محمد خان صاحب کے نام ۔۔نویدہ کوثر

آج کا دن ،،میرے عزیز ترین  محمد خان کے نام ۔انہوں نے “بادبان” لکھی، میں نے منگوائی،پڑھی، مگر اس پہ تبصرہ کرنے سے پہلے بیمار   ہوگئی ۔

مجھے ان کی کتاب اتنی عزیز ہے کہ سب اَن پڑھ ملازمین اور پوتے پوتیوں کو بھی دادی کی پسندیدہ نیلی کتاب کا پتہ ہے۔نیلا رنگ  آفاقیت اور وسعت کی نشانی ہے، اور یہ دونوں خوبیاں محمدخان کی تحریر کی نمایاں ترین خوبیاں ہیں ۔ فیس بک پہ لکھا ہوا ہر لفظ جو ان سے منسوب ہے، مجھے ہمیشہ اچھا، لگا کیونکہ میں ان سے اتنی بے لوث محبت کرتی ہوں کہ مجھے ان سے منسوب ہر شئے اچھی لگتی ہے ۔

کتاب کا جائزہ لینے کے لیے بہت مشکل سے میں نے بہت غیر جانب داری برتی ہے، تاکہ سب خوبیاں خامیاں سامنے آسکیں ۔۔تو لیں جناب اردوادب کی استانی کا ناقدانہ جائزہ ۔۔

1۔ سب سے پہلی خوبی کتاب کی کہانی سنانے کے لیے عنوانات کی فہرست مرتب کی  گئی ہے ۔جسے آپ الگ الگ بھی پڑھیں تو بھی مزہ آتا ہے، اور اگر ملا کے ساری کہانی دیکھیں تو زندگی کی بہت سی گہری رمزیں سامنے آتی ہیں ۔

2۔ اس فہرست نے میرا دل لوٹ لیا ،جس طرح کالا ،سرخ ،پیلا رنگ اپنی اپنی منفرد خوبی رکھتے ہیں ،بالکل اسی طرح اردو کے حروف تہجی بھی اپنی اپنی جگہ ایک خاص مقام رکھتےہیں ۔ محمد خان نے “ت”کو اپنی پوری فہرست کے لیے چنا ۔۔۔” ت” بہت جادوئی حرف ہے، ترنم ،ترانہ ،ترنگ سب اس “ت” سے منسوب ہیں، اب فہرست ملاحظہ ہو

تمدن ،توکل،تادیب، تعلق،تقسیم،تماشے اور تمت یعنی خاتمہ ۔۔ ہر حصّہ اپنے عنوان سے عین مطابقت رکھتا ہے اور جامعیت میں کمال ہے ۔

3۔ اس کتاب میں زندگی کےتجربات کے رنگ حیران کن ہیں ۔زندگی کیا کیا کرشمے کرتی ہے ،مقدر کیا کیا کھیل رچاتا ہے ۔یہ کتاب ہر رنگ کو اجاگر کرکے دلچسپی کو برقرار رکھتی ہے۔

4۔کتاب میں بے شمار ایسے فقرات جابجا ملتے ہیں جو ضرب المثل بننے کے لائق ہیں اوریہ ظاہر کرتے ہیں کہ محمدخان صرف زندگی کے رموز سے ہی آشنا نہیں بلکہ وہ ادب کی تمام رگوں کے بھی نبض شناس ہیں ۔۔ایک باکمال مشاہدہ دیکھیے :

ذہن خالی  ہو جائے تو بندہ اپنے جرائم کے اعتراف کا سہارا لیتے ہوئے  اپنے سب خوف زبان پہ لے آتا ہے۔

اس فقرے کی گہرائی ہمیشہ اپنے اوپر آزما کے دیکھیں ۔۔ ایک اور فقرہ یہ ہے :

ہر باپ شفقت پدری سے بیٹے کو دعا دیتا ہے، لیکن جو بیٹا باپ کی جوانی کو بھی اپنی جوانی کے ساتھ واپس کھینچ لائے تو تب دی گئی دعا بیٹے کی وہ کمائی ہوتی  ہے، جس کا زمانے میں کوئی بدل نہیں ۔

اس فقرے کو میں نے زندگی کے تجربے سے بہت پرکھا ہے ۔۔۔اور طوالت سے بچتے ہوئے یہ آخری مثال :

سالٹ رینج کا نمک اور یہاں کے باسی دینا میں ہر جگہ ملتے ہیں ۔نمک زبان پہ رکھتے ہی اور بندے کی زبان سنتے ہی دونوں پہچانے جاتے ہیں 

Advertisements
julia rana solicitors london

بالکل جناب محمد خان صاحب ہم نے آپ کو پہچان لیا تھا اسی لیے آپ کا دامن کبھی لمحہ بھر کو نہیں چھوڑا اور والسّلام اس خواہش  کے ساتھ کہ میرا تعزیت نامہ محمدخان کے ہاتھوں لکھا جائے ۔جیتے رہیے ،بہت پیار!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply