور شرو ع ہوچکا ہے،اور ایسا لگتا ہے کہ آئندہ دہائی کے وسط تک ڈالر 1929میں جس طرح جرمن کرنسی منظر سے غائب ہوگئی تھی،اس طرح ڈالربھی گمنامی میں چلا جائے گا اور اسے ایک دن منسوخ کرنسی قرار دے دیا جائے گی،جس طرح 6مئی 1971کو امریکی ڈالر پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی،اس دن کئی یورپی بنکوں نے امریکی کرنسی کی خریدوفروخت بند کردی تھی،کہ امریکی کرنسی کے متزلزل موقف کے سبب متعدد یورپی بنکوں کے سامنے ڈالر فروخت کرنے والوں کی قطاریں لگ گئی تھیں۔

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply