ہم سماجی نفسیات اور اعمال کے اعتبار سےعجیب واقع ہوئے ہیں۔ دنیا کو فتح بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن اسی دنیا سے بھیک مانگ کر اپنا وقت بھی پورا کر رہے ہیں، ہمیں جنت بھی جانا ہے مگر ہم اخلاقی و دینی اقدار کی پاسداری بھی نہیں کرتے۔رمضان المبارک کو ہم برکتوں سے زیادہ منافع آور برکت والا مہینہ سمجھتے ہیں۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں ہم با وضو ہو کر،روزے کی حالت میں غیر معیاری اشیا مہنگے داموں بیچتے ہیں اور با جماعت پنج گانہ نماز بھی ادا کرتے ہیں۔غالب یاد آتے ہیں۔
ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
ورنہ میں ہر لباس میں ننگ ِ وجود تھا
یہ ہماری سماجی نفسیات ہے کہ ہم اختلافِ رائے کے بجائے مخالفت کو پروان چڑھاتے ہیں، دلائل کے بجائے دشنام سےمیدان مارنے کا ہنر آزماتے ہیں۔ہم سب کا اپنا اپنا سچ ہے،اپنا اپنا جھوٹ ۔ بعض اوقات تو ہم چاہتے ہوئے بھی حق بات نہیں کہہ پاتے کہ شاید مخاطب ناراض نہ ہو جائے یا ہمیں کوئی جانی، مالی یا سماجی نقصان نہ پہنچائے۔
بارہا لکھا، مکرر عرض ہے،یہ ہمارا سماجی رویہ ہے کہ ہم شخصیت پرستی کے سحر میں گم ہیں۔سیاسی پارٹیوں، مذہبی و مسلکی اور نسلی و لسانی گروہوں کی تفریق کا حصہ بن کر ہم فخر کرنے والا سماج ہیں۔ لیکن اپنے تئیں یہ بھی گمان رکھتے ہیں کہ ہم اس ٹوٹے پھوٹے اور بے سمت سماج کی ادھوری قوت سے عالمی طاقتوں کو سرنگوں کر لیں گے۔بھلا کیسے؟ بس یہ ہو جائے گا، کیونکہ ہم ایسا سوچتے ہیں۔ کیونکہ ہم اسلام کا قلعہ ہیں،کیونکہ ہمارا مولوی ہمیں ایسی تلقین کرتا ہے،ایسی نوید سناتا ہے اور ہمارے سیاسی شعبدہ باز ہمیں نت نئے سازوں پر نچانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔انہی سیاسی شعبدہ کاروں کو ہم اصل فیصلہ سازوں کے درودیوار تلے سساتے، سسکتے بھی دیکھتے ہیں۔یہ امر واقعی ہے کہ ہمارا سیاسی شعور بلوغت کی سطح کو نہیں پہنچ پایا۔ہم دوچار خاندانوں کی سیاسی چالبازیوں کو جمہوریت سمجھتے ہیں، ہم مافیاز کے کارندوں کو اپنا مسیحا جانتے ہیں،ہم جنازے پڑھنے والے سیاسی ہنر مند کو ملکی ترقی کا ضامن سمجھتے ہیں۔ساغر صدیقی اسی سماج کا ٹھکرایا ہوا وہ قلم کار تھا جس نے بے ساختہ لکھا اور امر ہو گیا
زندگی جبر ِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ایک اصطلاح یاد رہے” پاور پالیٹکس” ہم اس کے عادی ہیں۔موجودہ حکومت اپنے ایجنڈے کے برعکس اپنے غلط فیصلوں کے باعث عوامی حیات کے لیے عذاب بنی ہوئی ہے۔ایک سے ایک نیا فتنہ،اس پر کسی دوسری نشست میں۔ماضی میں مسلم لیگ نون کی حکومت ایسے کام کیا کرتی تھی، بالخصوص ” خادمِ اعلیٰ” شہباز شریف پاور پالیٹکس میں بہت متحرک ہوتے تھے۔رمضان بازار، سستے رمضان بازار، وغیرہ انہی کی عطا کردہ “حکومتی بصیرت” ہے۔اسی طرح پیپلز پارٹی نے بڑا بجٹ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر خرچ کر دیا اور حاصل بھی کچھ نہ ہوا۔موجودہ حکومت نے بھی اسی چلن کو جاری رکھا ہوا ہے۔ملک بھر میں سستےرمضان بازار ” سجا” دیے گئے ہیں۔کچھ عرصہ قبل آٹےکی قلت پیدا کی گئی تو وفاقی حکومت کے حکم پرآٹے کے پیکج ٹرک بازاروں میں گھومتے تھے،شاید انصاف پیکج کا حصہ تھے۔اب سستے رمضان بازار حکومتی ناکامی کا سرکاری اعلان ہیں۔
میں نے گزشتہ حکومت یعنی نون لیگ کی حکومت کے عہد میں بھی سستے رمضان بازاروں کو ہدف تنقید بنایا تھا ،اس کی وجہ بڑی سادہ ہے اگر کوئی غور کرنا چاہے تو۔کوئی بھی حکومت جب بھی کسی خاص موقع پر، ” سستے بازار” کا علیحدہ سے ٹھیلا لگاتی ہے،اور مقامی و ضلعی انتظامیہ کو اس کام پر لگا دیتی ہے تو اس کا مطلب یہی ہو تا ہے کہ حکومتی مشینری عام بازاروں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اس لیے عام بازاروں اور مارکیٹوں کے مقابلے میں حکومت اپنے بازار اور مارکیٹیں سجا رہی ہے۔اس افسوس ناک اور ناکام رویہ پر نادم ہونے کے بجائے حکومتی حواری اس کارکردگی کے حق میں دلائل لاتے ہیں۔ اگر حکومتیں اپنی رٹ قائم کرنے میں کامیاب ہوں تو انھیں سستے رمضان بازار لگانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔مافیاز کو آٹا، چینی،پیاز،دالیں، ذخیرہ کرنے کی جرات ہی نہ ہو۔لیکن گزشتہ و موجودہ حکومتیں ایسا کرنے میں ناکام رہی ہیں، آمروں کے عہد میں بھی یہی ہوتا آیا۔جب قاف لیگ کی حکومت مشرف کی چھتری تلے جمی ہوئی تھی تو آٹے چینی کا بحران آیا تھا۔پھر ہم نے آٹے چینی کے سرکاری ٹرک گھومتے دیکھے۔
میرے شہر میں بھی ایک عدد سرکاری سستا بازار لگا ہوا ہے۔ جہاں جانے کا اتفاق ہوا۔آلو کی قیمت پوچھی تو بتایا گیا کہ36روپے کلو،یہ نرخ سرکاری بینر پر درج تھے،ایک چھابڑی میں صاف ستھرے آلوئوں کا ڈھیر تھا، ان کی قیمت دکاندار نے 42روپے بتائی،وجہ پوچھی تو کہنے لگا،پہلے والا آلو سرکاری ہے جبکہ دوسرے والا صاف ستھرا ہے۔ کجھور والے نے فی کلو کھجور 120روپے بتائی جبکہ ساتھ ہی ایک تھال میں قدرے صاف کھجوریں تھیں۔میرے دوست نے وہ لیں تو دکاندار نے قیمت 200روپے مانگی،وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ تھال والی کھجور کی پیٹی دوسری ہے۔ حالانکہ دونوں یعنی عام ڈھیر والی اور تھال والی کھجور میں رنگ و نسل کا کوئی معمولی فرق بھی نہ تھا، ماسوائے کہ تھال والی قدرے صاف نظر آ رہی تھیں۔دیگر اشیا پر بھی سبسڈی عام بازار سے بہت معمولی ہے، جیسا کہ گزشتہ حکومتیں کرتی تھیں۔اصل مسئلہ مگر برقرار ہے۔منڈی، یعنی عام مارکیٹ،بازاروں، شہروں میں دکانداروں نے اشیائے ضروریہ کے نرخ دگنا کر دیے ہیں۔
یہاں پر حکومت کو اپنی انتظامی سرگرمیاں دکھانا ہوتی ہیں۔ مگر یہ کام نہ گزشتہ حکومتوں نے کیا نہ موجودہ حکومت کر رہی ہے۔موجودہ حکومت تو گزشتگان سے چار ہاتھ آگے ہے۔اس حکومت نے نہ صرف سستے رمضان بازار لگائے بلکہ ” کچن ٹر ِک” بھی متعارف کرائی۔اب سرکاری ٹرک میں فلاحی ادارے کھانا تقسیم کرتے نظر آئیں گے۔ کوئی شہری بھوکا نہیں سوئے گا۔ یہ مگر قطعی کافی نہیں۔حکومت جز وقتی اقدامات کر کے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔وزیر اعظم صاحب آج بھی “چوروں کو این آر او” نہیں دوں گا سے بات شروع کرتے ہیں، جبکہ پی ڈی ایم، یعنی اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد اپنے اپنے مفادات کی چادر تانے اختتام کو پہنچا۔عوام کی مشکلات پہلے سے بڑھ چکی ہیں۔وہی مشورہ جو گزشتگان کو تھا، سستے بازاروں والا ٹھیلا سجانے کے بجائے حکومت عام بازاروں میں قیمتیں کنٹرول کرے اور اس امر کو یقینی بنائے کہ رسد و طلب کے درمیان فرق نہ آئے۔جب منڈی کی نبض پر ہاتھ ہو گا تو قیمتیں بھی نہیں بڑھ پائیں گی۔ورنہ سبسڈی سے حکومتی خزانے پر جو بوجھ پڑتا ہے یہی حکومتیں ازاں بعد اس حکومتی نقصان کو عوام کی جیبوں سے بہ طرزِ دگر پورا کر لیتی ہیں اور عوام اپنے اپنے ممدوح کی تصاویر تلے شہادت کے تمنائی بنے اختلافِ رائے والوں پر فتوے تھوکتے رہتے ہیں۔محسن نقوی نے خوب کہا اور میں نے وہی کِیا،
یاروں کی خامشی کا بھرم کھولنا پڑا
اتنا سکوت تھا کہ مجھے بولنا پڑا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں