ہم کب سیکھیں گے؟۔۔محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ

میں نے فیس بک اور ٹویٹر پر کئی بار یہ بات دہرائی تھی کہ تحریک لبیک پر پابندی عائد کی جانی چاہیے لیکن اس مطالبے کے وجہ تحریک لبیک کی “جتھا نفسیات” تھی، جو ظاہر ہے کسی بھی معقول معاشرے کے لیے قابل ِ قبول نہیں ہو سکتی۔غور  کیجیے کہ میں نے معقول معاشرے کی اصطلاح استعمال کی ہے، مہذب معاشرے کی نہیں۔ حالیہ دوتین روزہ احتجاج کے بعد تحریک لبیک کالعدم قرار دے دی گئی، جو میرے لیے خاصا باعث اطمینان کام ہوا۔ جب کسی نے احتجاج کے دوران توجہ دلانے کی کوشش کی کہ مار دھاڑ اور توڑ پھوڑ سے آپ کونسا عشق ثابت کرنا چاہتے ہیں تو ایک عاشق صاحب نے جواب دیا کہ عشق رسول ﷺ میں سب کچھ جائز ہے۔ حیرت ہوئی کہ ان بند دماغوں کو کیسے سمجھایا جائے کہ وہ کام کیسے جائز قرار دیے جا سکتے ہیں جن کے کرنے کو آقا کریم ﷺ   نے خود ناجائز بتایا ہو۔ ایسے لوگوں اور ایسے جتھوں پر پابندی کے علاوہ اور کیا آپشن باقی بچتا ہے؟

حیرت لیکن ایک اور بات پر بھی ہوئی کہ جن کے ذریعے پابندی لگوائی گئی وہ خود جتھا نفسیات کے نمائندے ہیں۔ وزیر داخلہ کے وہ جملے جو ابھی کل ہی کی بات ہیں، کون بھلا سکتا ہے جب اپنی زبان سے جلسوں میں وہ آگ اُگل رہے تھے کہ مار دو، کاٹ دو، گرا دو، جلا دو اور آج ان سے کہلوایا جا رہا ہے کہ تشدد کی اجازت نہیں دی جائے گی، سبحان اللہ۔ اور وزیراعظم کی کیا بات کی جائے کہ جس روز انہوں نے حلف اٹھایا تھا اس روز میں نے فیس بک پر لکھا تھا کہ پانچ سال ہر روز ان کی اپنی کہی ہوئی باتیں ان کا  پیچھا کرتی رہیں گی اور ہر روز نہیں ہر لمحہ ایسا گزر رہا ہے کہ ان کی اپنی کہی باتیں ان کا منہ چڑاتی ہیں لیکن شرم وہ صرف دوسروں کو دلاتے ہیں ۔ وزیراعظم کے بھی وہ الفاظ سب کو یاد ہیں کہ “فلاں تاریخ کو میں لاہور جاؤں گا اور لاہور بند کروں گا، فلاں تاریخ کو میں فیصل آباد جاؤں گا اور فیصل آباد بند کروں گا، فلاں تاریخ کو میں کراچی جاؤں گا اور کراچی بند کروں گا اور پھر فلاں تاریخ کو پورا پاکستان بند کروں گا، اور اگر اس سے بھی نتیجہ نہ نکلا تو پھر وہ کروں گا کہ ان کے لیے حکومت کرنا مشکل ہو جائے گا۔”

پھر تحریک انصاف کے جتھوں کے ریاستی اداروں پر مسلح حملے ابھی زیادہ پرانی بات تو نہیں ہوئی اور پھر یہی وزیراعظم گزشتہ حکومت کے خلاف تحریک لبیک کے دھرنوں میں جا جا کے کہتے رہے کہ “ختم نبوت کا معاملہ حکومت کو بھولنے نہیں دیں گے”، شاید وزیراعظم جانتے نہیں ہیں کہ “وہ” کسی بھی حکومت کو یہ معاملات بھولنے نہیں دیں گے، گزرے کل اور آج تحریک لبیک کے ذریعے اور کل کسی اور جتھے کے ذریعے۔ شیخ رشید اور عامر لیاقت جیسے بہروپیے اپنی الیکشن مہم میں خود کو باقاعدہ مجاہد تحفظ ختم نبوت کہلواتے رہے لیکن مذہب کے نام پر سیاست صرف مذہبی جماعتیں کرتی ہیں۔ اگر منافقت کا کوئی چہرہ ہوتا تو یقینا موجودہ حکومتی بندوبست جیسا ہوتا۔

تحریک لبیک پر پابندی لگ گئی، ٹھیک ہو گیا لیکن کس قانون کے تحت پولیس گرفتار شدگان پر غیر انسانی تشدد بھی کر رہی ہے اور اس کی ویڈیوز بھی بنا بنا کے وائرل کی جارہی ہیں۔ تحریک لبیک اگر ایک جتھہ تھا تو کیا ریاستی پولیس بھی جتھے کی سی حرکتیں کرے گی؟ حیرت ہے کہ قانون کی دہائی دینے والے بہت سے لوگ بھی اس وحشت کے حق میں ایسی ایسی دلیلیں دے رہے ہیں کہ سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے طے کر لیا ہے کہ مخالف گروہ کو جب جب مار پڑے گی ہم خوش ہو کے نعرے ماریں گے اور جب بات خود پر آئے گی تو قانون، اخلاقیات اور ضابطوں کی دہائی دیں گے اور تب دوسرا گروہ خوش ہو کے نعرے مارے گا کہ ان کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہیے، قانون اجازت دے یا نہ دے۔

مکرر عرض ہے کہ پولیس کی یہ ساری وحشت اس وزیراعظم کے دور میں ہو رہی ہے جو دعویٰ  کیا کرتا تھا کہ وہ ملک کو مثالی پولیس دے گا۔ بات بات پر گزشتہ حکومت کو بلیک میل کرنے والا اب بات بات پر کہتا ہے کہ کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ حکومت کو بلیک میل کرے۔

70  سالوں میں جب ہم کچھ بھی نہیں سیکھ سکے تو احتجاج کس طرح کرنا ہے یہ کیسے سیکھ لیتے اور اب بھی نہ سیکھا تو پھر کب سیکھیں گے؟ اوپر سے حکومتیں ہمیشہ جتھوں کے سامنے جھکتی آئی ہیں۔ اس حکومت نے بھی چند ماہ پہلے کے احتجاج کے وقت یہی کیا تھا کہ جتھے کے ساتھ تحریری معاہدہ کیا کہ فلاں تاریخ تک فرانس کے سفیر کو ملک سے نکال دیا جائے گا۔ جب بین الاقوامی برادری کے سامنے کھڑے ہونے کی طاقت نہیں ہے تو حکومتیں ایسے معاہدے کرتی ہی کیوں ہیں جن کو پورا کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہوتی اور ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار حکمران کو تو ان باتوں کے بارے میں اور بھی حساس ہونا چاہیے کہ وعدے اور معاہدے کی دین میں کیا حیثیت ہے۔

میں مطمئن تھا کہ تحریک لبیک پر پابندی لگا دی گئی ہے لیکن کل جب اس بدبخت Geert  Widers کا ٹویٹ دیکھا جس میں اس نے وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کر کے مطالبہ کیا کہ مجرم سعد رضوی کو جیل میں ڈالا جائے اور مذہبی شدت پسند تنظیم ٹی ایل پی پر پابندی لگائی جائے جس کے سابقہ رہنما نے میرے خلاف فتویٰ  دیا تھا، تو بےچینی ہوئی کہ ہم جتھہ نفسیات سے چھٹکارا پا کر اگر مہذب انداز میں احتجاج کا طریقہ سیکھ لیں تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ذلیل حرکتیں کرنے والا شخص ہمارے خلاف ہرزہ سرائی نہ کر سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے توقع ہے کہ وزیراعظم جس طرح اسلاموفوبیا پر کھل کر بات کرتے ہیں اور گاہے اس حوالے سے ٹویٹس بھی کرتے رہتے ہیں، وہ اس بدبخت کو ضرور جواب دیں گے کہ اگر حضور نبی کریم (ص) کی شان میں گستاخی اور اسلام، مسلمان اور روزہ نماز پر پابندیوں کے مطالبے کرنا اظہار رائے کی آزادی ہے تو اپنے خلاف دیے فتوے کو بھی وہ اظہار رائے کی آزادی سمجھے اور تسلیم کرے۔ وزیر اعظم سے ہر اختلاف کے باوجود ایسے جواب کی توقع بھی میں صرف انہی سے رکھتا ہوں۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں