ہائی وے پر کھڑا آدمی(2)۔۔مشرف عالم ذوقی

’ایک مہرہ بلکہ وزیر دلبر نگر بھی ثابت ہوا۔ وہ دیکھو،ہم باہر ایک پتھر کی بینچ پر بیٹھ گئے۔ کچھ نوجوان زعفرانی لباس میں، پیشانی پر بڑا سا ٹیکہ لگائے جارہے تھے۔دوسری طرف سے سادھوؤں کا ایک ہجوم آرہا تھا۔ سڑک ٹوٹی ہوئی تھی اور دور تک کچی دکانیں تھیں۔ زیادہ تر دکانوں پر ویشنو بھوجن لکھا ہوا تھا۔شدّھ شاکا ہاری کھانے۔’ جنگیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ددّو شاستری نے میری طرف دیکھا۔جنگوں سے ایک نئی تہذیب برآمد ہوتی ہے۔ اس تہذیب میں جنگ کے نئے صفحے لکھے ہوتے ہیں۔جنگیں ماضی کی وراثت کو نہیں ڈھویا کرتیں۔چنگیز، ہلاکو، نادر شاہ۔۔ جنگ کی تہذیبیں ہربار نیاہلاکو پیدا کرلیتی ہیں۔ نیا چنگیز اور نیا نادر شاہ۔۔

ہزار برسوں کی تاریخ بھی یہی تھی۔ غوری چاہتا تو ایران کے قریب پارسیوں کے آتشکدہ کو برباد کر سکتا تھا مگر وہاں کیا ملتا۔ یہاں سومناتھ کا مندر تھا۔ سونے اور ہیروں سے بھرا ہوا۔ مذہب کے ہزار رنگ۔ ان میں سب سے پختہ رنگ انتہا پسندی کا ہے۔ یہ انتہا پسندی دونوں طرف رائج ہے،سادھوؤں کا ہجوم گزر گیا۔ ان کے جانے کے بعد دو تین ناگا سادھو بھی نظر آئے جو ننگ دھڑنگ تھے اور جنہوں نے سرتا پا اپنے جسم پر بھبھوت مل رکھا تھا۔ میں نے ددّو شاستری کی طرف دیکھا۔ایک حد تک تم صحیح ہو۔بڑی جنگوں کے درمیان چھوٹی جنگیں مسلسل چلتی رہیں۔آزادی کے بہتّر برس بعد بھی جنگیں جاری ہیں۔یہ جنگیں فرقہ وارانہ فسادات میں تبدیل ہوچکی ہیں لیکن فسادات میں کون مارا جاتا ہے؟ پولیس کس نظام کے تحت کام کرتی ہے؟ حکومت کی منشا کیا رہتی ہے۔ ایک مہذب دنیا میں ہزارو ں سوالات ہمیں پریشان کرتے ہیں اور خاص کر یہ فسادات، جو ہماری بھاگتی دوڑتی زندگی کا ایک حصہ بن گئے ہیں۔

تمہیں ٹروجن کی جنگ یاد ہے؟ ددّو شاستری نے میری طرف دیکھا۔ میں خاموش تھا۔فاختائیں غائب ہوگئیں۔آسمان پر گدھوں کا ہجوم تھا۔ گدھ غائب نہیں ہوئے تھے۔واپس آگئے تھے۔ یہ گدھ جاتے کہاں ہیں۔یونانیوں نے فتح حاصل کی اور ٹرائے (Troy) کو جلاکر راکھ کردیا۔ یہ فتح کا نشہ بھی عجیب ہوتاہے۔ کچھ ہی ٹروجن اس جنگ میں زندہ بچ پائے۔ ان میں ایک مشہور جنگجو بھی شامل تھا، جس نے بعد میں روم شہر کی بنیاد رکھی۔ ٹرائے کی جنگ محبت کے لیے ہوئی تھی۔محبت جو آہستہ آہستہ نفرت میں تبدیل ہوگئی۔ٹرائے کی جنگ ہیلن کے لیے ہوئی تھی۔ ایک جنگ جو12ویں اور 13ویں صدی قبل مسیح کے درمیان لڑی گئی  اور محبت کی اس جنگ نے ایک شہر کو تباہ اور برباد کردیا۔

قدیم یونانی اساطیر کے مطابق دیوتایلیوس کی شادی سمندر کی دیوی سے طے ہوئی۔ بادشاہ اس دعوت میں ایرس کی دیوی کو دعوت دینا بھول گیا۔ اس دعوت میں بہت سی خوبصورت عورتیں موجود تھیں۔ ایرس کی دیوی نے دیوتا یلیوس سے انتقام لینے کی تیاری کی  اور دل ہی دل میں کہا کہ تمہاری اس جرأت کو ہلاکت میں تبدیل کردوں گی۔بغیر بلائے وہ دعوت میں شریک ہوئی اور اس نے سونے کا ایک سیب موجود عورتوں کی طرف پھینکا، جس پر تحریر تھا،’اس چہرے کے لیے جس سے زیادہ خوبصورت چہرے کا تصور موجود نہیں۔‘اس تحریر کو پڑھ کر موجود خواتین کے درمیان خود کو سب سے خوبصورت ثابت کرنے کا مقابلہ شروع ہوگیا۔ ان میں کئی دیویاں شامل تھیں۔ ایک دیوی کا نام ہیرا تھا۔ یہ آسمان کی دیوی تھی۔ ایک دیوی ایتھینا تھی جو حکمت کی دیوی کہلاتی تھی۔ ایک دیوی افرودتیہ تھی جو محبت کی دیوی کہلاتی تھی۔تینوں دیویاں محبت کے تاج کو اپنے سر پر رکھنا چاہتی تھیں۔میں محبت ہوں، جس کی ضرورت ہے—میں حکمت ہوں،جو محبت اور اقتدار دونوں کے لیے ضروری۔۔میں آسمان کی دیوی ہوں اور حسن کی  معراج پر بیٹھی ہوں۔محبت ، حکمت اور آسمان کے درمیان تنازع  بڑھا توٹرائے کے بادشاہ نے فیصلہ کی ذمہ داری اپنے بیٹے کے سپرد کی۔ حکمت نے محبت کی طرف دیکھا اور محبت نے آسمان کی طرف۔۔ اور ہمیشہ قائم رہنے والی محبت کو یقین تھا کہ یہ تاج اس کا ہے۔

ٹرائے کے بادشاہ نے فیصلہ کرتے ہوئے اس بات کو نظر انداز کیاکہ محبت کے راستے میں بھیانک تباہی کو بھی دخل ہوتا ہے۔محبت اکثر جیت کر بھی ہار جاتی ہے۔ جس وقت بادشاہ کے بیٹے نے فیصلہ سنایا اس وقت محبت کی دیوی ہیلن کے لباس میں تھی۔ہیلن کی صورت میں تھی۔ہیلن اسپارٹا کے بادشاہ کی بیوی تھی اور اس وقت دنیا کی سب سے خوبصورت عورت میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ ٹرائے کے بادشاہ کا بیٹا جس نے فیصلہ سنایا تھا، اسپارٹا کے بادشاہ سے ملا۔ اس کا مہمان بن کر محل میں ٹھہرا اور ہیلن کو بھگاکر ٹرائے لے آیا۔ اسپارٹا نے یونانی شہزادوں سے مدد مانگی اور ہیلن کو واپس لانے کا تہیہ کرلیا۔ یونانی فوج نے ٹرائے پر حملہ کردیا۔ جنگ برسوں چلتی رہی۔ ٹرائے کے شہزادے نے اپولوسے مدد مانگی لیکن یونانیوں کی مکاری کے آگے ٹرائے کی فوج کمزور پڑگئی۔ یونانیوں نے فتح کے لیے لکڑی کے گھوڑے تیار کیے اور یہ ٹروجن گھوڑے شہر کی فصیل کے چاروں طرف کھڑے کردیے گئے۔ ٹرائے کے لوگوں نے سمجھا کہ یونانیوں نے زبردست تیاری کے ساتھ حملہ کردیا ہے اور یونانیوں کی فوج ٹرائے میں داخل ہوچکی ہے۔۔ ٹرائے کی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ ہیلن کو آزاد کرا لیا گیا۔ محل کی شاہی خاندان کی عورتیں قیدی بنا لی گئیں  اور بہت سے ٹروجن مردوں کی ناک کاٹ دی گئی۔نک کٹوے۔

اس طرح ٹروجن باغیوں کی شناخت میں آسانی ہوتی تھی۔ددّو شاستری پاس سے گزرتے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا۔ اتفاق سے اس کی ناک کٹی ہوئی تھی۔سر پر ٹوپی تھی۔’ نک کٹوے۔۔‘میں کچھ نہیں بولا۔ ادھر ادھر جاتے ہوئے رکشے والوں کو دیکھتا رہا۔۔ اور یہ بھی بھول گیا کہ دلبر نگر میں کیوں آیا ہوں۔ نک کٹوے۔۔ ایک محبت جو آہستہ آہستہ ختم کردی گئی۔ ایک رسم جو آہستہ آہستہ اٹھ گئی—بادلوں کا ہجوم غائب تھا۔ ددّو شاستری نے میری طرف دیکھا۔ ’ کیاسوچنے لگے۔۔؟

ہوانے رخ تبدیل کردیا ہے۔” سیاست میں صرف ایک ہی ہوا ہے۔” سیاست ہی کیوں؟‘’ ہندو ہوا اور مسلم ہوّا۔۔‘ ددّو شاستری زور سے ہنسا۔ چلو چلتے ہیں۔دلبر نگر کتنا خوبصورت نام ہے۔۔ دلبر محبوب کو کہتے ہیں مگر یہ نام۔۔ اب محبوب بھی کہاں ملتے ہیں۔کچھ دیر ہم نے پیدل چلنے کا فیصلہ کیا۔ اسٹیشن سے باہر نکلنے کے بعدرکشہ والوں، ٹیمپو والوں اور گاڑیوں کی آمد ورفت سے ٹریفک کا شور کانوں کو ناگوار گزر رہا تھا۔ فٹ پاتھ پر بھی دکانیں سجی تھیں۔ مگر شہر میں ایک عجیب طرح کی اداسی کا احساس ہوا۔ آگے بڑھنے پر ایک چھوٹا سا مال نظر آیا۔ مال کے قریب کچھ مسلمانوں کی دکانیں بھی تھیں۔حادثوں کو بھولنے میں کیا وقت لگتا ہے؟ یا کچھ حادثے بھلانے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔نہ فراموش کیا جائے تو حادثے زندگی کا روگ بن جاتے ہیں۔

اس لیے یہ سوال اہم تھا کہ کیا اس شہر نے چھ سات برس قبل ہوئے حادثوں کو فراموش کردیا ہے۔؟ قصبہ جیٹھوارہ، ہمیں اس قصبے کی طرف جانا تھا۔ حادثے کا شکار یہ قصبہ بھی ہوّا تھا۔کچھ دوری پر ایک ٹیمپو والازور زور سے جیٹھوارہ کانام لے کر چلاّ رہا تھا۔ ایسے کئی ٹیمپو ایک قطار سے مسافروں کو ’بھرنے‘ کے لیے کھڑے تھے۔ددّو نے میری طرف دیکھا اور ہم ایک خستہ سے ٹیمپو میں سوار ہوگئے۔ آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد ایک کچا راستہ شروع ہوا۔ اس کچے راستے پر ٹیمپو چلانا آسان نہیں تھا۔ ٹیمپو بار بار اچھل رہا تھا۔ آگے کچھ دور جانے کے بعد ایک ٹوٹی سڑک تھی۔ شاید کچھ دن قبل ہی بنی تھی۔ سڑک سے کچھ آگے بڑھنے کے بعد دونوں طرف درختوں کی قطار تھی۔ایک کنواں تھا، جس کے پاس کوئی آبادی نہیں تھی۔ کنویں کے ساتھ دوچار مکان تھے، جن میں شاید اب کوئی نہیں رہتا تھا۔ہم جیٹھوارہ میں داخل ہوچکے تھے۔شام کے چھ بج گئے تھے۔سورج غروب ہونے کی تیاریاں کررہا تھا۔ کچھ آگے ٹیمپو اسٹینڈ تھا۔ یہاں سے ہمیں کچھ دور تک پیدل چلنا تھا۔معلوم ہوا کہ اس بستی میں پہلے 500  گھر ہوا کرتے تھے، اب صرف چار سو گھر ہیں۔

2013  کے فسادات میں زندہ رہنے والے اس حد تک خائف تھے کہ راتوں رات اپنا آشیانہ چھوڑکر چلے گئے۔مسافروں کے ساتھ اتر کر، ہم ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ ایک نوجوان تھا جس نے ہمیں شک کی نگاہوں سے دیکھا۔ اس نے لوکل لہجہ میں دریافت کیا۔’ کس سے ملنا ہے؟‘’ کسی سے نہیں۔‘’ پترکار ہو ؟‘ اس کے لہجے میں نفرت شامل تھی۔’ نہیں۔‘’ پھر کس لیے جارہے ہو؟‘’ یونہی۔‘’ پھر ضرور پترکار ہوگے۔‘ددّو نے میری طرف دیکھا۔نوجوان نے آگے کہا،’جیٹھوارہ کے لوگ پتر کاروں کو پسند نہیں کرتے۔ تم لوگ بہت اُلٹا پلٹا لکھتے ہو۔‘’ ہم پترکار نہیں ہیں۔‘”ٹھیک ہے۔‘ نوجوان آگے بڑھ گیا۔ ددّو شاستری نے مجھے رُکنے کا اشارہ کیااور کہا۔’ ایک راؤنڈ دیکھتے ہیں۔ ویسے یہاں کچھ حاصل ہونے کی امید نہیں ہے۔‘’ مجھے بھی یہی لگتا ہے۔‘مجھے یقین تھا کہ میں کسی شہر خموشاں میں آگیا ہوں۔ ایک کچی دیوار ان مکانوں کے قریب سے دور تک چلی گئی تھی۔ کچے پکے مکانات تھے۔ کچھ مکان دو تین منزلہ تھے۔ کئی مکانات خالی نظر آئے۔ایک سوال تو یہ بھی تھا کہ کیا ان مکانا ت میں اب تک کوئی نہیں رہتا۔ کیا یہ وہی لوگ تھے جو راتوں رات اپنا آشیانہ چھوڑ گئے اور دوبارہ پلٹ کر نہیں آئے۔ قصبے کے قریب ایک قطار سے کئی دکانیں تھیں۔ کچھ لوگ خریداری بھی کررہے تھے۔ مگر ان سب کے باوجود ماحول میں اداس نغمہ گونجتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔پاس میں ایک مندر بھی تھا، جہاں سے بھجن کی آواز آرہی تھی۔ اب تک عمارتوں میں روشنی ہوچکی تھی۔ کچھ عورتیں تھیں جو سج سنور کر مندر جارہی تھیں۔ اچانک وہ نوجوان دوبارہ نظر آیا۔وہ مندر سے لوٹ رہا تھا۔ ددّو شاستری نے میری طرف دیکھا، پھر نوجوان کو اشارہ کیا۔اس بار نوجوان کے چہرے پر کہیں کوئی ناراضی نہیں تھی، وہ چلتا ہوا ہمارے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply