فسادی گروہ۔۔ذیشان نور خلجی

پہلا سوال یہ ہے کہ ان میں سے عاشق رسول کون ہے اور فسادی کون ہے۔ تو جواب یہی ہے کہ مار دھاڑ کرنے والا گروہ ہی عاشق رسول ہے۔
بارہ اپریل بروز سوموار ایک حاملہ خاتون کو طبیعت بگڑنے کے باعث رکشے میں بٹھا کر ہسپتال لے جایا جاتا ہے۔ قریبی چوک بند ہونے کے باعث وہ راستے میں ہی بچے کو جنم دے دیتی ہے اور زچگی کی تکلیف میں خود جہنم واصل ہو جاتی ہے۔ اب بتائیے اس خاتون کی موت کو جہنم واصل ہی کہا جائے گا نا، کیوں کہ جن لوگوں نے راستے بند کئے ہوئے تھے وہ سب تو عاشقان ِ رسول تھے۔ اب ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ نبی کی ناموس کے نام پر کٹ مرنے والا ایک عاشق رسول کسی دوسرے مسلمان کی جان لے لے۔ غالب گمان ہے مذکورہ خاتون کا تعلق فرانسیسی اخبار سے بھی رہا ہو گا۔ پھر تو اچھا ہی ہوا خس کم جہاں پاک۔

اسی شام کی بات ہے اسلام آباد کے نواح میں چند نوجوان جو کہ اللہ کے نبی کے سچے نام لیوا تھے اور ناموس کے نام پر سر پر کفن لپیٹے اپنی جانیں بھی قربان کرنے پر تلے ہوئے تھے وہ اینٹوں، پتھروں اور لاٹھیوں سے ایک کار پر حملہ آور ہو جاتے ہیں کار کا مالک تو کسی نہ کسی طریقے سے اپنی جان بچا کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے لیکن اس کی کار قابو میں آ جاتی ہے۔ پرانے ماڈل کی اس کار کے بارے میں حسن ظن ہے کہ یہ کار فرانسیسی صدر کے زیر استعمال رہی ہو گی بلکہ اب بھی اسی کی ملکیت ہو گی اسی لئے تو اس کار کی ماں بہن ایک کی گئی۔ واقعی غازیوں نے اپنے عشق کا حق ادا کر دیا۔

تیرہ اپریل بروز منگل ایسے ہی چند پولیس والے بھی عاشقان رسول کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں پھر انہیں فٹ بال بنایا جاتا ہے اور تب تک ان کی دھلائی کی جاتی ہے جب تک کہ ان میں سے ایک اپنی جان سے ہاتھ نہیں دھو بیٹھتا۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ پولیس والے بھی کافر تھے لیکن ساتھ ساتھ یہ نبی کے گستاخ بھی تھے کیوں کہ مسلمان تو وہ ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان کے جان و مال محفوظ رہیں بلکہ مسلمان تو خواہ مخواہ میں کفار کو بھی تنگ نہیں کرتے۔ لہذا پھر پولیس اہلکار لازمی گستاخ ہی ہوں گے کیوں کی اس مذہبی گروہ کا نعرہ ہے گستاخ رسول کی ایک سزا، سر تن سے جدا تو ایسے لوگ صرف ان لوگوں کو ہی جہنم واصل کریں گے نا جو کہ واقعی نبی کے گستاخ ہوں گے۔

پھر یہ کہانی یہی نہیں رکتی بلکہ نگر نگر قریہ قریہ دہرائی جاتی ہے۔ نبی کی ناموس کے یہ محافظ ہر اس بندے کو اپنے عشق کا نشانہ بناتے ہیں جو کسی نا کسی سطح پر گستاخ تھا۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہوں گے جو پچھلے دنوں پشاور ہائیکورٹ میں ایک مخبوط الحواس احمدی کے قتل میں ملوث ایک ابنارمل لڑکے خالد کو غازی سمجھتے رہے ہیں۔ وہ پولیس فورس بھی لازمی نشانہ بنی ہو گی جو اس غازی کے ساتھ سرکاری موبائل میں بیٹھی تصویریں بنواتی رہی تھی۔ اور ان لوگوں کو بھی لازمی جوتیاں پڑی ہوں گی جو نادان مجرم ممتاز قادری کی ذات کو لے کر غازی شہید کا ڈرامہ پورے ذوق شوق سے دیکھتے رہے۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ آج نبی کے عاشق نبی کی ناموس کے نام پر جو گل کھلا رہے ہیں کیا پیغمبر رحمت ﷺ کی تعلیمات یہی تھیں؟ صاحبو ! بات چونکہ نبی کی ذات کی آگئی ہے لہذا ادب کا تقاضا یہی ہے کہ طنز کی تلوار نیام میں ڈال لی جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ میرے نبی کا طریقہ بالکل بھی ایسا نہیں تھا۔ ہاں اس شدت پسند جماعت کے بڑوں کا طریقہ یہ رہا ہو گا ویسے بھی فساد فی الارض میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ دوسری طرف میرے نبی تو منافقین کے ساتھ بھی شفقت سے پیش آیا کرتے تھے جب کہ اس مذہبی گروہ کے اکابرین تو مسلمانوں کی بھی گردنیں اڑانے کی باتیں کرتے ہیں۔ میرے نبی تو وہ تھے جو دشمن کی عورتوں کو بھی عزت دیا کرتے تھے جب کہ اس فسادی گروہ کے پیروکار تو معصوم مسلمان عورتوں کی بھی جانیں لینے پر تلے ہوئے ہیں۔ میرے نبی کا اخلاق ایسا تھا کہ انہوں نے کبھی اپنے دشمنوں کو بھی گالی نہیں دی جب کہ منبر سے گالیاں بکنا اس مذہبی گروہ کے پیشواؤں کی سنت ہے۔

دیکھیے، نیت کا حال صرف رب جانتا ہے یا علما و مولوی حضرات۔ لیکن ہم جیسے گناہ گار تو اپنی نیت کا حال بھی نہیں جانتے سو ان کی نیت کا حال کیا جانیں گے۔ لہذا ان کے باطن میں کیا چل رہا ہے، ہم نہیں جانتے لیکن ان کا ظاہر بتا رہا ہے کہ یہ نبی کے عاشق نہیں ہیں بلکہ اپنے بابا جی کے عاشق ہیں کیوں کہ مار دھاڑ گالم گلوچ ان کے بابا جی کا شیوہ تھا نہ کہ میرے نبی کا۔ میرے نبی تو رحمت اللعالمین تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تیسرا اور آخری سوال یہ ہے کہ اس گروہ پر پابندی لگانے کے بعد اب تحریک انصاف کی حکومت کو کیا کرنا ہو گا۔ جواب بالکل سادہ سا ہے اب چونکہ عاشقوں کے کپڑے سر بازار اتر چکے ہیں تو پھر حکومت کو چاہیے کہ اس مناسب موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے اور صحیح معنوں میں ان کی دھلائی کی جائے ۔ کیوں کہ اگر حکومت نے صرف زبانی کلامی پابندی پر ہی اکتفاء کیا تو فسادیوں کے اندر سے عشق کا کیڑا مکمل طور پر ختم نہیں ہو گا۔ اور ہاں، ایک دوسرے حوالے سے بھی حکومت کو کسی قسم کا تحفظ نہیں ہونا چاہئیے۔ وہ شعر ہے نا
گلہ نہیں جو گریزاں ہیں چند پیمانے
نگاہ یار سلامت ہزار مہ خانے
یعنی پیسے ہونے چاہئیں ناچنے والیاں ہزار مل جائیں گی لہذا حکومت کو تسلی کے ساتھ فسادیوں کی بینڈ بجانی چاہیے کیوں کہ اگلی دفعہ سیاسی مخالفین کا جینا حرام کرنے کے لئے اور بھی بہت سے نئے مذہبی گروہ مل جائیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply