• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان کی سینٹ،قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں تشریف فرما 1200خواتین وحضرات کے نام اعظم معراج کا کھلا خط

پاکستان کی سینٹ،قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں تشریف فرما 1200خواتین وحضرات کے نام اعظم معراج کا کھلا خط

سلام!

محترم/محترمہ

قیام پاکستان سے لے کر اب پاکستان کی مذہبی اقلیتیں کبھی بھی ان کے لئے وضع کیے گئے انتحابی نظاموں سے مطمئن نہیں رہیں ، یقیناً یہ اس ملک کی سیاسی اشرفیہ کی اجتماعی سیاسی دانش پر ایک سوال ہے۔ ساتھ ہی کچھ  عرصے سے ملک کے کونے کونے سے ان تقریباً  78 لاکھ پاکستانی شہریوں کے لئے دوہرے ووٹ کا مطالبہ بھی زور پکڑتا جارہا ہے۔ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے دوہرہ ووٹ کیوں ضروری ہے؟۔۔ آئیں اس سوال کا جواب ماضی اور حال میں پاکستانی مذہبی اقلیتوں کے لئے وضع کئے گئے انتخابی نظاموں اور اس سوال سے متعلق دستیاب اعداد و شمار اور زمینی حقائق کے ذریعے ڈھونڈتے ہیں۔

لیکن اس سے پہلے آپ سے گزارش ہے۔ آپ دھرتی کے ان بچوں اور محب وطن شہریوں کے لئے اس خط کو پڑھنے پر دس منٹ کی سرمایہ کاری ضرور کریں۔ کیوں کہ آپ اس مسئلے سے باخبر ہونگے تو اس کے حل کے لئے کچھ  کرسکیں گے۔لہذ ا اسے پڑھنا بھی آپ کا اس مسئلے کے حل میں ایک حصہ ہی ہوگا ۔

شفاف اور انصاف پر مبنی انتحابی نظام مذہبی اقلیتوں کے  80  فیصد سیاسی معاشرتی مسائل کے حل کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔اور آج کے دور میں کسی بھی قوم کی ترقی کے معیار کو ناپنے کےاعشاریوں میں اس معیار کو بھی پرکھا جاتا ہے کہ  وہاں کے کمزور طبقات مثلاً خواتین بچے اور اقلیتیں کتنی مطمئن اور محفوظ ہیں۔

آئیں     کچھ   حقائق  و  شواہد جانیں ۔

پاکستان کے2017ءکی افراد شماری کے غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 77,49,988 غیر مسلم شہری ہیں۔ جن کے ووٹوں کی تعداد29مارچ2018کے الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق 36لاکھ تین سو ہے ۔ جن میں ہندو ووٹرز17,77,289، مسیحی ووٹرز16,38,748 ہیں ،جبکہ احمدی  ،سکھ ، بہائی ،پارسی اور بدھسٹ  ووٹرز مجموعی طور پرتقریباً  2،15000ہیں ۔ ان لاکھوں ووٹرز کی مذہبی شناخت پر اس وقت 38 نمائندے ایوانوں میں ہیں۔جن میں چار سینیٹر ،دس ایم این اے اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں چوبیس ایم پی اے ہیں۔ 1946 سے 1954تک دو دفعہ بننے والی اسمبلیوں میں بلترتیب 14اور11ممبران تھے۔ یہ ممبران سلیکشن کے ذریعے ایوانوں میں پہنچے تھے۔ جن میں سے صرف دو مسیحی اور دو ہندو پاکستانیوں کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا۔ 1962سے 1964 اور1965سے1969تک بننے والی اسمبلیاں مخلوط طرز انتخاب سے بنیں۔ نتیجتاً مخلوط الیکشن میں کوئی غیر مسلم سیٹ نہ حاصل کرسکا۔

نیشنل اسمبلی

7دسمبر1970 ءمیں پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر الیکشن ہوئے، پورے پاکستان سے صرف ایک صوبائی اسمبلی سے رانا چندر سنگھ اور قومی اسمبلی کے لئے راجہ تری دیو کے علاوہ کوئی غیر مسلم پاکستانی انتخابات نہ جیت سکا۔ مسیحیوں نے اپنے ادارے قومیائے جانے اور ایوانوں میں نمائندگی نہ ہونے پر احتجاج کیا۔30اگست1972ءکو راولپنڈی میں حکومت وقت نے جلوس پر گولی چلائی ،آر۔ ایم۔ جیمز اور نواز مسیح شہید ہوئے۔جدوجہد جاری رہی۔ ۔

پنجاب اسمبلی

جس کے نتیجے میں 21نومبر1975ءکو آئین پاکستان میں چوتھی آئینی ترمیم کے ذریعے غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے قومی اسمبلی میں چھ سیٹیں مختص کی گئی۔ جن پر چار مسیحی، ایک ہندو اور ایک پارسی پاکستانی ممبران قومی اسمبلی بنے۔ اس ترمیم میں سیٹیں مخصوص ضرور کی گئیں لیکن غیر مسلم پاکستانیوں کے قومی ووٹ کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کی گئی۔

سندھ اسمبلی

1977 کے انتخابات میں بھی یہ ہی طریقہ انتخاب اپنایا گیا، غیر مسلم پاکستانیوں نے بھی قومی سطح پر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ مارشل لاءلگا۔1985میں صدارتی حکم نامے سے غیر مسلم پاکستانیوں کو جداگانہ طریقہ انتخاب دیا گیا ،قومی اسمبلی کی سیٹیں چھ سے دس کر دی گئیں ، جن میں چار ہندوں، چار مسیحیوں کے لئے اور دو دیگر اقلیتوں کے لئے تھی لیکن اس حکم نامے سے جہاں غیر مسلم پاکستانیوں کو اپنے نمائندے مذہبی شناخت پر چننے کا حق مل گیا۔۔

بلوچستان اسمبلی

لیکن ہزاروں سال سے اس دھرتی پر بستے ان دھرتی واسیوں کو ایک جنبش قلم سے قومی دھارے سے کاٹ کر سیاسی اچھوت بنا دیا گیا۔ اس امتیازی طریقہ انتخاب سے 1985 سے1997ءتک پانچ بار انتخابات ہوئے مذہبی شناخت پر نمائندے دے کر قومی ووٹ چھین لیا گیا۔ لوگ قومی شناخت کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ جس کے نتیجے میں2002ءکے الیکشن سے پہلے غیر مسلم پاکستانیوں کو واپس قومی دھارے میں واپس لایا گیا جس سے انہیں 849 حلقوں میں دوبارہ ووٹ دینے کا حق مل گیا۔

مذہبی شناخت پر تینوں ایوانوں میں 38نمائندے بھی دستیاب رہے۔لیکن ان 38 نمائندوں کو منتخب کرنے کا اختیار سیاسی اشرافیہ نے متناسب نمائندگی کے نام پر اپنے پاس رکھ لیا۔ لہٰذا اب ان غیر مسلم پاکستانی شہریوں کی مذہبی شناخت پر38نمائندوں کو صرف پانچ یا چھ پارٹیوں کے سربراہ اور ان کے مشیر سلیکٹ کرتے ہیں جو کہ غیر آئینی اور غیر جمہوری ہے۔ جس سے دوہری نمائندگی ہونے کے باوجود پاکستان کی مذہبی اقلیتوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ اور مذہبی اقلیتی افراد ان نمائندوں کو اپنے نہیں اپنی  پارٹیوں کے سربراہوں کے نمائندے سمجھتے ہیں۔

سرحد اسمبلی

لہذ ا  غیر مسلمان پاکستانیوں کے لئے انتخابی نظاموں کے پچھتر سالہ تجربات اور پاکستان کے معاشرتی و جمہوری معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ ہی نتیجہ نکلتا ہے،  کہ اگر غیر مسلم پاکستانیوں کو ایوانوں میں ان کی مذہبی شناخت پر نمائندگی بھی دینی ہے۔ اور انہیں قومی دھارے میں بھی شامل رکھنا ہے، جو کہ ان کا بنیادی انسانی شہری اور سیاسی حق ہے۔ تو انہیں آئین میں ترامیم کرکے دوہرے ووٹ کا حق دیا جائے۔ ”کیونکہ ماضی کے مخلوط اور جداگانہ طریقہ انتخاب سے مخلوط طریقہ انتخاب سے مذہبی شناخت پر نمائندگی ملنے کے امکانات نہایت کم اور جداگانہ سے وہ قومی دھارے سے کٹ جاتے ہیں جبکہ حالیہ مخلوط کے ساتھ متناسب نمائندگی سے دوہری نمائندگی کے باوجود وہ ان نمائندوں کو اپنا نہیں چند سیاسی پارٹی راہنماؤں  کا نمائندہ سمجھ کر ان سے غیر مطمئن اور بے چین ہیں“ ۔

لہذا جس طرح 1947سے 1970تک کے تجربات سے سیکھ کر چوتھی آئینی ترمیم کی گئی،پھر 1985سے 1997تک کے تجربے سے سیکھ کر 2020میں انتخابی نظام تبدیل کیا گیا،اسی طرح 75 سال میں کیے گئے تجربات سے سیکھ کر اس انتخابی نظام میں بے ضرر سی آئینی ترامیم سے دوہری نمائندگی کو دوہرے ووٹ کے ذریعے سے نافذ العمل کروایا جائے،یہ آئینی ترمیم پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے ساتھ آئین پاکستان کی شِق 226کی بھی ضرورت اور ڈیمانڈ ہے۔اس سے یقیناً ملک و قوم کو مضبوط کرنے اور اقوامِ عالم میں ملک کے وقار میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا  کار اور سترہ کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply