• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • حالیہ واقعات، مذہبی جماعتوں کا لائحہ عمل اور ناموس رسالت ص

حالیہ واقعات، مذہبی جماعتوں کا لائحہ عمل اور ناموس رسالت ص

یہ عمومی مشاہدہ ہے کہ معاشرے مذہب، تہذیب، روایت، زبان، فکر، فہم، علم یا اور  کسی ایسی ہی بنیاد پہ منقسم ہوتے ہیں۔ معاشرےکی اس قسم کی تقسیم کی بنیاد پہ سیاسی جماعتیں وجود میں آتی ہیں۔  اس کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کو دور ِ حاضرمیں بہت سے اقتصادی چیلنجز کا بھی سامنا  ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی سیاسی جماعت کے معاشی نظریات بھی عوامی نمائندگی حاصل کرنے کا ایک بنیادی جزو ہوتے ہیں۔ لہذا سیاسی جماعتیں معاشی یا معاشرتی نظریات پہ بنیاد رکھتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں دائیں اور بائیں بازو کے نظریات کا پرچار بھی کم و بیش ڈھائی سو سال سے جاری ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جو روایتی انداز میں اداروں کو چلانا چاہے اس کو دائیں بازو کا حامل کہہ دیا جاتا ہے جبکہ جو جماعت جدید طرز پہ، جدید معاشی اور اقتصادی نظریات پہ سیاست کرنا چاہے اس کو بائیں بازو کی جماعت کہہ دیا جاتا ہے۔ البتہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتیں بھی دینی نظریات کے ساتھ سیاست کے میدان میں موجود  ہیں۔

روایتی سیاسی جماعتیں تو دائیں اور بائیں بازو کے  نظریات کی حامل ہوتی ہیں جبکہ  پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو نظریات کے حوالے سے شدید دائیں بازو کی جماعتیں سمجھ لینا چاہیے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری روایات کاسب سے اہم سلسلہ اسلامی تاریخ سے جڑا ہے۔ لہذا جہاں روایتی دائیں بازو کی جماعتیں بنیاد پرست روایت کو لے کر نہیں چلتیں  ،وہاں مذہبی سیاسی  جماعتیں کم و بیش انہی روایات کو لے کر چلنے کی خواہاں نظر آتی ہیں جو بارہ سو سال سے موجود ہیں۔

مذہبی جماعتوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی اقدامات کو بھی دین کے پیرائے میں دیکھتی ہیں  بلکہ ان کی بنیاد میں کم و بیش یہ بات ہوتی ہے کہ ان کے سیاسی کردار کی دینی ضرورت موجود  ہے۔ لہذا وہ اپنے سیاسی اقدامات کو بھی مقدس بنا کر اپنےپیروکاروں کے لیے پیش کرتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کے نظریات سے لوگوں کی وابستگی زیادہ سے زیادہ پختہ ہوتی ہے۔ ان میں سے بعض سیاسی معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا براہ راست مذہب تقاضا نہیں کرتا لیکن مذہبی سیاسی  جماعتوں کے ورکنگ سٹائل میں وہ چیزیں اہمیت رکھتی ہیں لہذا وہ ان کو ایسا بنا کر پیش کرتے ہیں گویا یہ مذہب ہی کا تقاضا ہو۔ یہ چیز براہ راست ان کےکارکنان کی وابستگی کو جماعت کے ساتھ پختہ کرتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و حرمت پہ میں اور میرے والدین قربان ہوں۔ یہ وہ معاملہ ہے جس کے بارے میں رب تعالی بھی حساس ہے۔ اسی لیے رب نے ایمان لانے والوں کو یہاں تک تنبیہ فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی آواز بھی اونچی نہ کرو،جیسا کہ  تم آپس میں کرتے ہو ۔ (مفہوم سورہ الحجرات آیت ۲)۔ اس بظاہر معمولی فعل سے بھی مسلمانوں کے اعمال کےغارت ہونے کا اندیشہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین میں سے گستاخوں کے ساتھ کیا رویہ اپنایا یہ اسلامی تاریخ کا اہم باب ہے۔ ابولہب جیسے بدترین دشمن بارے  رب نے اپنے کلام میں فیصلہ اتار دیا کہ”ٹوٹ گئے ابولہب کےہاتھ اور نامراد ہو گیا وہ” لیکن بہرحال وہ اپنی طبعی موت مرا، ایسے ہی ابولہب کے بیٹے عتبہ اور عتیبہ بھی بدترین دشمن تھے لیکن عتبہ بعد میں ایمان لے آیا جبکہ عتیبہ جیسا گستاخ اللہ کے حکم سے اپنے انجام کو پہنچا اور کسی جنگلی جانور کا شکار بنا۔ ان سب سے بڑھ کر وادی طائف کا واقعہ تو شاید کسی طرح ناقابل فراموش نہیں جس کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے مشکل ترین ایام میں سے ایک کہا۔ اس روز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ہدایت کی دعا فرمائی۔ حالانکہ آج بھی اگر وادی طائف کے واقعہ کو تاریخ کی کتاب سے پڑھا جائے تو بے اختیار آنسو نکل آتے ہیں۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی زید بن حارثہ کے ساتھ ہیں اور اوباش پتھر مار رہے ہیں اس قدر پتھر مارے گئے کہ جسم مبارک پہ جگہ جگہ زخموں سےلہو رِس رہا ہے۔ لیکن اس سب کے باجود جب جبرائیل آپ ص کے پاس حاضر ہوئے تو آپ ص نے ان کے حق میں دعا کی۔ مزید برآں فتح مکہ کے بعد تو اپنے بدترین دشمنوں ابوسفیان اور ہندہ  کے گھر تک کو جائے امن قرار دے دیا۔ یہ سب واقعات محض واقعات نہیں ہیں بلکہ یہ ایک داعی کے طرز ِ عمل کی روشن تعلیمات ہیں۔

اسی تناظر میں یہ بات دیکھنے کی ہے کہ فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد کیا کِیا جانا چاہیے۔ اوّل جو بات میں سمجھ پایا ہوں اس کے مطابق فرانس نے سرکاری طور پہ خاکوں کی اشاعت نہیں کی۔ البتہ فرانس میں بھی چند دیگر ممالک کی طرح اظہارِ رائے کی آزادی خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ اور اسی آزادی کی بنیاد پہ وہاں کا ایک ملعون اخبار اور چند ایک ملعون اشخاص گذشتہ پندرہ، سولہ سالوں سے یہ جسارت کر رہے ہیں۔ البتہ گذشتہ سال ایسے ہی خاکے کسی سکول میں دکھائے گئے جس میں پڑھنے والے ایک مسلم بچے نے گھر جا کر بتایا جس کے نتیجے میں وہ استاد قتل ہوا۔ اس مقتول سے  ہمدردی دکھانے اور آزادی اظہار ِرائے سے اپنی وابستگی کا اظہار کرنے کے لیے فرانس نے سرکاری عمارتوں پہ یہ خاکے لگائے۔ یہ عمل انتہائی قابلِ  تشویش اور قابل ِ مذمت تھا۔ جس سے امتِ  مسلمہ  کے دل دُکھے۔ لیکن یہ قدم براہ راست فرانس کی حکومتی پالیسی نہیں بلکہ اس کا تعلق بالواسطہ آزادی اظہارِ رائے  سے ہے۔ شاید یہی وجہ  ہے کہ فرانس کے صدر نے نے الجزیرہ کو دیے گئے انٹرویو میں اس بات کو تسلیم کیا کہ یہ کوئی حکومتی اقدام نہیں تھا۔ میں یہاں کسی سازش سے بچنے کے لیے میکرون کے الجزیرہ کو دیے گئے انٹریو میں سے چند پیراگراف کوجیسے وہ اخبار میں رپوٹ ہوئے نقل کر رہا ہوں۔

French President Emmanuel Macron says he understands the feelings of Muslims who are shocked by the displaying of cartoons of Prophet Muhammad but added that the “radical Islam” he is trying to fight is a threat to all people, especially Muslims.

Macron also hit out at what he described as “distortions” from political leaders, saying people were often led to believe that the caricatures were a creation of the French state.

“I think that the reactions came as a result of lies and distortions of my words because people understood that I supported these cartoons,” the president said in the interview.

“The caricatures are not a governmental project, but emerged from free and independent newspapers that are not affiliated with the government,” he added.

تفصیلی انٹریو الجزیرہ پہ 31 اکتوبر 2020 کو شائع ہوا تھا۔ گوگل کر کے اس کے مندرجات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

فرانس کے آزادی اظہارِ رائے کے قانون کو اس سیاق میں سمجھا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں توہین رسالت کا جو قانون نافذ ہے عالمیبرادری اس کو آزادی اظہارِ رائے سے متصادم سمجھتے ہوئے بارہا پاکستان سے اس کو ختم کرنے لیے دباؤ ڈالتی ہے۔ لیکن اندرونیطور پہ اس کے غلط استعمال کی غیر موثر روک تھام نہ ہونے کے باجود اس قانون کو پاکستان میں نہیں بدلا گیا۔ لہذا اسی طرف کچھقوانین ممالک اپنی نظریاتی اساس کی مطابقت سے بنا لیتے ہیں چاہے وہ قوانین تاریخ طور پہ اپنا وجود نہ رکھتے ہوں یا دور حاضرمیں انہیں دوسری قومیتوں سے شدید تنقید کا سامنا ہو۔ اس لیے اس سارے معاملے میں یہ یاد رہنا چاہیے کہ جس طرح ہم فرانسیسیقوانین کو بدلنے کے لیے دباؤ ڈالیں گے بدلے میں مغرب بھی کسی قانون کو ختم کرنے کا تقاضا کر سکتا ہے جو ان کے نزدیک ناپسندیدہہو۔

اس سارے منظر نامے میں مسلم ممالک کو چاہیے اقوام عالم کے سامنے یک زبان ہو کر اس مسئلہ کو اٹھائیں۔ اور کوشش کرنی چاہیےکہ مسلم ممالک، اقوام متحدہ،  عالمی برادری اور فرانس حکومت کو اس طرح انگیج کریں اور سفارتی طور پہ ان کو قائل کریں کہ وہ انقوانین میں ترامیم کریں۔ یا کم از کم کچھ ایسی حدود واضح کر دی جائیں جس سے مسلمانوں کی دل آزاری نہ ہو۔ سفارتی سطح پہاجتماعی طور پہ بہت کچھ ہو سکتا ہے اور کیا بھی جانا چاہیے۔ البتہ فرانس کے سفیر کو نکالنا مسئلے کا حل نہیں، بلکہ یہ نئےمسائل کو جنم دے گا۔ ایک طرف تو اس سے فرانس پہ موجود احتجاج کا بچا کھچا دباؤ ختم ہو جائے گا جبکہ دوسری طرف یورپییونین اس کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ تعلقات بگاڑ سکتا ہے۔ ہم اس وقت یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ہم عشق رسول ص کی خاطر ہرنقصان برداشت کر لیں گے۔ لیکن اصل مدعا یہ ہے کہ یہ سارا برداشت کیا جانے والا نقصان بھی ایسے واقعات کو روکنے کی ضمانتنہیں دے سکتا۔ ایسے وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کے حالات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں کہ کیسے انہوں نےناگوار حالات کو برداشت کیا لیکن اپنے دعوت کے مشن کو جاری رکھا۔ دشمن ان اسلام کے سامنے اپنا بہترین کردار پیش کیا اورحکمت کے ساتھ دعوت کا کام جاری رکھا۔

ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے پہ اپنی سڑکوں، چوراہوں کو بند کرنا، راہ گیروں کو شدید تکلیف سے گزارنا اور ملک کومفلوج کرنا کسی زاویے سے حُب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عکاسی نہیں کرتا۔ میں یہ مان بھی لوں کہ حالیہ سارے دنگےفساد حکومت کی کار ستانی تھے اور تحریک لبیک کے لوگ بالکل پرامن تھے پھر بھی ماضی قریب کی داستانیں اور کارکنان کیزبانیں اس دعوے کی توثیق نہیں کرتیں۔ یہ سب کچھ ملک میں پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ اب اس مار دھاڑ کی یہ وجہ بھی قابل فہم نہیں کہچونکہ حکومت نے وعدہ خلافی کی ہے لہذا اس کا رد عمل آیا ہے۔ اس کا ردعمل مہذب بھی آ سکتا تھا۔ لیکن مذہبی جماعت نے اپنےردعمل کو مقدس مانتے ہوئے عوام کے لیے مشکلات کھڑی کیں۔ اس کے بعد پولیس کی طرف سے کیا جانے والا ظلم و تشدد بھی انتہائیافسوسناک ہے۔ یعنی ہمارے اندر ان خرابی نجیب الطرفین ہے اور پہلے آپ،  پہلے آپ کی گردان کرتے ہوئے کوئی گروہ باز نہیں آئے گا۔لیکن اس سب میں نقصان کس کا ہو رہا ہے؟ ہم ہر زاویے سے دیکھیں تو نقصان ملک کا ہی ہو رہا ہے۔ اور محبت کا یہ انداز عامانسانوں کے لیے زحمت بنتا جا رہا ہے۔

دور حاضر میں کسی بھی ملک کے دوسرے ملک سے تعلقات کا انحصار معاشی استحکام اور باہمی تجارت پہ ہے۔ نیز اگر آپ ریسرچاور ڈیولپمنٹ میں آگے ہیں۔ اگر آپ کے معاشی اعشاریہ مظبوط ہیں تو دنیا آپ کی عزت و احترام کرتی ہے اور آپ کی بات سنتی ہے۔لیکن اگر آپ کا کردار ایسا ہے کہ یہاں ملک خانہ جنگی کی حالت میں ہے ۔ آئے روز سڑکوں پہ فساد برپا کیا جا رہا ہے ہر آنے والا دنملک کو معاشی اعتبار سے کمزور کر رہا ہے۔ کرونا کی ویکسین کے لیے بھی ہم دنیا بھر سے امداد کے منتظر ہیں جیسا کہ ابھی حالیہدنوں میں جرمنی (جوکہ یورپی یونین کا حصہ ہے) سے مفت ویکسین کی فراہمی کی بات چیت ہوئی ہے۔ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی اورتحقیق میں کسی مقام پہ نہیں کھڑے۔ یقین مانیں کل پورا ملک اگر اجتماعی خود کشی بھی کر لے گا تو دنیا کے کان پہ جوں نہیںرینگے گی۔ ہمیں اپنے وجود کو مستحکم کرنا ہے اور ہمارا وجود اس وقت تک مستحکم نہیں ہو سکتا جب تک ہم اسوہ رسول اللہ صلیاللہ علیہ وسلم پہ عمل نہیں کرتے جب تک مسلمان اپنے الفاظ کی بجائے  اپنے کردار سے نہیں پہچانا جاتا۔ اس وقت تک ہم ایسے ہیبے وقعت رہیں گے۔ ہم سب عجیب مسلمان ہیں ہم سب کو ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مرنا قبول ہے کاش ہمیں ناموسرسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جینا آ جائے۔

آخر میں  سلیم کوثر کی ایک نعت جس کا حرف حرف عشق رسول ص میں گندھا ہوا ہے۔ اس نعت کا آخری شعر زبان زد عام ہے۔

سارے لفظوں میں ایک لفظ یکتا بہت اور پیارا بہت

سارے ناموں میں اک نام سوہنا بہت اور ہمارا بہت

اس کی شاخوں پہ آ کر زمانوں کے موسم بسیرا کریں

اک شجر جس کے دامن کا سایا بہت اور گھنیرا بہت

ایک آہٹ کی تحویل میں ہیں اس زمیں آسماں کی حدیں

ایک آواز دیتی ہے پہرا بہت اور گہرا بہت

جس دیے کی توانائی ارض و سما کی حرارت بنی

اس دیے کا ہمیں بھی حوالہ بہت اور اجالا بہت

میری بینائی اور مرے ذہن سے محو ہوتا نہیں

میں نے روئے محمد کو سوچا بہت اور چاہا بہت

میرے ہاتھوں اور ہونٹوں سے خوشبو جاتی نہیں

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے اسم محمد کو لکھا بہت اور چوما بہت

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply