ہمارے بچپن میں ماہ رمضان کا خاص اہتمام و انتظام ہمیں اب تک یاد ہے۔
ہمیں بچپن سے ہی چاولوں کی کھیر پسند تھی۔ والدہ محترمہ ہر روز سحری میں ہمارے لیے کھیر بنا دیتی تھیں تو ہم خوشی خوشی آدھی رات کو ہی اٹھ بیٹھتے اور سحری کے وقت کا انتظار کرنے لگتے۔
ہمارا کچن برآمدہ پار کر کے صحن کے ایک کونے میں تھا۔ اس کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ یا کانے سے بنی ہوئی چک پڑی رہتی تھی۔ تب لکڑیوں کے چولہے ہوا کرتے تھے جن میں گوبر کی تھاپیاں یا کوئلہ ملے گوبر کے گولے بھی جلائے جاتے تھے۔ یہ تھاپیاں کئی دیہی خواتین سینکڑوں یا ٹوکروں کے حساب سے بیچنے آیا کرتی تھیں۔
باورچی خانے کی دیواریں ہمیشہ دھویں کی بدولت کالی ہی رہا کرتی تھیں۔
سردیوں میں چولہے کے نزدیک ہی پیڑھیوں، چوکیوں یا دری پر بچھی بوری کے فرش پر بیٹھ کر کھانا کھایا جاتا تھا۔ باورچی خانہ دھویں سے بھرا ہوتا اور سردیوں میں بھی حبس کی بدولت خوب گرم رہتا۔
رمضان شریف میں چولہے کے پاس بیٹھ کر گرم گرم چائے کے پیالے، تازہ بنے پراٹھے اور کھیر سے سحری کی جاتی تھی۔ کبھی کبھار انڈوں کا خاگینہ بھی بن جاتا تو بہت مزا آتا۔
بہت سے آلو اور پیاز باریک کاٹ کر ان میں انڈے ملا کر بھونے جاتے تو بے حد لذیذ لگتے تھے۔
سحری کے وقت ہی چھولے اور دال بیچنے والے خوانچہ خواں بھی آوازیں لگاتے آ جاتے۔ وہ اکثر فالسے کے پتوں پر چنے یا دال ڈال کر دیتے جو بے حد گلے ہوئے ہوتے تھے اور منہ میں گھل جاتے تھے۔ چنوں پر بارک کتری ہوئ ہری مرچیں، کٹی ہوئ پیاز اور بالکل تھوڑے سے ابلے ہوئے چاول ڈال کر دیے جاتے تھے۔
صبح سویرے دودھ دہی والوں کی دوکانیں بھی سحری کے وقت کھل جاتی تھیں۔ وہ لوگ دہی بڑے سے کونڈے یا مٹہ کی کوری پرات میں یوں بناتے تھے کہ اس پر ملائ کی موٹی سی تہہ بھی بن جاتی تھی۔
ہم جب بھی صبح دہی لینے جاتے تو وہ ملائی کی تہہ راستے ہی میں کھا لیتے تھے۔
دودھ والے ربڑی ملائی بھی بیچا کرتے تھے مگر ملائ ناشتے کی لیے صرف تب ہی منگوائی جاتی تھی جب گھر میں کوئی خاص مہمان آئے ہوئے ہوں۔
ان وقتوں میں پورے رمضان شریف کے دوران پڑوسی ایک دوسروں کو بڑے اہتمام سے سوغاتوں پکوانوں کی پلٹیں بنا کر بھجوایا کرتے تھے۔
متمول لوگ زردہ پلاو بریانی وغیرہ کی دیگیں پکوا کر محلے بھر میں بانٹتے۔
رمضان شریف میں اپنے غریب پڑوسیوں کا خاص خیال رکھا جاتا۔
عید کا اہتمام مہینے بھر سے شروع ہو جاتا۔ کپڑے بیچنے والوں بزازوں اور درزیوں کی چاندی ہو جاتی۔ بازاروں میں کھووں سے کھوے چھلنے لگتے۔
چاند رات بڑی دھوم دھام سے منای جاتی۔
تمام خواتین مہندی لگاتیں اور منیاریوں سے نئی چوڑیاں پہنی جاتیں تھیں۔ سہاگنیں سبز اور سرخ رنگ کی چوڑیاں پہنتیں۔
عید پر بیاہی بیٹیوں اور داماد کو جوڑے جلوے سمیت عیدی بھجوائی جاتی۔ بھائی اپنی بیاہتا بہنوں کے لیے ان کے سسرال میں عیدی دینے جاتے تو بہنیں جھولیاں اٹھا کر دعائیں دیتیں اور شیر خرما و مٹھائیوں سے ان کی خاطر تواضع کی جاتی۔
ہر گھرانے میں سحری کی جداگانہ ٹرڈیشن اور رواج رائج تھے۔
ہماری بیگم صاحبہ کے گھرانے میں پراٹھوں کی میٹھی چوری بنا کر اس سے سحری کرنے کا رواج تھا۔
دیہاتوں میں لوگ لسی مکھن اور دہی کے ساتھ تندور کی تازہ روٹی ہی بنا کر کھاتے تھے۔ زیادہ ہوا تو تازہ ترکاری یا ساگ بھی پکا لیا جاتا تھا۔
ہماری والدہ موسم میں بہت سی سبزیاں سکھا لیتی تھیں اور پھر یہ سارا سال کھائی جاتیں۔ سوکھے شلجم، سوکھے مٹر، سوکھا ساگ، سوکھا گوشت، سوکھی کچنار، سوکھا سہانجنا سال بھر خراب نہیں ہوتا تھا۔ میٹھی عید سے قبل سویاں ہر گھر میں بنائی جاتی تھیں۔ ہم بچوں سے باری باری سویاں بنانے کی مشین چلوائی جاتی۔ یہ چھوٹی سی مشین چارپائی کی پائنتی سے کس کر باندھی اور پیچ سے کسی جاتی تھی۔
برامدے میں رسیاں تان کر ان پر یہ سویاں سوکھنے کے لیے ڈالی جاتی تھیں۔
ہمارے والدہ سویوں کے کچھ تازہ لچھے تل کر بھی محفوظ کر لیا کرتی تھیں جو زیادہ مزے دار بنتے تھے۔
دالوں میں مرچ مصالحے ڈال کر ان کی بڑیاں بنا کر بھی سکھائی جاتی تھیں۔ پھر سارا سال ہر قسم کے گوشت کے سالن میں یہ سوکھی بڑیاں بطور نقل ڈالی جاتی تھیں۔ یہ بہت چٹپٹی اور مصالحے دار بنتی تھیں۔
دیہاتوں میں سویاں لوگ گھڑوں پر بھی بیل کر بنایا کرتے تھے۔ یہ موٹی سویاں دودھ میں ابال کر پکائی جاتی تھیں۔
ہاتھ سے میدے کے جووڑے بھی بنائے جاتے تھے جو چاولوں کی طرح باریک ہوتے تھے اور انگوٹھے و ساتھ والی چھوٹی انگلی کی تیز جنبش سے بنائے جاتے تھے۔ جووڑے بھی گڑ شکر اور میوے ڈال کر بنائے گئے بہت مزے دار بنتے تھے۔
اب ہماری زبانیں وہ ذائقے بھول چکی ہیں۔ پرانے رسم و رواج اور ثقافتیں، ماضی کے چلن ناپید اور آہستہ آہستہ مفقود ہوتے جا رہے ہیں۔
رہے نام اللہ کا۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں