چار دیواری۔ حسن رضا چنگیزی

ان چاروں کا تعلق غریب گھرانوں سے تھا۔  ان میں سے تین سبزی فروش تھے جو ہزارہ قبرستان کے ایک کونے میں ٹھیلے لگاکر سبزیاں فروخت کرتے تھے۔ ان کے ٹھیلے آس پاس تھے اس لیے ان کی آپس میں کافی جان پہچان ہوگئی تھی۔ وہ تینوں روز  پو پھٹنے سے پہلے گھر سے نکلتے اور کوئی گاڑی کرایے پر لے کر شہر کے دوسرے کونے میں واقع سبزی منڈی چلے جاتے۔ وہاں سے سبزیاں خرید کر اور انہیں گاڑی میں لاد کر وہ دوبارہ گھروں کو لوٹ آتے تو گھر کی خواتین ان سبزیوں کو دھونے اور ریڑھیوں پر سجانے میں ان کی مدد کرتیں۔ یہ مرحلہ طے پاتا تو وہ اپنے ٹھیلے دھکیلتے ہوئے ہزارہ قبرستان کے اس حصے میں آ کھڑے ہوتے جہاں ان جیسے دیگر غریب ٹھیلے والوں نے بانسوں اور پلاسٹک کی بوریوں کی مدد سے اپنے لیے عارضی سائبان بنا رکھے ہیں۔

پہلی نظر میں یہ جگہ کسی پسماندہ علاقے میں بنے ایک بازار کی طرح لگتی ہے جہاں عموماً  عورتیں ٹھیلے والوں سے بھاؤ تاؤ کرتی نظر آتی ہیں۔ عقب میں بنیادی صحت مرکز کی یک منزلہ سرکاری عمارت ہے جہاں دوپہر تک ان غریب مریضوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے جو پرائیویٹ ڈاکٹروں سے علاج کی سکت نہیں رکھتے۔ سامنے ہزارہ قبرستان ہے جہاں بے ہنگم انداز میں ہزاروں کی تعداد میں کچی پکی قبریں بنی ہوئی ہیں۔ قبرستان کے بیچوں بیچ ایک پکی سڑک ہے جس کے کناروں پر صنوبر اور توت کے درخت لگے ہیں۔ سڑک کے دونوں اطراف جنگلے لگا کر دو مقامات کو چار دیواریوں کی شکل دی گئی ہیں جہاں “شہداء” دفن ہیں۔ ان “شہداء” میں مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے اور جوان سبھی شامل ہیں۔ قبروں پر رنگ برنگے علم لہراتے رہتے ہیں جبکہ کتبوں کے علاوہ سڑک کنارے لگے درختوں پر چار دیواری میں دفن مقتولوں کی زندگی سے بھرپور تصویریں آویزاں ہیں۔ قبرستان میں دن بھر لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے جن میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی ہوتی ہے۔

مونگ پھلی بیچنے والا ایک درمیانی عمر کا آدمی تھا جو قبرستان کے داخلی رستے پر بنے پل پر  ریڑھی لگا کر اپنے اور بچوں کے لیے روزی روٹی کماتاتھا۔ وہ مہینے میں عموماً  ایک یا دو بار ہی منڈی جاتا جہاں سے وہ کچی مونگ پھلیوں کی دو یا تین بوریاں ساتھ لے آتا جو کئی دنوں کے لیے کافی ہوتیں۔ وہ روز مونگ پھلیوں کی ایک مخصوص مقدار اپنی ریڑھی پر ڈال کر گھر سے نکلتا اور ریڑھی دھکیلتے ہوئے پل پر آ کھڑا ہوتا۔ یہاں پہنچ کر وہ ریڑھی پر رکھا چولہا جلاتا پھر اس پر ریت اور تیل سے بھری ایک چھوٹی کڑاہی رکھ کر اس میں کچی مونگ پھلیاں بھوننے لگتا۔ اس کے گاہک عموماً  وہ لوگ ہوتے جو قبرستان میں اپنے پیاروں کی قبر وں پر فاتحہ پڑھنے جاتے تو اس سے تھوڑی بہت مونگ پھلی بھی خرید لیتے۔ شام کے وقت گاہکوں کی تعداد کچھ بڑھ جاتی جو گھروں کو لوٹتے وقت اس سے گرم گرم مونگ پھلیوں کی خریداری کرتے۔

ان چاروں کا تعلق سماج کے اس طبقے سے تھا جس کے ہاں بچت کا تصور محال ہوتا ہے۔ ان کا سارا اثاثہ ان کے گھروں کی کچی دیواریں اور ٹپکتی چھتیں ہوتی ہیں بشرطیکہ گھر ان کے اپنے ہوں، جبکہ ساری جمع پونجی کچھ پرانے کپڑے اور کچھ سستے برتن! البتہ ان کی مشکلات لا محدود ہوتی ہیں۔ بچوں کی کتابوں کا بندوبست ہوجائے تو ان کے کپڑوں کی فکر لاحق رہتی ہے۔ گھر کا کوئی فرد بیمار پڑ جائے تو پہلے گھریلو ٹوٹکوں سے ہی کام چلایا جاتا ہے ورنہ سرکاری ہسپتال کے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ ان کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ صبح وہ گھر سے سبزی منڈی کے لیے نکلتے تو ان کی بحفاظت واپسی تک گھر کی عورتوں کی جانیں سولیوں پر لٹکی رہتیں۔

اس دن وہ سبزی منڈی کے لیے روانہ ہوئے تو مونگ پھلی والا بھی ان کے ساتھ تھا۔ وہ باتیں کرتے ہوئے بڑی سڑک تک پہنچے جہاں ایک مزدا گاڑی ان کی منتظر تھی۔ وہ چاروں گاڑی میں بیٹھ گئے تو ڈرائیور نے گاڑی کے پردے گرادیے  تاکہ انہیں باہر سے کوئی نہ دیکھ پائے۔ یہ ایک  احتیاطی تدبیر تھی۔ ڈرائیور  کو شہر کے حالات کا بخوبی اندازہ تھا۔ وہ ایک خوش اخلاق اور محنتی شخص تھا جو دور کہیں کسی دوسرے محلے میں رہتا تھا۔ انہیں اس طرح باہمی سفر کرتے ہوئے کئی ہفتے ہو چکے تھے اس لیے وہ آپس میں کافی حد تک گھل مل گئے تھے۔

“میرے دوست اور  رشتہ دار مجھے منع کرتے ہیں کہ میں تم لوگوں کو اس طرح روز لانا اور لے جانا چھوڑ دوں۔ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ تم لوگوں کی وجہ سے میری جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے”، ایک دن ڈرائیور نے انہیں ہنستے ہوئے بتایا تھا۔

“پھر تم نے کیا جواب دیا؟”  کسی نے پوچھاتھا۔

میں نے بتادیا کہ موت تو برحق ہے جو کبھی بھی اور کسی بھی جگہ آسکتی ہے۔ میرا ایکسیڈنٹ ہو سکتا ہے، مجھ پر دل کا دورہ پڑ سکتا ہے یا کوئی اندھی گولی کہیں سے آکر میرے سر میں پیوست ہو سکتی ہے۔ موت نے کبھی نہ کبھی تو آنی ہے۔ اسے آنے سے بھلا کون روک سکتا ہے۔  پھر ہم تو مزدور لوگ ہیں۔ موت کے ڈر سے مزدوری نہیں کریں گے تو بھوک سے مر جائیں گے؟ ” ڈرائیور نے داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا۔

گاڑی اپنی مخصوص رفتار سے آگےبڑھ رہی تھی۔ وہ چاروں گاڑی کے پچھلے حصے میں بیٹھے آپس میں گپ شپ میں مصروف تھے ۔ موسم آج بھی کافی خوشگوار تھا۔ گرمیوں کا زور ٹوٹ چکا تھا جبکہ سردیوں کی آمد میں ابھی کئی ہفتے باقی تھے۔ گاڑی ہچکولے کھاتی اور مختلف موڑ مڑتی مسلسل اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ وہ ابھی شہر کے اندر ہی ہوں گے۔ پھر اچانک جیسے بھونچال آگیا۔ ان پر باہر سے شدید فائرنگ ہونے لگی۔ ان کی گاڑی دائیں بائیں ڈولنے لگی۔ انہیں یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ ان پر حملہ ہوگیا ہے۔ لیکن اس سے قبل کہ وہ بچنے کی کوئی تدبیر کرتے، ان کے بدن گولیوں سے چھلنی ہوگئے۔ گاڑی بھی لڑکھڑاتی ہوئی آگے جا کر رک گئی کیونکہ گولیوں نے ڈرائیور کا سینہ بھی چھلنی کر دیا تھا۔

دہشت گردی کا یہ واقعہ پانچ لوگوں کی جانیں لے گیا جن میں ڈرائیور کے علاوہ  دو سبزی فروش، ایک مونگ پھلیاں بیچنے والا اور ایک راہگیر شامل تھا۔ جبکہ ایک سبزی فروش اب بھی ہسپتال کے بستر پر پڑا اپنے زخموں کے مندمل ہونے کا انتطار کر رہا ہے۔ زخموں کی بدولت اسے بولنے میں مشکل ہورہی ہے لیکن اس کی آنکھوں میں ڈھیروں سوالات ہیں۔ وہ اشاروں کی مدد سے کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہے لیکن کہہ نہیں پاتا۔ اسے شاید یہ جاننے کی خواہش ہے کہ آخر یہ سی پیک کس بلا کا نام ہے جس کو ناکام بنانے کے لیے اس کے غریب دوستوں کی جان لی گئی؟ یاشاید وہ یہ جاننا چاہتا ہو کہ کلبھوشن یادو جیل میں رہ کر بھی ان کے دوستوں کو کیسے قتل کروا سکتا ہے؟ یا ہوسکتا ہے کہ اسے سی پیک کے بارےمیں کچھ بھی معلوم نہ ہو نہ ہی اس نے کلبھوشن کے بارے میں کچھ سن رکھا ہواور وہ اپنے بیوی بچوں کے بارے میں سوچ رہا ہو۔ شاید وہ یہ سوچ رہاہو کہ اگر اس واقعے میں وہ مر جاتا تو اس کے بیوی بچوں کا کیا ہوتا!۔

Advertisements
julia rana solicitors

کیا معلوم اس کے ذہن میں یہ سوال ہو کہ لوگ تو فاتحہ پڑھ کر اور تسلی کے دو بول بول کر اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے ہوں گے لیکن خدا جانے  مرنے والوں کے گھروں میں کھانے کو کچھ ہوگا بھی یا نہیں! یا شاید وہ یہ سوچ رہاہو گا کہ ہسپتال کے اخراجات کہاں سے ادا کرے؟ اس کے چہرے پر لکھے سوالات کو پڑھنا آسان نہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ جب بھی کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہے الفاظ اس کے گلے میں اٹک جاتے ہیں اور وہ خالی نظروں سے لوگوں کے چہرے تکنے لگتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اس کے غریب دوست اب بھی ہزارہ قبرسان میں ہی ہوں گے بس فرق اتنا ہوگا کہ اب ان کے ٹھیلے خالی پڑے ہوں گے  جب کہ وہ خود تمام مشکلات سے چھٹکارہ پاکر قبرستان کے بیچ بنی چاردیواری میں کفن اوڑھ کر سو رہے ہوں گے!۔

Facebook Comments

حسن رضا چنگیزی
بلوچستان سے تعلق رکھنے والا ایک بلاگر جنہیں سیاسی اور سماجی موضوعات سے متعلق لکھنے میں دلچسپی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply