جب بات کہنا جرم ٹھہرے اور سننے کی سکت ختم ہوجائے۔۔عبدالستار

عالمی تناظر کے اس پس ِ منظر میں ہم آج ایک ایسے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں جس کی آج کی تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی دنیا کے منظر نامے پر کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ آج ہم مسل کے دور میں نہیں بلکہ عقل کے دور میں جی رہے ہیں۔

پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے ایک بڑے خون خرابے نے انسان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا اور اسی سوچ بچار کےنتیجے میں صدیوں کے دشمن ایک دوسرے کے قریب آگئے، اسی قربت کی بدولت دنیا عالمی گاؤں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اس عالمی منظر نامے پر اپنا مقام و مرتبہ بنانے کے لیے بدلتی دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملانا بہت ضروری ہے اور جو ممالک ایسا کررہے ہیں وہ علمی میدانوں میں ہم سے بہت آگے جاچکے ہیں اور ترقی کے اس تسلسل کو وہ مزید آگے بڑھا رہے ہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم آج بھی عہد وسطی میں جی رہے ہیں اور جذبات کی رو میں بہہ کر اور ماضی کے نشے میں دھت ہو کر اپنے ملک کو جلا رہے ہیں اور اپنے ہی لوگوں پر ظلم و تشدد کر رہے ہیں۔

آج کا عہد فریڈم آف ایکسپریشن کا ہے اور جمہوری روایا ت میں بطور فرد ایک انسان کو بہت اہمیت حاصل ہے اور آج کی دنیا میں جذبات کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور آج کی حقیقت انکلوژن ہے ناکہ ایکسکلوژن ۔ مذہب ، یقین اور اعتقاد ہر انسان کا نجی معاملہ ہوتا ہے ۔ ہمیں آج کی دنیا میں اس بات کا کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ ہم لوگوں کو ان کے پرائیویٹ بلیف کی وجہ سے انہیں ڈس ریسپکٹ کرنا شروع کردیں۔

دنیا میں مختلف مذاہب کے لوگ موجود ہیں اور ان کے جذبات بھی اپنی اپنی مقدس ہستیوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ ہر کسی کے جذبات کسی نہ کسی کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں اور آج کے انٹر نیشنل فریم میں ایک گلوبل شہری کی حیثیت سے ہر کسی کو کسی کے بارے میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی آزادی حاصل ہے۔

باقی رہا ان مقدس ہستیوں کا مقام و مرتبہ تو اس کو کوئی بھی ختم نہیں کرسکتا جو بلند ہے وہ بلندہی رہے گا کوئی اس کو پست نہیں کرسکتا کسی کی تنقید اور نازیبا الفاظ کسی مقدس ہستی کے مقام کو کم نہیں کرسکتے کیونکہ چاند پر تھوکا اسی کے منہ پر گرے گا اور کسی کو اس کی حرکت سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے ، کیونکہ سچ عیاں ہوتا ہے اور اسے کسی کے دفاع کی ضرورت نہیں ہوتی۔ باقی رہا ہمارا جنونی قسم کا رویہ کہ ہمیں فرانس کے سفیر کو ملک بدر کردینا چاہیے اور ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کردینا چاہیے تو یاد رکھیے ایسا طرز عمل اختیار کرنے سے مغرب کو کچھ بھی فرق نہیں پڑے گا، بلکہ ہم دنیا میں تنہا رہ جائیں گے کیونکہ وہ پروڈیوسر ہیں اور ہم صارف ہیں اور ہمارا دامن ایجادات سے بالکل خالی ہے ۔ ہمارے پاس لے دے کر اگر کچھ بچتا ہے تو صرف سستی جذباتیت رہ جاتی ہے ۔ جس کی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں ہے ۔

آج کی جدید اور ترقی یافتہ قوموں کی ترقی کا راز خیالات کی رنگا رنگی میں پنہا ہے ۔ وہاں پر مختلف خیالات کو خوش آمدید کہاجاتاہے اور لوگوں کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔اگر ہم آج اپنے ملک کو دیکھیں تو ہم نے اسے ایک جنونستان جزیرہ میں تبدیل کردیا ہے جہاں پر طلبا ء کو سوچنا سیکھانے والے اساتذہ ، پروفیسر، لکھاری اور ادیب اپنے خیالات کا آزادانہ اظہار کرنے سے خوف زدہ ہیں، وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں ہماری تحریر سے کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچ جائے اور اس کا خمیازہ انہیں جان دے کر بھگتنا پڑے گا۔ جہاں پر دانشور طبقہ محفوظ نہ رہے اسے ہر وقت اپنی جان کے لالے پڑے رہیں تو اس سماج میں نئے خیالات کا گزر کیسے ممکن ہوپائے گا، جب نئے خیالات کو خوش آمدید نہیں کہاجائے گا تو ایجادات اور دریافت کیسے ممکن ہوپائے گی؟

جب ایجادات اور دریافت نہیں ہوگی تو پھر ہم ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑے ہوکر اپنا منفرد مقام کیسے بنائیں گے؟ کتنے المیہ کی بات ہے کہ جن کفار کو ہم گالیوں سے نوازر ہے ہیں انہی کی کرونا ویکسین سے آج ہم مستفید ہورہے ہیں ،اس کے علاوہ مختلف موذی امراض کی ویکسین بھی انہی کی عطا کردہ ہیں۔ ہم فکری سطح پر زیرو ہیں اور جذباتیت میں نمبر ون ہیں۔ پچاس کے قریب دنیا میں اسلامی ممالک ہیں ، ہمارے علاوہ کیا کسی اور مسلمان ملک نے بھی ایسا رویہ اختیار کیا جس کا مظاہر ہ آج ہم کررہے ہیں؟ کیا وہ ہم سے کم مسلمان ہیں؟ کیا کسی اور اسلامی ملک کے کسی جتھے نے اپنے ملک کے حکمرانوں سے کسی سفیر کو نکالنے اور مغربی دنیا سے ناتہ توڑنے کا مطالبہ کیا؟

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں تھوڑا سا اپنی اداؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اندر مختلف سوچ رکھنے والے لوگوں کر برداشت کرنے کی سکت ہونی چاہیے۔ ریزننگ اور ریشنیلیٹی کے اس دور میں ہمیں ڈائیلاگ کو فروغ دینا چاہیے ، ایک دوسرے کو سننے اور جاننے سے ہی برداشت کا کلچر فروغ پاتا ہے، ہمیں اپنی ذات کے حصار سے نکل کر اوروں کو جاننے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply