• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اس کی آنکھو ں میں کوئی مر گیا ہوگا۔۔میمونہ احمد(نالہ ء شب گیر ،پر تبصرہ )

اس کی آنکھو ں میں کوئی مر گیا ہوگا۔۔میمونہ احمد(نالہ ء شب گیر ،پر تبصرہ )

میرا دماغ اس وقت خاموش ہوجاتا ہے جب میں کو ئی بہترین سوچ کو کتابوں میں پڑھتی ہوں, میرے الفا ظ اس لکھاری کو خراج پیش کرنے کے لیے بے تاب ہو جاتے ہیں۔ ان دنوں بھی کچھ ایسا ہوا میں نے کتاب شروع کی اور اس لکھا ری کے لفظ مجھے اس گہرا ئی میں لے گئے جہاں اس نے بیٹھ کر تحریروں کو جمع کیا ہو گیا گا۔۔ جی ہا ں میرے قارئین! میں نے جب یہ کتا ب پڑھی تو مجھے سارا شگفتہ کے یہ الفاظ بارہا یاد آنے لگے ،میر ی آنکھوں میں کو ئی دل مر گیا۔۔

مجھے بھی یہی لگتا ہے اس کی آنکھوں میں کوئی دل مر گیا ہو گا ،جو اس نے ایسی تحریر لکھ ڈالی۔ میں جس کتاب کاذکر کرنے جا رہی ہو ں وہ نالہ شب گیر ہے جسے لکھنے کی ہمت مشرف عالم ذوقی نے کی ہے۔۔ میں نے جب اس کتاب کو شروع کیا تو میرے وہم وگمان میں بھی یہ نہ تھا کہ یہ تحریر صدیوں کو بدلنے کا حوصلہ رکھتی ہوگی ، جہاں ذوقی کھڑا ہے گواہی دے رہا ہے زمانوں کے بدلنے کی، ان نئے رنگوں کی جو ذوقی دیکھ رہا تھا۔

قارئین کرام میں چند اقتباسات ضرور پیش کرنا چاہوں گی جس سے آپ کو بھی اندازہ ہو گا کہ کیا لکھ ڈالا ہے ہمارے اس عہد کے لکھاری نے۔

اس صدی میں انسان سے زیادہ خوفناک کیڑا دوسرا کون ہو سکتاہے؟ ستا رے آسمان سے آتے آتے لو ٹ گئے، میں جگنو تلاش کرنے گئی تھی راستہ بھٹک گئی، ذوقی صاحب نے ایک جگہ لکھا۔۔ کو ن نہیں مرے گا ایسے، جب آپ بار با اسے سجا کر باہر لے جاتے ہوں، یا کبھی کبھی سج دھج کر گھر میں ہی نما ئش یا میلا لگا دیتے ہوں، ایک حد ہوتی ہے، کو ئی بھی کتنی بار مرتا، کبھی کبھی تنہائیاں بھی گفتگو نہیں کرتیں ۔ہم زندگی کے نئے ہائی وے پر ہیں اگر تبدیلی آتی ہے تو چندلوگ ہی محسوس کیوں نہ کریں؟۔۔۔

یہ وہ جملے ہیں جومجھے یا د رہ گئے ہیں۔ میرے لوگو! شاید  یہ اپنے عہد کی وہ کتا ب ہو گی جہاں عورت کے لیے مخلوق ہونے کی وکالت کی  گئی ہو گی، جہاں اسے محکوم نہیں دکھایا گیا، جہاں اس کو ایک جیتا جاگتا وجود دکھا یا گیا۔اس کی سوچ کی عزت کی گئی ہو گی۔اس کتاب کے اندر ذوقی صاحب نے دکھا یا کہ جب بہت زیادہ تذلیل کر دی جاتی ہے جب بہت با ردھتکارا جاتا ہے تو کیسے چنگاری رہ جاتی ہے، جو ایک آگ کو جنم دیتی ہے، جو بدلے کی بھی ہو سکتی ہے، جب اس مخلوق میں آگاہی نے جنم لیا تو اس نے یہ احساس بھی کرایا اس دنیا میں رہنے والی دوسر ی مخلوق کو جسے مر د کہتے ہیں، اس مر د نے کیا الفا ظ کہے، پیش نظر ہیں۔۔

وہ اس سر زمین پر پہلا آدم تھا جسے صدیوں کے ظلم و جبر کی علامت بنا کر ذلت اور رسوائی کی صلیب پر چڑھادیا گیا تھا۔رہنمائی کر نے والے کھو جا ئیں  تو آپ کے پا س سے ایک پوری دنیا کھو جا تی ہے۔۔۔

صوفیہ، نا ہید، کمال یہ وہ اعلیٰ کردار تھے اس کتا ب کے جنہوں نے اس دنیا کو بدلنے کی گو اہی دی ہے جنہوں نے سہا ہے تبدیلی کو، نا ہید اس تبدیل ہو تے کردار کا نا م ہے جس نے ظلم سہنے سے انکا ر کر دیا تھا، جس نے برسو ں کی تذلیل کا بدلہ لینے کی ٹھان لی تھی۔ جس نے نا صرف اپنی  سوچ کو بدلا بلکہ اپنی اس صدی کو ہی بدل دیا۔ ڈکشنری بدل دی، ظلم سہنے والی مخلوق بدل دی، وہ جہاں تک کر سکتی تھی اس نے کیا۔ مصنف نے نا ہید کو ایسے دکھا یا جو محسوس کرسکتی ہے اپنی تذلیل کے خلاف آواز اُٹھا سکتی ہے، ہمیں جہاں عورت ممتا، قربانی، محبت کے جذبو ں سے بھر پور نظر آئی وہاں اسی جگہ ہم نے ناہید کو دیکھا جس کے اندر نو چ لینے کی ہمت تھی، وہ ہر اُٹھنے والی غلط نگاہ کو نو چ سکتی ہے، یہ ہمت شاید  صدیوں کے بدلنے سے آئی ہے،ناہید کے کردار نے اس کتاب  کو بہت جاندار بنا دیا ہے،صوفیہ ایک ایسامحسوس کرنے والا کردار تھی، جس نے اپنا رشتہ پرندوں کے ساتھ، بدلتے موسموں کے ساتھ، احساس کے رشتوں کے ساتھ جوڑا۔کما ل وہ کردار تھا جسے نے نا ہید جیسے انقلاب کو سہا تھا۔۔ اور تب ہی تو شاید  اس نے کہا تھا۔۔
انقلاب۔۔۔کمال مسکرایا۔۔انقلاب کبھی نہیں آتا، کونج ہو تی ہے، پھر کو نج کر نے والے سو جا تے ہیں۔۔تبدیلیاں اچانک نہیں آتیں۔۔

مصنف اس کتاب میں آپ کو جا بجا نظر آئے گا۔۔جہاں تہذیب بدلنے کے نو حے ہوں گے جہاں ہمارے سدھرنے کے کوئی موسم نہیں ہو ں گے، مصنف زمانوں کو بدلتے دیکھتا ہے، صدیوں کے بدلنے کا گواہ ہے، لیکن وہ سوال کربیٹھتا ہے۔؟

ہم ہر بار ایک بو جھ جیسی رات سے طلوع ہو نگے۔ اور ہر بار ایک بوجھ جیسی رات میں سما جا ئیں گے۔۔ایک جگہ ذوقی لازوال لکھ گیا۔۔۔ ہر بار ایک دنیا ہما رے لیے نئی ہو جا تی ہے۔ ہر بار ایک تہذیب پرانی ہو کر گم ہو جا تی ہے۔ ہر بار ہم ایک نئی تہذیب کے ساتھ حیران ہورہے ہوتے ہیں۔۔

قارئین کرام! کتاب تو میں نے ختم کر لی۔۔ لیکن  ذوقی صاحب کے سوالا ت ختم نہیں ہوئے ، وہ سوالا ت جو انھوں نے نہیں کیے لیکن جا بجا ان کی کتا ب میں بکھر ے پڑے تھے۔۔ کہیں وہ عورت جو بے بس نہیں تھی لیکن زمانوں نے صدیوں نے اسے بے بس کہا، اسے تماشا کہا، اسے نے برداشت کیا۔۔ کیا وہ محسوس نہیں کرسکتی تھی جب اس کو نوچا جا رہا تھا۔۔ کیا تب وہ محسوس نہیں کرسکتی تھی جب اسکی قیمت لگائی جارہی ہوتی ہے۔۔ کیا اس کے اندر اتنی ہمت نہیں تھی وہ ان صدیوں کا زمانوں کا قبیلوں کا دوسری مخلوق کا جواب دے سکتی!لیکن نا لہ شب گیر نے جواب دیا ہے۔۔

ایسا جواب جس کو دینے کے لیے صدیاں لگ گئیں ۔اور یہ اکیسویں صدی کے مشرف عالم  ذوقی نے جواب  دیا۔۔ تاریخ یا د رکھے گی۔

قارئین کرام!کیا واقعی کہانی ختم ہوگئی۔۔؟جو سچائی پر مختص ہو وہ کیسے ختم ہو سکتاہے۔۔؟

عورت اور مرد پہلے انسان ہیں، ان کو ایک دوسرے کو انسان کی حیثیت سے سمجھنا ہو گا، محسوس کرنا ہوگا، انھیں ایک دوسرے کی دنیا میں آزاد کرنا ہو گا،جنس تو بعد میں ہونی چاہیے، جہاں برابر ی کو اور توازن کو ہونا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں مشرف عالم  ذوقی کی مشکور ہوں۔میرا  تبصرہ ضروری نہیں کہ بے مثال ہو لیکن میرے لفظ ان کے لیے خراج تحسین ہیں ۔ جنہیں میں چاہو ں گی کہ  وہ قبول کریں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply