• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت بلتستان عبوری صوبے کیلئے قرارداد، مسئلہ کشمیر کے تناظر میں سلامتی کونسل کی قردادیں اور ریاستی بیانیہ۔۔شیر علی انجم

گلگت بلتستان عبوری صوبے کیلئے قرارداد، مسئلہ کشمیر کے تناظر میں سلامتی کونسل کی قردادیں اور ریاستی بیانیہ۔۔شیر علی انجم

مورخہ  9مارچ 2021 کو گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی سے ایک قرارداد پاس ہوئی جس میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کاعبوری آئینی صوبہ قرار دیکر پاکستان کے ایوان بالا اور دیگر اہم مالیاتی اداروں میں گلگت بلتستان کو نمائندگی دی جائے۔ قرارداد میں یہ بھی مطالبہ کیا کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کیلئے آئین پاکستان میں مناسب ترمیم کا بل پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے اور اس بات کا خیال رکھا جائے کہ مذکورہ ترامیم سے اقوام متحدہ کی مسئلہ کشمیر سے متعلق قراردادوں کی روشنی میں پاکستان کا اصولی موقف بھی برقرار رہے۔

اس قرارداد کی روشنی میں اس بات کو سمجھنا انتہائی اہم ہے کہ کیا گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ریاست جموں کشمیر کی جعفرافیائی حیثیت میں تبدیلی کیلئے کوئی قرادادلائیں؟ کیونکہ اسمبلی سے منظور قرارداد میں اس بات پر زور دیا  ہے کہ مسئلہ  کشمیر سے متعلق پاکستان کا  اصولی موقف بھی برقرار رہے اور آئین میں ترمیم بھی ہو جو کہ انتہائی مضحکہ خیز اور گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبران کی مسئلہ کشمیر اور گلگت بلتستان کی قانونی حیثیت سے متعلق لاعلمی کو واضح کرتی ہے۔ لہذا سب سے پہلے اس بات کا علم ہونا ضروری ہے کہ آخر سلامتی کونسل کی قرادادیں کیا کہتی ہیں ؟ کیا سلامتی کونسل کی  قردادوں میں گلگت بلتستان کی ریاست جموں کشمیر سے ہٹ کر قانونی حیثیت   واضح کی گئی ہے ؟ جس بنیاد پر گلگت بلتستان اسمبلی نے آئین پاکستان میں ترمیم کا مطالبہ کیا  ہے۔

یہاں دلچسپ بات یہ ہے، کہ اقوام متحدہ کی جن قراردادوں کا حوالہ دے کر گلگت بلتستان کی اسمبلی نے قرارداد پاس کرکے عبوری صوبے کا مطالبہ کیا  ہے , اقوام متحدہ کی مسئلہ کشمیر پر پاس کی گئی انہی قراردادوں میں سے ایک اہم قرارداد جو کہ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 122 کہلاتی ہے , جس میں صاف طور پر لکھا گیا ہے کہ ان اسمبلیوں کے پاس ایسا اختیار ہی موجود نہیں ہے جس کے تحت وہ ریاست کے  مستقبل کا فیصلہ کریں۔ یہاں یہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ گلگت بلتستان اسمبلی کی قراداد کی مسئلہ کشمیر سے متعلق سلامتی کونسل کی  قراردووں کی روشنی میں کوئی حیثیت نہیں بلکہ یہ قرارداد دراصل سلامتی کونسل کی  قراددوں اور ریاست پاکستان کے قومی بیانئے کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

سلامتی کونسل کی قراردادیں گلگت بلتستان کے حوالے سے  کیا کہتی ہیں  ،ملاحظہ فرمائیں۔

155. The following submissions were presented by the Pakistan Government on part II of the resolution of 13 August 1948: (a) Paragraph A, 1, in connection with B, 1. — A plan should be prepared by which the withdrawal of the Pakistan forces and the “bulk” of the Indian forces would be synchronized. The Azad forces should be withdrawn from the forward areas for reorganization and training. When this process was completed, these forces would replace the regular Pakistan troops. (b) Paragraph A, 2. — The Pakistan Government would complete the fulfillment of its commitments by the middle of February 1949. (c) Paragraph A, 3. — It was necessary to define: (1) “Evacuated territory”, in order to determine the areas under the control of both Governments ; (2) “Local authorities”, which raised the question of the Azad Kashmir “Government” and the Pakistan Political Agent in Gilgit; (3) The scope of the word “surveillance”. (d) Paragraph B, 1. — See sub-paragraph (a) above.
یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ تاریخی پس منظر میں گلگت بلتستان کی آزادی سے اُس آزادی کو سبوتاژ  ہونے تک کے واقعات کو فراموش نہیں کرسکتے کیونکہ آج گلگت بلتستان کے حوالے سے جب یہاں کے اسٹیک ہولڈرز جس سلامتی کونسل کی  قرارداد کی بنیاد پر حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں وہ دراصل یکم نومبر 1947 کو قائم ہونے والی  انقلابی کونسل اور جمہوریہ گلگت کے قیام کے  مرہون منت ہیں۔

27 اکتوبر 1947 کو جب مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا تو گلگت لداخ کے اندر بغاوت کی صد ائیں بلند ہونا شروع ہوئیں  ۔ کرنل مرزا حسن خان اپنی کتاب شمشیر سے زنجیر تک میں لکھتے ہیں کہ 1946 کے  اواخر میں اس بات کا ارادہ کرلیا تھا کہ اگر مہاراجہ نے عوام سے رائے لئے بغیر ہندوستان کے ساتھ الحاق کرلیا تو بغاو ت کرکے پوری ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا ہے۔ اس حوالے سے اُنہوں نے باقاعدہ خفیہ انقلابی کونسل بھی تشکیل دی تھی۔لیکن کرنل مرزا حسن خان جیسے ہیرو کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا گیا وہ بھی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ یوں مہاراجہ کی جانب سے الحاق ہندوستان کے بعد کرنل مرزا حسن خان کی قیادت میں مہاراجہ فوج اور گلگت اسکاؤٹس کے افسران نے فوج سے بغاوت کا اعلان کرکے گلگت میں تعینات گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کرکے الگ ریاست کے  قیام کا باقاعدہ اعلان کرکے کابینہ تشکیل دی اور خود مرزا حسن خان آرمی چیف اور شاہ رئیس خان ریاست   کے صدر منتخب ہوئے۔

یاد رہے یہ سارا عمل باقاعدہ طور پر عوام کو اعتماد میں لیکر انجام پایا تھا۔ لیکن برطانوی سامراج ایجنٹ گلگت میں تاج برطانیہ کا آخری افسر میجر بروان کو حسن خان نے اپنے ماتحت کردیا تھا بس چال شروع ہوگئی اور انقلاب گلگت نے صرف 16 دنوں میں دم توڑ دیا اور میجر بروان نے  فرقہ واریت کا پتہ خوب کھیلا، جس میں انہیں کامیابی ملی۔یوں پاکستان سے آئے ہوئے ایک رابطہ افسر کو پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کردیا اور کہا گیا کہ آپکا الحاق ہوگیا ہے۔ دوسری طرف اُس نے آتے ہی ایف سی آر نافذ کرکے تمام تر اختیارات اپنے ہاتھ میں لئے۔ ہری سنگھ کی جانب سے الحاق کے بعد جب ہندوستان کو کشمیر میں مداخلت کی قانونی حیثیت مل گئی اُس وقت کے ہندوستانی وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو کشمیر کے مسئلے کو دسمبر 1947 میں اقوام متحدہ میں لے کرگیا۔ یوں اقوام متحدہ میں ایک کمیشن بنی جسے UNCIPکہتے ہیں اور 13 اگست 1948ء کی متفقہ قرارداد میں فریقین کے مابین طے پایا کہ پاکستان اپنی فوج اور قبائلیوں کو نکال لے گا اور پاکستان کے زیر ِ قبضہ علاقہ جات کا انتظام مقامی انتظامیہ سنبھالے  گی ،یعنی گلگت، مظفر آباد لوکل اتھارٹی کے قیام کو یقینی بنا کر صرف چھے ہفتوں کے اندر رائے شماری کو یقینی بنائے گا ۔ ساتھ میں یہ بھی واضح کیا کہ اقوام متحدہ کی کمیشن مقامی حکمرانوں کی نگرانی کرے گا۔ لیکن بدقسمتی سے گلگت بلتستان میں آج تک اُس متفقہ قراداد پر عمل درآمد نہیں ہوا، جبکہ آزاد کشمیر والوں کو اُسی قراداد کی بنیاد پر متنازعہ حیثیت کے ساتھ قومی شاخت ملی ہوئی ہے۔

اس  کے علاوہ جس طرح اسمبلی سے منظور کردہ قراراداد میں کہا گیا ہے کہ آئین میں ترمیم کریں ۔لیکن پاکستان کے آئین کی  دفعہ257 کہتی ہے کہ جب ریاست جموں اور کشمیر(گلگت بلتستان،لداخ،آزاد کشمیر۔جموں اور وادی کشمیر) کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرلیں گے تو پھر پاکستان اور ریاست کے مابین تعلقات کا فیصلہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا۔ یہاں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر کے کسی حل کی کوئی گنجائش موجود نہیں، اگر کسی کومسئلہ کشمیر کے کسی غیر روایتی حل کی تلاش ہے تو اسے سب سے پہلے پاکستان کے آئین کی دفعہ257 کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے اس قسم کی  قراداد کی منظوری  پر میڈیا پر اس حوالے سے قیاس آرائیاں ، کیا  آئین پاکستان کی خلاف ورزی نہیں ہے؟

اسی طرح21 اپریل 1948 کو منظور کی گئی ایک قرار داد میں کمیشن کو ہدایات دی گئیں، کہ وہ خطے میں جا کر دونوں ممالک کے درمیان امن بحال کرائے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے منعقد کرانے کے انتظامات کریں۔ آگے چل کر14 مارچ 1950 کی قرار داد میں بھارت اور پاکستان کو اپنی فوجیں کنٹرول لائن تک پیچھے ہٹانے کے لیے کہا گیا۔ شمالی علاقہ جات (گلگت لداخ)کو اقوام متحدہ کے زیر انتظام کیا گیا اور استصواب رائے کے انعقاد کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے نمائندہ منتخب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔10 نومبر 1951 کی قرار داد میں اقوام متحدہ کے نمائندے فرینگ گراہم کی رپورٹ پیش کی گئی اور انہوں نے سلامتی کونسل میں خطاب میں کہا کہ بھارت اور پاکستان کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلانے، تنازع کشمیر کو باہمی رضا مندی سے حل کرنے اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی میں استصواب رائے کے قیام پر رضا مند ہوگئے ہیں۔24 جنوری 1957 کو منظور کی گئی اس قرار داد میں کہا گیا کہ آل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کی قانون ساز اسمبلی متنازع جموں و کشمیر کے مستقبل سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ قرار داد میں مزید کہا گیا کہ سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 91 کے مطابق جموں و کشمیر علاقہ متنازع  ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ریاست پاکستان ان تمام شقات کو تسلیم کرتی ہے اور پاکستان کے سربراہان مملکت اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں مسئلہ کشمیر کے  حل کیلئے سلامتی کونسل کی  قرادادوں کا پابند ہونے اور اقوام متحدہ کے چارٹررڈ کے مطابق رائے شماری کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے دفتر خارجہ کی  ہفتہ وار بریفنگ میں گلگت بلتستان کی حیثیت کے حوالے سے صحافیوں کے سوالات کے جواب میں بھی ہمیشہ گلگت بلتستان کو ریاست جموں کشمیر کی اکائی کے طور پر تسلیم کرنے اور گلگت بلتستان کی قانونی حیثیت تبدیل نہ کرنے کے بیانات میڈیا کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ایسے میں گلگت بلتستان عبوری صوبے کیلئے قرارداد ایسا لگتا ہے کہ کچھ عناصر ریاست پاکستان کو مسئلہ کشمیر سے دستبردار کرانا چاہتے ہیں ۔حالانکہ گزشتہ ہفتے ہی وزیر اعظم عمران خان نے دو ٹوک الفاظ میں ہندوستان سے جموں کشمیر کی متنازع  حیثیت کے حوالے سے آرٹیکل 370 کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس بیان سے واضح الفاظ میں معلوم ہوتا ہے کہ ریاست پاکستان کے  مسئلہ کشمیر پر موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جہاں گلگت بلتستان میں مقامی سطح پر عبوری صوبے کا خواب دیکھ رہا ہے وہیں اسلام آباد میں مقیم گلگت بلتستان کے مقامی صحافیوں نے ایک آن لائن نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ وزارت خارجہ و قانون نے حالیہ ایک میٹنگ میں گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں باقاعدہ نمائندگی دینے کی مخالفت کر دی اور تجویز دی کہ گلگت بلتستان کو صرف مبصر کی حیثیت دی جائے۔اب اگر ہم گلگت بلتستان کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی بات کریں تو آخری بار 17 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے لارجر بنچ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر  واضح طور پر لکھا ہے کہ گلگت بلتستان اورآزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی اورگلگت بلتستان اورآزاد کشمیر کی آئینی حیثیت استصواب رائے سے طے کی جائے گی۔

ساتھ میں یہ بھی لکھا گیا کہ ا ستصواب رائے کے انعقاد تک حکومت پاکستان گلگت بلتستان کو حقوق دینے کی پابند ہےلیکن گلگت بلتستان کی عدالتوں کو پاکستان میں آئینی اختیارات حاصل نہیں ہیں تاہم گلگت بلتستان کے عوام سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپنی اعلیٰ عدالتوں (سپریم ایپلٹ کورٹ )کے فیصلوں کے خلاف رجوع کرسکتے ہیں،اور گلگت بلتستان کی عدالت وہاں ہونے والی قانون سازی کے حوالے سے نظرثانی درخواستیں سن سکتی ہے۔

یہ وہ تمام تاریخی حقائق ہیں جن کے بارے میں گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبران سے صاحب محراب منبر اور عوام یقینا ً نابلد ہونگے ۔لیکن ان تاریخی حقائق کی روشنی میں آج بھی گلگت بلتستان کے وہ تمام لوگ جو گلگت بلتستان کیلئے آزاد کشمیر طرز کے سیٹ اپ کا مطالبہ کرتے ہیں اُن کی باتوں میں دلیل اور وزن نظر آتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے نہ ہی مسئلہ کشمیر سبوتاژ  ہوگا  اور نہ ہی کسی قسم کی  آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی اور گلگت بلتستان کے عوام کو قومی شناخت بھی مل جائے گا۔لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ گلگت بلتستان کو لیکر عالمی طاقتوں کی  گریٹ گیم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے گلگت بلتستان کی  76 سالہ سیاسی محرومیاں ختم کرنے کیلئے بین الاقوامی قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بناتے ہوئےمسئلہ کشمیر کے حل تک کیلئے 13 اگست 1948 کے اقوام متحدہ کے قوانین کی روشنی میں داخلی خود مختاری دیں اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سفارت کاری کے ذریعے کوششیں تیز کریں اور رائے شماری کیلئے گراؤنڈ تیار کریں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں پاکستان کی جانب سے ہندوستان کے زیر انتظام جموں کشمیر لداخ میں مقامی آبادی کے  تناسب بدلنے پر اعتراض کرنے کا کیا جواز باقی نہیں رہے گا اور گلگت بلتستان کو عبوری صوبے بنانے کے بعد کشمیر بنے گا پاکستان والا نعرہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گا۔صرف یہ نہیں بلکہ ہندوستان کی جانب سے 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے  خاتمے کو قانونی جواز ملے گا اور ہندوستان اپنے زیر انتظام علاقوں کو مکمل طور پر ہڑپ کرلے گا۔ اسی طرح عبوری صوبے کے قیام کے نتیجے میں سی پیک کو بین الاقوامی قانون کے تحت عالمی برادری اور عالمی اداروں کی قبولیت اور حمایت حاصل ہونا بھی سوالیہ نشان ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

حوالہ جات: سلامتی کونسل کے قرارداد انگریزی ورژن

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply