• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ظلمت سے نور کا سفر(قسط18)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

ظلمت سے نور کا سفر(قسط18)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

ضحیٰ  نے باہر سے قدموں کی بھاری چاپ اندر آتے ہوئے محسوس کی ۔آمنہ کی گیٹ پر مہذب گفتگو آنے والے کی قدر و منزلت سے واقف کرا رہی تھی۔ ضحی نے اندر آنے والے شخص کو بغور دیکھا ۔۔ سلیقے سے کٹے فوجی کٹ سیاہ بالوں والے، درمیانے سے قد اور کسرتی جسم کے مالک اس شخص کی شخصیت قدرے سلجھی ہوئی لگ رہی تھی۔ضحی کی نظریں اس کے جوتوں پر پڑیں تو بے ساختہ ہنسی آئی ۔اسے مردوں کے نوکیلے جوتے سخت برے لگتے تھے پر آمنہ کو سنجیدہ اور مہذب دیکھ اس نے سر جھکا لیا کہ مہمان واقعی اہم لگتا تھا۔
آمنہ نے قریب آتے ہوئے تعارف کروایا “ضحی یہ میرے کزن اظہر شاہ ہیں۔یہ بھی تہماری طرح فیبرک ٹیکسٹائل کے شعبہ میں بزنس کرتے ہیں۔”
ضحی نے سلام کیا اور احتراماً اپنی نشست سے اٹھ کر کھڑی ہوئی پھر وہ تینوں صحن میں ہی براجمان ہوگئے ۔
آمنہ نے حال احوال دریافت کرنے کے بعد آنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا ۔
“کہ آپ سے ذکر کیا تھا وبائی مرض کی وجہ سے بزنس کے حالات خراب چل رہے ہیں پروڈکشن کے بہت مسائل ہونے کی بنا پر ہم مصنوعات کو تاخیر سے مارکیٹ میں پہنچا پاتے ہیں ۔ایک دن آپ نے ذکر کیا تھا کہ آپ کی دوست کی بوتیک کے ساتھ اپنا سٹچینگ یونٹ بھی ہے جو مجھے مقررہ وقت پر مناسب قیمت میں اعلیٰ کوالٹی کا مال فراہم کرسکتیں ہیں بس اسی سلسلے میں حاضر ہوا تھا۔”
انسان کمزور ہے حالات کے تھپیڑوں کا شکار ہوتے ہی، بہت سے تفکرات اسے گھیر لیتے ہیں، بیماری لاحق ہونے سے صحت یابی کی فکر، دربدر ہونے سے چھت کے ساتھ ساتھ معاش کی فکر میں وہ خود کو بے بس محسوس کرتا ہے ۔لیکن وہ جانتا نہیں اللہ رب العزت اپنے بندے کو آزمائش میں کبھی تنہا نہیں چھوڑتا اس کی آسانیوں کے لیے اپنے غیب نظام جاری رکھتا ہے ۔انجان لیکن مخلص، فرشتہ صفت لوگوں سے اس کی مدد اور راہنمائی کے اسباب پیدا کرتا ہے ۔اور جب وہ اس اپنی زندگی کو جینے کے قابل ہو جاتا ہے تو دیگر اسباب کا بندوبست بھی کرتا ہے بس انسان کو اللہ پر توکل کرنے ضرورت ہے ۔ضحی کو آج کل یہی فکر تھی کہ میں آمنہ پر بوجھ بن گئی ۔چونکہ وہ خودار طبیعت کی حامل محنتی لڑکی تھی اس لیے کچھ نا کچھ سوچتی رہتی ۔تاکہ عملی زندگی کا دوبارہ آغاز کرے ۔
“صلاحیت اور ہنر کبھی کسی کی زندگی کو خزاں رسیدہ نہیں کرتے ۔”
اسے یہ بات یاد تھی ۔اسے کیا معلوم تھا آنا والا فرد اس کی معاشی زندگی میں روح پھونک دے گا ۔
آمنہ نے چٹکی بجا کر ضحی کی طرف اشارہ کیا ۔۔
“یہ رہی آپ کی مطلوبہ بندی۔۔یہ ضحی ہیں اور یہ آپ کا کام کرسکتی ہیں۔آپ ان سے کام کی بابت گفتگو کرلیں میں چائے لاتی ہوں۔”
ضحی جو اب تک گونگے کا گڑ کھائے بیٹھی تھی آمنہ کو اشارے ہی کرتی رہ گئی پر آمنہ اندر چلی گئی۔
اظہر نے ضحی کو دیکھا تھکی تھکی، بیمار ایک نحیف لیکن پرکشش لڑکی اس کے سامنے بیٹھی تھی اسے اس پیڑ کی مانند لگی جس کا حسن خزاں کے موسم میں مانند پڑ جاتا ہوں ۔۔
“میں نے آمنہ سے آپ کے بارے میں سنا تھا پر آپ سے مل کر اچھا لگا۔”
اظہر نے گفتگو کا رسمی انداز سے آغاز کیا ۔جو تمام کاروباری افراد کرتے ہیں،
ضحی نے سر جھکائے ہی کہا کہ “اچھا تو نہیں سنا ہوگا۔”
ضحی اپنے خود اعتمادی کو کھوتے ہوئے اپنے حالات کے پیش نظر اس بول بیٹھی، اس کے خیال میں اسے بھی علم ہو چکا ہو گا کہ میں کس آزمائش کا شکار ایک ایسا پرندہ ہو جو اب کسی کے گھونسلے میں پناہ گزیں ہے ۔
اظہر کے لبوں پر مسکراہٹ گہری ہوئی اور آہستگی سے کہا “ذکر خیر ہی کیا تھا ۔آمنہ بہت اچھی ہیں اور بہت منفرد ہیں ۔ورنہ میں کام کی مشاورت تو نہیں لیتا۔پر انہوں نے تو میرا مسئلہ ہی حل کردیا۔آپ فیکٹری کا پتہ بتادیں تاکہ کاروباری معاملات کے لیے وہاں حاضر ہوجاؤں اور معاہدہ ہوسکے” ۔۔
ضحی نے گڑبڑا کر کہا “فیکٹری تو نہیں ہے”
اظہر نے آنکھیں حیرت سے کھول کر کہا “جی ۔۔؟”
ضحی نے اب کی بار خود کو کوسا اور دل ہی دل میں خود کو ڈپٹ کر کہا کہ یاد کرو تھوڑی دیر پہلے کے ارادے اور اب جب بند فیکٹری کے باوجود آرڈر خود چل کر آیا ہے تو یہ کفرانِ نعمت ہوگی۔آمنہ کے احسانات اس کی کمر جھکا رہے تھے اب اس کے کزن کے سامنے آمنہ کا سر بھی جھکتا۔کیا احسان کا بدلہ احسان نہیں ہے!
پر ضحی جب بولی تو صرف اتنا کہ “جی طبیعت کے باعث فیکٹری بند کرنا پڑی تھی پر آپ مجھے آرڈر کے مقررہ وقت سے پہلے کچھ دن دیں تو سب ٹھیک ہوگا ان شاءاللہ۔”
آمنہ چائے کی ٹرے لیے آتے ہوئی بولی “جی جناب مجھے امید ہے کہ آپ کا مسئلہ تو حل ہوگیا ہوگا”
اظہر نے زیر لب مسکرا کر کہا کہ ” جی جنابہ! آپ نے تو میرے مسئلہ ہی حل کر دیا”
آمنہ تو چائے نکالنے اور لوازمات پیش کرنے میں مصروف رہی دونوں کاروباری معاملات میں مختلف امور پر گفتگو کرتے رہے. اظہر شاہ کو یقین ہو چلا ایک قابل بزنس گولیگ سے ملاقات ہو چکی ہے
دوسری طرف آمنہ ضحی کے دوسرے مستقبل کو محفوظ کرنے کے بارے سوچنے لگی ۔
” عورت کا سب سے مضبوط سہارا اس کا خاوند ہوتا ہے ۔”
ایک خیال تھا جو اس کے ذہن میں تھا ضحی کے لیے ایسا ہی سہارا تلاش کرنا چاہیے کیا اظہر وہ سہارا بن سکتا ہے ۔لیکن ضحی کا ذہن بنانا ضروری تھا ۔کاروباری معاملات میں رہ کر وہ ایک دوسرے کو قریب سے جاننے لگے تو پھر اس تعلق کو عمر بھر کے بندھن میں منسلک کرنا کونسا مشکل کام ہو گا ۔
مخلص تعلق وہی ہوتا ہے جو دوست کے مستقبل کے بارے میں بھی دور اندیشی سے کام لے آمنہ اب یہی کرنے چلی تھی ۔
دوسری طرف ضحی کی بے چینی بڑھ رہی تھی قدرت کی طرف سے غیبی طور پر معاشی انتظام کا بندوبست اور آمنہ کا وسیلہ بننا اسے شکر کی انتہا پر لا رہا تھا ۔ خوشی کے اس موقع پر بھی وہ خود کو پینک محسوس کرنے لگی ۔اسی کیفیت میں
رات سونے لیٹی تو یہی سوچ رہی تھی۔پھر اٹھ کھڑی ہوئی کہ سوچ سوچ کر انزائٹی بڑھانے سے بہتر ہے جاکر آمنہ سے ہی پوچھا جائے۔
دستک دے کر داخل ہوئی تو آمنہ اپنی تفسیر کی کاپی پڑھ رہی تھی۔
شوخی سے مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔”آؤ جی۔۔۔میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی کہ کب آؤ گی ۔بے چینی میں تو تمہیں نیند ہی نہیں آئے گی۔
ادھر بیٹھو”
آمنہ کے بیڈ پر بیٹھنے کے اشارے کے بعد وہ بیٹھ تو گئی پر سمجھ نہیں آئی کہ کیا پوچھے۔بظاہر اتنی بڑی بات تو نہیں پر بیڑہ غرق حساسیت کا جو اسے چین نہیں لینے دے رہی تھی۔
آمنہ نے اس کا اضطراب دیکھنے کے بعد اپنی سوچ کے مطابق اس کا ذہن بنانے اور مستقبل کو واضح کرنے لیے اسے کہا۔۔”دیکھو میں نے کب کے بعد اپنی یہ تفسیر کے دروس کی نکالی تو دیکھنے لگی۔ یہ آیت مجھے بہت پسند ہے۔

“ومن آياتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا اليھاوجعل بينکم مودۃورحمۃ”
(سورہ روم 21)

“اس کى نشانيوں ميں سے ايک يہ ہے کہ اس نے تمہاراجوڑاتمہی ميں سے پيداکياہے تاکہ تمھيں اس سے سکون زندگى حاصل ہو اورپھرتمہارے درميان محبت اوررحمت کا جذبہ بھى قراردياہے”

Advertisements
julia rana solicitors

ضحی۔۔۔ عورت کی زندگی کی مختلف مرحلے ہیں اور ہر مرحلے پر اس کی حفاظت کے لیے اس کا محافظ اس پر قوام ہے بچپن سے لڑکپن تک باپ،لڑکپن سے جوانی تک بھائی۔۔ جوانی سے بڑھاپے کی راہ پر شوہر۔۔ بڑھاپے سے قبر تک اولاد۔۔
یہ تقدیر میں ایسے ہی لکھا ہے۔یہ سب ساتھ ہوتے ہیں پھر بھی ایک عورت کے لیے مرد سے محفوظ چادر کوئی نہیں۔۔۔کیونکہ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ شوہر اور بیوی کے تعلق کو لباس سے تشبیہ دینے کی حکمت بہت وسیع ہے دیکھو لباس زمانے کے سرد و گرم،آندھی و طوفان اور ہوا کے تھپیڑوں سے محفوظ رکھتا ہے ۔لباس جسم کے عیب،نقص اور خامیاں ڈھانپ کر رکھتا ہے ۔لباس تن کو احساس لطافت،سکون، چین اور حفاظت کا احساس دیتا ہے۔ پھر جس طرح سے ہم ہمہ وقت اپنے لباس کا خیال رکھتے ہیں ،وقتا فوقتاً اس کو مزین کرتے ہیں ویسے ہی زندگی کے ساتھ ایک دوسرے کے سکون و چین، محافظ، ستار اور زینت بن جاتے ہیں۔ایک دوسرے کی خوبیوں میں اضافہ کرتے ہیں۔
ضحی۔۔ تمہیں اچھے محافظ کی ضرورت ہے اس پر سوچو ۔۔۔”
جاری ہے ۔

Facebook Comments