“قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں” ۔ یہ ایک بہت ہی عمدہ کتاب ہے جس میں مصنف نے برطانیہ اور یورپ کی ترقی کی وجوہات کا تجزیہ کیا ۔ اس حوالے سے ریاست کی رٹ کی اہمیت مصنف اس طرح بیان کرتا ہے۔
رومی سلطنت کے زوال سے لے کر چودہویں صدی کے آغاز تک برطانیہ میں جاگیرداری نظام قائم تھا جس میں بادشاہ جاگیرداروں کو زمین عطا کرتا تھا۔ نچلے طبقے میں کسان تھے جو اس زمین پر کام کرتے تھے۔ ان کسانوں کی محنت پر جاگیردار اور کسان عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے تھے۔
جب کالی موت کی وبا یورپ میں پھیلی تو اس سے یورپ کے دیگر ممالک کی طرح برطانیہ کی تقریباً آدھی آبادی ہلاک ہو گئی جس کی وجہ سے کسانوں کی قلت ہو گئی اور ان کی سودے بازی کی قوت بڑھ گئی۔ زیادہ تر کسان زمین سے بندھے ہوتے تھے۔ زمین کی فروخت یا اس کی ملکیت تبدیل ہونے پر کسان بھی نئے مالک کے غلام بن جاتے۔ چونکہ جاگیرداروں کے پاس زمینوں پر کام کرنے والے لوگوں کی قلت ہو گئی تھی اس لیے کسانوں نے اپنے مطالبات منوانا شروع کر دیے جن میں سے ایک زمین چھوڑنے کا اختیار بھی شامل تھا۔ اس سے جاگیرداری نظام کمزور پڑنے لگا۔۔ بہت سے کسانوں نے شہروں کا رخ کیا اور وہاں محنت مزدوری کرنے لگے۔
یورپ میں موجود جاگیردار بہت طاقتور ہوا کرتے تھے۔ چونکہ بادشاہ کو فوج انہوں نے مہیا کرنا ہوتی تھی اس لیے وہ آپس میں اتحاد کر کے بادشاہوں کو بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں رہتے تھے۔ بادشاہوں اور جاگیرداروں میں کشمکش جاری رہتی تھی جو بعض اوقات کھلی جنگوں میں تبدیل ہو جاتی تھی۔ جاگیرداری کے کمزور پڑنے پر بادشاہ کی طاقت میں اضافہ ہوا اور حکومتی رٹ طاقتور ہو گئی۔ 1485 میں ہنری ہفتم نے جاگیرداروں کی طاقت کا مکمل خاتمہ کر دیا۔
یورپ میں دوسرا بڑا مسئلہ مذہبی طبقے کا تھا۔ کلیسا اس قدر طاقتور تھا کہ بادشاہ بھی اس کے سامنے دب کر رہتے تھے۔ یورپ میں سب سے زیادہ زمینیں اور جاگیریں اسی طبقے کے ہاتھ میں تھیں۔ ہنری ہشتم نے رومی کلیسا کی مرکزیت کو توڑنے کے لیے چرچ آف انگلینڈ بنا لیا اور خود کا اس کا سرپرست بن بیٹھا۔ پادریوں سے زبردستی زمینیں ہتھیا لی گئیں اور ریاست نے اپنی پوری طاقت استعمال کر کے انہیں کچل دیا۔
ان دونوں اقدامت سے برطانیہ میں مرکزی حکومت کی رٹ بحال ہوئی اور پھر بادشاہ کے ہاتھ سے یہ طاقت نکل کر پارلیمنٹ کے ہاتھ آ گئی۔ جاگیرداروں اور مذہبی طبقوں کے کمزور ہونے کے بعد ہی برطانیہ میں ترقی کا وہ دور شروع ہو گیا جس کی بدولت اس چھوٹے سے ملک نے آدھی دنیا پر حکومت کی۔
پاکستان میں بھی ریاست کی رٹ کمزور ہے۔ اس کی ایک وجہ الیکٹ ایبلز ہیں جن میں اکثریت چھوٹے بڑے جاگیرداروں کی ہے۔ دوسری وجہ مذہبی طبقہ ہے جو حکومت کو بڑے فیصلے نہیں کرنے دیتا۔ اسرائیل کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا سیاسی نوعیت کا فیصلہ ہے مگر مذہبی طبقے نے اس پر قبضہ جمایا ہوا ہے اور حکومت کو اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کرنے دیتا۔
اسی طرح فرانس کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا یا ختم کرنا ایک سیاسی فیصلہ ہونا چاہیئے جس میں ریاست اپنے مفاد کو مدنظر رکھے۔ مگر مذہبی غنڈوں نے طاقت کے زور پر ریاست کو یرغمال بنا لیا ہے اور یہ فیصلہ اس پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
یہ سب کچھ ہمارے آقا ﷺ کے نام پر ہو رہا ہے حالانکہ اس کی بنیادی وجہ اگلے الیکشن کے لیے ووٹ بنک بڑھانا ہے۔ دنیا کی اعلیٰ ترین ہستی کے نام پر سیاست ہو رہی ہے اور ریاست بے بسی سے تماشا دیکھ رہی ہے۔
ان دونوں طبقات کو دیکھ کر پھر وکیل، ڈاکٹر، پٹواری، استاد، کلرک ۔۔ غیرضیکہ ہر طبقہ اپنے جائز و ناجائز مطالبات تسلیم کرانے کے لیے دھرنے کا رستہ اختیار کرتا ہے۔
جب تک جاگیرداروں یا الیکٹ ایبلز اور مذہبی طبقے کا زور توڑ کر ریاست کی رٹ قائم نہیں کی جاتی اس وقت تک یہ ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ آج نہیں توکل، ریاست کو اس حوالے سے فیصلے کرنے ہوں گے۔
Facebook Comments