کشمیر ۔ آزاد کشمیر کا نظام (32)۔۔وہاراامباکر

آزاد کشمیر کے عبوری آئین کے شیڈول تھری کے تحت پاکستان کے پاس اہم معاملات کے اختیارات ہیں جبکہ نچلی سطح کے اختیارات آزاد کشمیر کے پاس ہیں۔ آزاد کشمیر کونسل کے چئیرمین پاکستان کے وزیرِ اعظم ہوتے ہیں۔ ممبران میں پانچ پاکستانی اور آٹھ آزاد کشمیری وزراء ہیں اور چھ ممبرانِ اسمبلی۔ اگرچہ اس کونسل کے ملاقات شاذ ہی ہوتی ہے لیکن اس کے ذریعے آزاد کشمیریوں کو پاکستان کے طاقتور وزیرِاعظم اور اہم وزراء تک رسائی مل جاتی ہے۔
آزاد کشمیر میں پاکستانی آرمی کی بھاری نفری موجود ہے۔ اگرچہ اس کا تعلق لائن آف کنٹرول کے دوسری طرف انڈین آرمی سے ہے لیکن اس کو امن و امان کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ دو مرتبہ پونچھ میں 1950 اور 1955 میں اٹھنے والی بغاوت پر قابو پایا گیا تھا۔ انتظامیہ میں چیف سیکرٹری، فائننس سیکرٹری، اکاونٹنٹ جنرل، آئی جی پولیس اور ڈویلپمنٹ کمشنر کے عہدوں میں تقرر براہِ راست اسلام آباد سے کیا جاتا ہے۔ (یہ روایت ریاستِ جموں و کشمیر کے مہاراجہ دور سے چلی آ رہی ہے جو پونچھ جاگیر کے لئے اہم عہدوں کے لئے تقرر کیا کرتے تھے)۔
آزاد کشمیر میں 1970 سے منتخب اسمبلی موجود ہے۔ اکتوبر 1970 کے انتخابات سب سے زیادہ منصفانہ اور شفاف سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے بعد باقاعدگی سے انتخابات ہوتے رہے ہیں۔ مسلم کانفرنس اب بھی موجود ہے لیکن پاکستان میں مقبول سیاسی جماعتوں کی اب مضبوط موجودگی ہے۔ بہت اہم مثبت تبدیلی یہ ہے کہ یہ انتخابات جاندار ہوتے ہیں جس میں اسلام آباد میں حکومت کے مخالف وزیرِاعظم بھی بنتے ہیں۔ موجودہ وزیرِ اعظم راجہ فاروق حیدر کا تعلق پاکستان مسلم لیگ (ن) سے ہے۔ اس سے پہلے چوہدری عبدالمجید کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا۔
انتخاب میں تمام امیدواروں کو اور ممبرانِ پارلیمان کو حلف لینا پڑتا ہے کہ وہ جموں و کشمیر ریاست کے پاکستان الحاق کے حق میں ہیں۔ جو ایسا نہیں کرتا، وہ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ انتخاب نہیں لڑ سکتا جس کا موقف کشمیر کی آزاد حیثیت ہے۔ آزاد کشمیر کے لوگ پاکستانی قومی اسمبلی کے لئے یا سینیٹ کے نمائندگان کے لئے ووٹ نہیں دے سکتے۔ یہاں پر روایت رہی ہے کہ آدھے سے زیادہ اسمبلی ممبران کو وزیر کا عہدہ ملتا ہے۔ عام طور پر حکومت کے تمام ممبران وزیر ہوتے ہیں۔ بیوروکریسی بڑی ہے۔ سرکاری ملازمت روزگار کا سب سے بڑا طریقہ ہے۔ آزاد کشمیریوں کے لئے پاکستان میں پبلک سروس میں دو فیصد کا کوٹا مختص ہے۔ پاکستان آرمی میں شامل ہو سکتے ہیں۔ آزاد کشمیری جب سفر کرتے ہیں تو پاکستانی پاسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ پاکستانی شناختی کارڈ استعمال کیا جاتا ہے۔
مجموعی طور پر اقتصادی لحاظ سے پسماندہ ہے اور بجٹ خسارے کا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے پاکستان پر منحصر ہے۔ اس علاقے کے دو بڑے شہر مظفر آباد اور میرپور ہیں۔ ان کا آپس میں براہِ راست رابطہ آزاد کشمیر کے اندر سے نہیں۔ راولپنڈی کے ذریعے ہے۔ علاقے میں روزگار کے اچھے مواقع نہ ہونے کے سبب پاکستان جاتے ہیں یا بیرونِ ملک ملازمت حاصل کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے میرپور کے لوگ بڑی تعداد میں برطانیہ میں موجود ہیں۔ اس کی وجہ ڈوگرہ دور سے ہے۔ یہاں کے لوگوں نے بڑی تعداد میں انڈین بندرگاہوں اور بحریہ میں شمولیت اختیار کی اور دوسری جنگِ عظیم میں حصہ لیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد بہت سے لوگوں نے برطانیہ رہنے کو ترجیح دی۔ منگلا ڈیم بن جانے کے بعد پرانا میرپور زیرِ آب آ گیا۔ اس وقت بھی بڑی تعداد برطانیہ گئی تھی۔ منگلا ڈیم پانی کا اہم ذخیرہ ہے بھی ہے اور بجلی بھ پیدا کرتا ہے۔ 2004 سے اسلام آباد اس کے استعمال کے عوض آزاد کشمیر کو رائلٹی ادا کر رہا ہے۔ اس وقت میں ڈیم کی مرمت اور توسیع بھی کی گئی تھی۔
آزاد کشمیر میں بہتے پانی پر ہائیڈل پراجیکٹ کی اجازت بھی اسی وقت میں ملی۔ یہاں پر چھوٹے پیمانے پر ایسے منصوبوں کی گنجائش ہے اور آزاد کشمیری لیڈروں کا مطالبہ رہا تھا کہ انہیں بنایا جائے۔ پاکستان کی طرف سے اجازت نہ ملنے کی وجہ تنازعہ کشمیر تھا۔ ایک خوف تھا کہ اگر یہاں پر بھاری سرمایہ کاری کی جائے اور علاقہ انڈیا کے پاس چلا جائے تو یہ ضائع جائے گی۔ اب اس حوالے سے سوچ تبدیل ہوئی ہے۔
آزاد کشمیری تارکینِ وطن پاکستان کے لئے اہم رہے ہیں۔ خاص طور پر میرپور سے تعلق رکھنے والے۔ پاکستان کے لئے زرِ مبادلہ کی ترسیل کا یہ اہم سورس ہے۔ ان میں سے ایک تعداد خود کو کشمیری کہلانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بیرونِ ملک کشمیریوں کی ایک تعداد عرب ممالک میں ہے۔ یہاں پر انہیں پاکستانی ہی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ برطانیہ میں رہنے والوں کے برعکس ان کا پاسپورٹ پاکستان کا ہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments