نئی سیاسی صف بندی۔۔محمد منیب خان

یوں تو کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا، لیکن یہ بات غور طلب ہے کہ اہل سیاست ہر بات کو حرف آخر کے طور پہ ہی پیش کرتے ہیں۔ لہذا عوام کا اپنے فہم و فراست پہ سیاسی باتوں اور چالوں کو سمجھنا کسی بھی حد تک معقول یا نامعقول ہوسکتا ہے۔ تین مارچ کے سینیٹ انتخابات سے لے کر پیپلزپارٹی کے سی ای سی کے اجلاس تک سیاست کا اونٹ گھنٹوں کے حساب سےکڑوٹیں بدلتا رہا ہے۔ کبھی گمان ہوتا تھا کہ پی ڈی ایم نے حکومت کو ایسیکڑنگیدی ہے کہ وہ سنبھل نہیں سکے گی اور کبھی یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اپوزیشن کے منقسم ہونے کی وجہ سے حکومت کے لیے راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ اسکو سیاست کی کم مائیگی سمجھیں یا وسعت کہ یہ دونوں باتیں اپنے اپنے مقام پہ ثابت کی جا سکتی ہیں۔ لیکن مرکز سیاست کی اصل سمت کو کھوجنےکے لیے خواہش کو پرے رکھ کر کچھ حالات کا بے لاگ تجزیہ کیا جانا ضروری ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم میں واضح دراڑ پڑ چکی ہے۔ بلکہ پی ڈی ایم دو لخت ہو گئی ہے۔ پیپلزپارٹی بظاہرماضی کی قربانیوں کی گردان کرتے ہوئے مزید خود کو کسی ایڈونچر میں شامل نہیں کر رہی۔ گیلانی صاحب کا عجلت میں اپوزیشن لیڈر بننا تو شاید پی ڈی ایم کو ہضم ہو جاتا لیکن اس کے حق میں پیپلزپارٹی کی طرف سے دیے جانے والے دلائل کہیں دہرائے جانےکے قابل نہیں۔ وہ محض اندھی تقلید میں گھرے ہوئے گروہ کو مزید مقلد تو کر سکتے ہیں لیکن سیاست کا ادنی فہم رکھنے والا شخص ان دلائل سے مطمئن نہیں ہو سکتا۔ لہذا پیپلزپارٹی کے دلائلعذر گناہ  بدتر از  گناہکے مصداق ہیں۔ پی ڈی ایم کا ردعمل بھی شدید آیااور پیپلز پارٹی نے اس شدت کا فائدہ اٹھا کر اپنی راہ لے لی ہے۔ پیپلزپارٹی کے اتحاد سے باہر نکلنے سے یقیناً پی ڈی ایم کی تحریک کو جھٹکا تو لگا ہے لیکن شاید گروہوں کی تطہیر ایسے ہی ہوا کرتی ہے۔

ایک طرف اگر سی ای سی کے اجلاس میں بلاول بھٹو نےاظہار وجہکا نوٹس پھاڑا تو دوسری طرف چند روز بعد پی ڈی ایم کےسربراہ کو بھی کہنا پڑا کہ پیپلزپارٹی کوباپکو باپ بنانے کی کیا ضرورت آن پڑی تھی۔ سوچنے کی بات ہے کہ پیپلزپارٹی کو اگرمسلم لیگ ن کے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے امیدوار پہ اعتراض تھا تو وہ اس پہ پی ڈی ایم کے اندر مذاکرات کر سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے عجلت میں ایک ایسے گروہ کے ووٹوں سے اپوزیشن لیڈر منتخب ہونا بہتر سمجھا جو گروہ حکومتی بنچوں کا حصہ ہے۔ پی  ڈی ایم کے درمیان باقی کی ساری باہمی نوک جھونک ٹی وی سکرینوں پہ سب کے سامنے ہے۔ لہذا ایک بات تو طے ہے کہ پیپلزپارٹی اور اے این پی کے نکلنے سے پی ڈی ایم کی جدوجہد کو فرق پڑے گا لیکن اس سے بہتری کا یہ پہلو نکلتا ہے کہ اب پی ڈی ایم میں باقی رہ جانے والی جماعتیں تقریباً ایک دوسرے سے اتفاق رائے رکھتی ہیں لہذا وہ اپنی قوت کو پہچانتے ہوئے مستقبل کی موثرمنصوبہ بندی کر سکتی ہیں۔

دوسری طرف حکومت کی مرکزی تحقیقاتی ایجنسی نے جس طرح جہانگیر ترین پہ ہاتھ ڈالا ہے۔ وہ بھی حیرت انگیز ہے۔ یہ کہنا تو بےجا نہ ہوگا کہ یہ ساری کاروائی عمران خان کی آشیر آباد سے ہو رہی ہے یہی وجہ ہے کہ جہانگیر ترین نے بھی خطرے کو فور ی بھانپتے ہوئے اپنی طاقت کا اظہار کر دیا۔ جہانگیر ترین کے ساتھ اس وقت کل پچاس سے زیادہ ممبر قومی و صوبائی اسمبلی ہیں۔اس کے علاوہ جہانگیر ترین کا زرداری صاحب سے ملاقات کے سوال پہ ہنسنا اور شہلا رضا کا ملاقات کی ٹوئیٹ کر کے ڈیلیٹ کرنا یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ عمران خان کو جو سکون پی ڈی ایم کے ٹوٹنے سے میسر آیا تھا وہی سکون لمحوں میں جہانگیر ترین کی سیاسی چالوں سے رفو چکر ہو گیا ہے۔ اس لیے خان صاحب نے عندیہ دیا ہے کہ وہ جہانگیر ترین کے خدشات سننے کے لیے تیار ہیں۔

پاکستانی کی سایسی تاریخ بتاتی ہے کہ کسی بھی جمہوری یا نیم جمہوری حکومت کے لیے تیسرا اور چوتھا سال سب سے زیادہ مشکل   ہوتے ہیں۔ نوئے کی دہائی میں تو کسی نہ کسی بہانے پارلیمان کی بساط ڈھائی تین سال بعد الٹ دی جاتی تھی۔ لیکن یہ سلسلہ بعد میں بھی تھوڑے بہت فرق سے جاری رہا۔ آمر کے دور میں میر ظفر اللہ جمالی بھی پانچ سال پورے نہیں کر سکے۔ وجہ چاہے کوئی بھی ہو گیلانی کو بھی بطور وزیراعظم پانچ سال پورے نہیں کرنے دیے گئے۔ اس کے بعد نواز شریف کی کہانی تو سب کو ازبر  ہے۔ لہذا بعید نہیں کہ خان صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی کوئی کھیل کھیلا جائے۔ اور اس میچ میں جہانگیر ترین اوپننگ بیٹسمین ہوں۔

سینیٹ کی سیٹ جیتنے کے بعد سے گیلانی صاحب کا انداز معاندانہ نہیں ہے۔ گیلانی صاحب نے سینیٹ میں پہلا خطاب کرتے ہوئےبھی کہا کہ میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی نمائندگی کروں گا۔ جبکہ سینیٹ چیئرمین الیکشن سے پہلے ہی وہ اسٹیبلشمنٹ کےکردار کو غیر جانبدار سمجھ رہے تھے۔ لہذا ایسی صورتحال میں جس وقت حکومت ڈھائی سال میں کوئی ایسی مضبوط اقتصادی بنیادکھڑی نہیں کر سکی کہ جس کے نتیجے میں آئندہ دو سال میں ایسے عوام دوست پراجیکٹ سامنے آئیں جس پہ عوام عش عش کراٹھیں، جہانگیر ترین کی سیاسی چال اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ راجہ ریاض جو ہر جگہ جہانگیر ترین کے ساتھ پیش پیش ہیں ان کاپیپلزپارٹی سے اچھا تعلق رہا ہے بلکہ وہ پیپلزپارٹی کے پنجاب میں سینئر وزیر اور ڈویژنل کوآرڈی نیٹر  رہے ہیں دوسری طرف پنجاب میں درجنوں ایسے لوگ تحریک انصاف کا حصہ بنے جو تاریخی طور پہ پیپلزپارٹی میں شامل تھے۔ لہذا ان کی ہمدردیاں کسی نہ کسی طرح پیپلزپارٹی کےساتھ ہیں ، جبکہ پیپلزپارٹی نے خود کو پی ڈی ایم سے دور کر کے طاقت کے مراکز کو بھی ایک پیغام پہنچا دیا ہے۔

زرداری صاحب اور فریال تالپور کے کیسز اب لائم لائٹ میں نہیں رہے ( البتہ مجھے تجسس ہے کہ وہ رکشے والا اور فالودے والا کہاں گیا جن کے اکاونٹ سے اربوں روپے نکل رہے تھے)۔ پیپلزپارٹی سینیٹ میں گیلانی صاحب کی صورت میں ایک نرم چہرہ لے آئی ہے۔دوسری طرف جہانگیر ترین زرداری صاحب سے ملاقات کی باتوں پہ مسکرا رہے ہیں۔ ان سب باتوں سے آپ نے جو سمجھنا ہے وہ سمجھیں ۔ البتہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ساری صورتحال پہ میاں نواز شریف کیا سوچ رہے ہیں۔

حیرت انگیز طور پہ شہباز شریف کی ضمانت بھی منظور ہو گئی ہے۔ اب وہ باہر ہیں اور یقیناً کھل کر سیاست کریں گے۔ نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف گولہ باری کم نہیں ہوئی۔ ایک بات تو    واضح ہے اگر نواز شریف اور مریم نواز مولانا فضل الرحمن کے ساتھ اسی ایجنڈے پہ، اسی لب و لہجے میں جدوجہد کرتے رہیں تو طاقت کے مراکز کبھی بھی کم از کم اگلے انتخابات میں ان کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ لہذا مجھے لگتا ہے کہ میاں صاحب اس وقت ڈسکہ کے الیکشن کی جیت کو کیش کروانے کی کوشش کریں گے۔ لہذاممکن ہے میاں نواز شریف اب کچھ عرصے کے لیے سیاسی طور پہ بہت زیادہ جارحانہ رویہ ترک کر دیں۔ اور اپنی جماعت کے لیےآئندہ انتخابات کے لیے کچھ موثر حکمت عملی بنائیں۔ باقی جوں ہی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ تحریک لبیک سے نمٹ لیں گے تو اس کےچند ہفتے بعد ملکی سیاست کے خد و خال کچھ واضح ہوں۔

عمران خان کی ناکامی ثابت کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ حکومت کے تین سال مکمل ہونے تک اپنے وزرا کا درست انتخاب نہیں کر سکے۔ پیپلزپارٹی کیے سیاسی پینترے اشارہ دیتے ہیں کہ وہ موجودہ حالات میں خلا پر کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن غالباً سندھ حکومت کی کارکردگی کے علاوہ 2008 سے 2013 کی پانچ سالہ حکومتی کارکردگی ان کے راستےسے کا پتھر بنیں۔ جبکہ ن لیگ کا مستقبل میاں صاحب کی اسٹیبلشمنٹ پہ گولہ باری سے جڑا ہوا ہے۔ آج کے بعد پاکستانی سیاست کی صفحے پہ جو کچھ لکھا جائے گا وہ الگ  انتخابات کے لیے ہوگا۔ اس ساری صورتحال میں سیاسی جماعتیں اور سیاستدان وہی کریں گے جو انہیں بہتر لگے گا البتہ میرامشورہ ہے کہ عوام آیت کریمہ کا ورد کر سکتے ہیں۔آخر میں محترم امجد اسلام امجد کی ایک غزل اس غزل کا کالم سے تعلق خود ہی تلاش کر لیں۔ ورنہ بناتعلق کے محض غزل سے حظ اٹھا لیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم تو اسیرِ خواب تھے تعبیر جو بھی تھی
دیوار پر لکھی ہوئی تحریر جو بھی تھی
ہر فرد لاجواب تھا، ہر نقش بے مثال
مِل جُل کے اپنی قوم کی تصویر جو بھی تھی
جو سامنے ہے، سب ہے یہ،اپنے کیے کا پھل
تقدیر کی تو چھوڑئیے تقدیر جو بھی تھی
آیا اور اک نگاہ میں برباد کر گیا
ہم اہلِ انتظار کی جاگیر جو بھی تھی
قدریں جو اپنا مان تھیں، نیلام ہو گئیں
ملبے کے مول بک گئی تعمیر جو بھی تھی
طالب ہیں تیرے رحم کےعدل کے نہیں
جیسا بھی اپنا جُرم تھا، تقصیر جو بھی تھی
ہاتھوں پہ کوئی زخم نہ پیروں پہ کچھ نشاں
سوچوں میں تھی پڑی ہُوئی، زنجیر جو بھی تھی
یہ اور بات چشم نہ ہو معنی آشنا
عبرت کا ایک درس تھی تحریر جو بھی تھی
امجد ہماری بات وہ سُنتا تو ایک بار
آنکھوں سے اُس کو چومتے تعزیر جو بھی تھی!

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)