کشمیر ۔ پاکستانی کشمیر (31)۔۔وہاراامباکر

ریاست کے پاکستان کی طرف آنے والے دو حصے سیاسی طور پر الگ رہے ہیں۔ یہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ہیں۔ ان حصوں کے درمیان ڈائریکٹ ٹرانسپورٹ نہیں۔ سوشل، کلچرل یا معاشی تعلقات نہیں۔ ان دونوں علاقوں کے شہری 1947 میں واضح طور پر پاکستان سے الحاق کی خواہش رکھتے تھے اور اس کے لئے ہتھیار اٹھائے تھے۔ یہ ہمیشہ انڈین کنٹرول سے آزاد رہے ہیں۔ پاکستان نے انہیں سیاسی طور پر الگ رکھا ہے۔ اس کی عملی وجوہات جغرافیے اور انتظامی ہیں۔ گلگت بلتستان تک رسائی خیبرپختونخواہ کے راستے ہے نہ کہ آزاد کشمیر کے ذریعے۔ آزاد کشمیر تحریک اور گلگت کی پروپاکستان فورس بھی الگ تھیں۔ اگرچہ دونوں علاقے پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے تھے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ ملنا چاہتے تھے۔
پاکستان حکومت نے ان دونوں علاقوں کی علیحدگی کے لئے اپریل 1949 میں کراچی معاہدہ کیا تھا۔ آزاد کشمیر اس کے بعد وزارتِ امورِ کشمیر کے زیرِ تحت آ گیا۔ جبکہ شمالی علاقہ جات کے لئے ایک پاکستانی آفیشل کا تقرر کیا گیا۔ اس آفیشل کے اختیارات پر چیک نہیں تھے۔
آزاد کشمیر حکومت کا دعویٰ تھا کہ یہ حکومت تمام جموں و کشمیر کی قانونی حکومت ہے۔ (اگرچہ اس دعوے کو آزاد کشمیر حکومت سمیت کبھی کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا)۔
آزاد کشمیر ہائی کورٹ میں 1993 میں تین افراد نے کراچی معاہدے کو کامیابی سے چیلنج کیا اور یہ فیصلہ لے لیا کہ معاہدے کو منسوخ کیا جائے اور شمالی علاقہ جات کو آزاد کشمیر کا حصہ بنایا جائے۔ تاہم آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے 1994 میں اس پر کی جانے والی اپیل پر اس فیصلے کو تکنیکی بنیاد پر کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا کہ آزاد کشمیر حکومت اس کی مجاز نہیں کہ وہ پاکستان کو یہ فیصلہ لینے کا کہہ سکے۔ یہ اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ (ایسا کوئی قدم شمالی علاقہ جات میں بہت غیرمقبول ہوتا)۔
آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان قانونی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں۔ پاکستان کی پوزیشن یہ ہے کہ یہ یہاں پر عارضی طور پر انتظام چلا رہا ہے جب تک کہ استصوابِ رائے منعقد نہیں ہو جاتا۔
پاکستان نے اس حوالے سے اپنی پوزیشن خاموشی سے 1980 کی دہائی میں تبدیل کر لی۔ اس وقت بنائے گئے نقشوں میں گلگت بلتستان کو تنازعہ کشمیر کے علاقے سے نکال دیا گیا۔ (اگرچہ پاکستان کی اپنی سرکاری پوزیشن یہ نہیں)۔ یہ وہ وجہ ہے کہ کئی پاکستانی ایسا سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان پاکستان کا باقاعدہ حصہ ہے۔ یہ تاثر درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزاد کشمیر کی آبادی گلگت بلتستان سے زیادہ ہے لیکن رقبے میں چھوٹا ہے۔ یہ پاکستان کے ساتھ بہت زیادہ طرح سے روابط رکھتا ہے۔ آزاد کشمیریوں اور آزاد آرمی نے اس کو یقینی بنایا تھا کہ یہ خطہ پاکستان کے ساتھ مل جائے۔ اس جنگ میں مئی 1948 کے بعد انڈین آرمی کو برتری ملنے لگی تھی۔ اس موقع پر پاکستان آرمی یہاں داخل ہو گئی تاکہ آزاد آرمی کو سپورٹ کر سکے۔ 1949 میں جنگ بندی کے بعد آزاد کشمیریوں کو بڑی حد تک خودمختاری حاصل ہو گئی۔ جنگ بندی کے بعد استصوابِ رائے کی توقع تھی۔ آزاد آرمی تحلیل کر دی گئی۔ آزاد کشمیری سیاستدانوں نے اپنے معاملات پاکستان کے سپرد کر دئے۔
آزاد کشمیریوں کے لئے یہ دھچکا تھا کہ پاکستان نے آزاد کشمیر کی حیثیت ڈی جور (de jure) طور پر قبول نہیں کی بلکہ اس کا وجود ڈی فیکٹو (de facto) قبول کیا گیا۔ یعنی تسلیم کرنے کی وجہ قانونی نہیں تھی بلکہ زمینی صورتحال کی وجہ سے تھی۔ یہ وجہ ہے کہ آزاد کشمیر کا آئین ابھی تک “عبوری” ہے۔ جب تک کہ کشمیر کا مسئلہ تسلی بخش طریقے سے حل نہ ہو جائے۔ اس صورتحال پر کئی بار آزاد کشمیری سیاستدان اعتراض کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے ایسا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان پوری ریاست حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اگر صرف اس حصے کو قانونی حیثیت دے دی جاتی تو پھر پاکستان کا کشمیر پر دعوے کا مقدمہ باقی نہیں رہتا۔
دوسری طرف انڈیا آزاد کشمیر کو غیرقانونی اور غیرمتعلقہ قرار دیتا ہے جو پاکستان کے تخیل کی پیداوار ہے۔ دہلی کی نظر میں آزاد کشمیر موجود نہیں۔ پاکستان انڈیا کے ایک حصے پر زبردستی قابض ہے۔ اپنے نقشوں میں اسے “مقبوضہ کشمیر” کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے اگست 1948 میں آزاد کشمیر حکومت کو مقامی اتھارٹی کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ چونکہ پاکستان خود بھی اسے باقاعدہ تسلیم نہیں کرتا، اس لئے اس علاقے کی کوئی عالمی سٹینڈنگ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بنیادی طور پر یہاں کی حکومت ایک میونسپل باڈی کی طرح ہے جس کا مقصد علاقے کے لوگوں کو روزمرہ کی خدمات بہم پہنچانا ہے۔
پاکستان 1949 سے 1970 تک آزاد کشمیر پر براہِ راست حکومت کرتا رہا جو وزارتِ امورِ کشمیر کے ذریعے تھی اور 1958 کے بعد ملٹری انتظامیہ کے ذریعے تھی۔ وزارتِ امورِ کشمیر طاقتور اتھارٹی ہے۔ یہ کشمیر پر گورننس ایک دستاویز کے ذریعے کرتی ہے جس کو “رولز آف بزنس” کہا جاتا ہے۔ اس کی منظوری آزاد کشمیر میں اپنے وقت کی واحد جماعت مسلم کانفرنس نے دی تھی۔ اس کے مطابق آزاد کشمیری حکومت کو ہر معاملے پر وزارت سے مشاورت کرنا ہے۔ وزارت کے جوائنٹ سیکرٹری کے پاس اہم معاملات پر حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔ اہم فیصلے مظفر آباد میں نہیں لئے جا سکتے۔
ابتدا میں تمام آزاد کشمیری سیاستدان مسلم کانفرنس کے ممبران تھے۔ پارٹی انتظامیہ سے برتر تھی۔ پارٹی صدر کا بطور “آزاد کشمیر تحریک کے سربراہ” کا عہدہ “آزاد کشمیر صدر” سے زیادہ طاقتور تھا۔ انتخابات میں تمام امیدوار اسی پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔
پہلی بار کثیرالجماعتی انتخابات کا حق 1970 میں دیا گیا۔ اور اس وقت کی ملٹری حکومت نے آزاد کشمیر کو بہت لبرل نظام دیا۔ اس کی ایک اہم وجہ مشرقی پاکستان کی صورتحال تھی۔ اسلام آباد حکومت سیاسی دباوٗ کا شکار تھی۔ پسماندہ خطوں کو بہت مراعات دی گئی تھیں۔ پاکستان کا کنٹرل صرف خارجہ، دفاع اور مواصلات تک محدود کر دیا گیا تھا۔ باقی سب اختیارات آزاد کشمیر کے پاس تھے۔ (لیکن آزاد کشمیر کو مسئلہ یہ تھا کہ اس کے پاس فنڈ اکٹھا کرنے کی صلاحیت محدود تھی) ۔
قیامِ بنگلہ دیش کے بعد یہ تبدیل ہو گیا۔ ملٹری نے اقتدار چھوڑ دیا۔ پاکستان کی نئی حکومت نے 1974 میں آزاد کشمیری سیاسی نظام کو تبدیل کیا۔ اختیارات محدود ہوئے۔ صدر کی جگہ پر وزیرِاعظم کا عہدہ آ گیا۔ آزاد کشمیر کونسل کی تشکیل کی گئی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ آزاد کشمیر میں اس طرز کا باقاعدہ اور میچور سیاسی نظام آ گیا جیسا دوسرے صوبوں میں تھا۔ لیکن یہ صوبہ نہیں تھا بلکہ ایک شاندار میونسپل کمیٹی تھی۔ ایسا نظام برِصغیر میں منفرد تھا۔ اور 2009 تک صرف اسی جگہ پر تھا۔ اس کے بعد گلگت بلتستان کو بھی اسی طرز کا سسٹم مل گیا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply