خاک زار۔۔امجد اسلام امجد

یہ غالباً اسّی کی دہائی کا آخری زمانہ تھا جب کسی مشاعرے میں کبیروالا سے آئے ہوئے ایک دُبلے پتلے لڑکے کو دعوت کلام دی گئی، اتفاق سے اُس وقت کچھ بھرتی کے شوقیہ شاعر پے در پے اسٹیج پر آتے چلے جارہے تھے، سو شعرا اور سامعین پر ایک قدرے لاتعلقی کی سی فضا طاری تھی، اس نوجوان کے طرزِ خرام ، انداز اور آواز کے اعتماد نے تو اپنی طرف متوجہ کیا ہی تھا لیکن جونہی اس نے اپنی غزل شروع کی گویا پورا ماحول ہی بدلنا شروع ہوگیا اورمجھ سمیت تقریباً تمام اسٹیج نشینوں نے سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ یہ تھا عزیزی قمر رضا شہزاد جس سے میرا پہلا تعارف ہواجو آج اس واقعہ کے تقریباً تیس برس بعد ایک گہری محبت اور رفاقت کے رشتے میں ڈھل گیا ہے۔

1994میں اس کا پہلا شعری مجموعہ ’’پیاس بھرا مشکیزہ‘‘شایع ہوا اور اس کا شمار باقاعدہ طور پر اپنی نسل کے نمایندہ شاعروں میں ہونے لگا جس کا اعتراف خود میں نے اس صورت میں کیا کہ جب 2004 میں میرا نظموں کا انتخاب ’’محبت ایسا دریا ہے‘‘ کے نام سے شایع ہوا جس کا انتساب نئی نسل کے آٹھ نمایندہ شعرا کے نام کیا گیا تھا تو اُس فہرست میں اس کا نام نامی بھی شامل تھا، ممکن ہے اس نے کچھ نظمیں بھی لکھی ہوں لیکن حال ہی میں چھپنے والے اپنے کلیات ’’خاک زار‘‘میں سوائے ایک دیباچہ نما نظم کے صرف غزلوں کو ہی جگہ دی گئی ہے، اس کلیات میں ’’پیاس بھرا مشکیزہ‘‘ کے بعد چھپنے والے اُس کے پانچوں شعری مجموعے ’’ہارا ہوا عشق‘‘، ’’یاد دہانی‘‘، ’’خامشی‘‘، ’’بارگاہ‘‘ اور ’’شش جہات‘‘ بھی شامل ہیں اور تقریباً ہر مجموعے میں اوسطاً 70 غزلیں شامل ہیں۔

میں نے ان 400 کے قریب غزلوں کو ایک بار پھر سے اور تسلسل سے پڑھا ہے اور مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ دورِ حاضر کے بہت ہی کم غزل گو شاعر ، معیار، تسلسل اور شعری امکانات کے فروغ کے حوالے سے قمررضا شہزاد کی صف میں کھڑے کیے جاسکتے ہیں ۔ اُس کی 95% غزلیں چند مخصوص بحروں اور پانچ سے لے کر سات شعروں کے درمیان سفر کر تی نظر آتی ہیں، وہ نئی نئی اور قدرے مشکل ردیفوں کو اپنے مخصوص طرزِ ادا میں اس طرح سے سموتا چلا جاتاہے کہ اُن پر ایک طرح کی برانڈنگ کا گمان گزرنے لگتا ہے کہ مضامین کے انتخاب اور انھیں بیان کرنے کے انداز میں ایک مخصوص انداز اور معیار کو برقرار رکھتے ہوئے وہ مانوس اور غیر مانوس کو بہت مہارت سے ہم آمیز کرتا چلا جاتا ہے۔
ابتدا میں بیدل حیدری کی براہ راست اور ظہور نظر اور اسلم انصاری کی بالواسطہ سرپرستی کے ساتھ ساتھ رضی الدین رضی ، شاکر حسین شاکر اور شیخ محمد افضل جیسے دوستوں کی صحبت نے اُس کے اُس مخصوص لہجے کو متعین کرنے میں بہت اہم حصہ ڈالا ہے جس کی وجہ سے آج اس کا شعر دُور سے پہچانا جاتا ہے۔ میں نے اُس کے ہر شعری مجموعے سے کچھ نمایندہ اشعار منتخب کرنے کی کوشش کی تھی مگر اَب اُن کی تعداد اس قدر زیادہ ہوگئی ہے کہ انھیں اس کالم تو کیا کسی باقاعدہ تنقیدی مضمون میں سمیٹنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔

لہجے، معیار اور مزاج کی موجودگی کے علاوہ آپ کو ان میں کچھ الفاظ بالخصوص لفظ ’’صاحب‘‘ کی تکرار بھی نظر آئے گی لیکن ہر جگہ وہ ان الفاظ کے کسی نئے شیڈ کا متلاشی بھی نظر آتا ہے، سو جدید اُردو غزل کے اس شاندار اور بہت اہم کلیات سے یہ چند نمونے دیکھیے اور اندازہ کیجیے کہ تفصیل کا مزا کیا اور کیسا ہوگا، ترتیب وار ہر شعری مجموعے سے چھ چھ اشعار لیے گئے ہیں تاکہ آپ تخلیقی فروغ کا مزا بھی لے سکیں۔

میں اپنی حراست میں دن گزارتا ہوں

مرے سوا کوئی زندان بھی نہیں میرا

کبھی اپنی ایک جھلک مجھے بھی نواز دے

کوئی فرق تیرے جمال میں نہیں آئے گا

مجھے ایک ایسی دنیا بھی بسانی ہے جہاں شہزادؔ

کسی کو بھی کسی کی حکمرانی میں نہیں رہنا

محبت تیرا میرا مسئلہ ہے

زمانے کو شریکِ کار مت کر

مجھے خبر ہے خموش سویا ہُوا یہ دریا

کہیں کسی دوسرے کنارے میں جاگتا ہے

مرے قُرب و جوار میں کوئی نہیں ، میرے لیے قطار میں کوئی نہیں

میں خیر کا لمحہ ہوکر بھی ، ہر دستِ سوال سے باہر ہُوں

………

ایک سے ہیں مجھے سب حاضرو غائب شہزادؔ

میں ترے عالمِ فانی سے الگ رہتا ہوں

پھر اس کے بعد ہمیں کچھ نہیں سنائی دیا

بس ایک بات گری تھی یہیں کہیں ، ہم سے

میرے کاندھوں پہ دھرا ہے کوئی ہارا ہُوا عشق

یہی گٹھڑی ہے جو مدت سے اُٹھائی ہوئی ہے

یہیں کہیں مری تنہائی بھی تو رہتی ہے

اب آگیا تو اُسی کا پتہ کیے جاؤں

جسم بھر سائے کے لیے شہزادؔ

چادرِ خاروخس بہت ہے مجھے

تری جانب بہاؤ  میں نہیں ہوں

میں پانی میں ہوں ناؤ  میں نہیں ہوں

………

میں ربِ نُور سے محوِ کلام ہوں سرشام

سو اے چراغِ دعا تو بھی درمیاں سے نکل

کوئی سچ پر چلے ، چلے نہ چلے

ہم نے تو راستہ بنا دیا ہے

میں اس جہان میں رہ کے بھی اس جہاں میں نہیں

کلام کرتے ہیں ہر وقت رفتگاں مجھ میں

زیادہ ہوتے نہیں میرے ماننے والے

میں سچ کی طرح یہاں اختیار ہوتا ہوں

مجھے نہ ماننے والے ضرور دیکھیں گے

کسی زمانہ آیندہ میں ظہور مرا

میں اپنے بعد بھی دنیا میں جگمگاتا رہوں

مرے چراغ کی لُو تا اَبد کریں صاحب

………

میں بھی پہنچ ہی جاتا خدا تک مگر مرے

رستے سے کائنات ہٹائی نہیں گئی

سب اپنی اپنی طرف کھنچنے میں تھے مصروف

مجھے کوئی بھی خدا کی طرف نہیں لایا

میں چھوڑ دوں گا حُجرہ دُنیا مگر یہاں

میری چٹائی، میرا پیالہ پڑا رہے

میں سرجھکائے کھڑا ہوں جہاں زمانوں سے

پتا کرو مری اپنی ہی بارگاہ نہ ہو

کیا گیا مجھے تقسیم اتنی عجلت میں

یہاں میں اپنے لیے بھی بچا نہیں صاحب

میرے قصے پہ مت یقین کرو

تم کوئی اور واقعہ لے آؤ

………

خلقِ خدا کو پیار مہیا کروں گا میں

جتنا بھی مجھ سے ہو سکا اتنا کروںگا میں

بلندیوں پہ نہ پستی میں ہُوں خدا حافظ

میں آپ اپنی ہی مستی میں ہوں خداحافظ

ہم ان کے ساتھ اسی خوف سے نہیں ملتے

یہ لوگ عشق کو کارِ زیاں بتائیں گے

یہ رفتگاں تو مرے ساتھ ہیں قیام پذیر

وہ کون لوگ تھے میں نے جنھیں روانہ کیا

کوئی انھیں بتائے کہ اُوپر خدا بھی ہے

جن کے لیے یہ خلقِ خدا مسئلہ نہیں

طلوع ہوتی ہوئی کہکشاں کا راستہ ہوں

مجھے پتہ ہے میں آئندگاں کا راستہ ہوں

………

دعا اُٹھائی فلک کی طرف نکل پڑا میں

خدا سے ملنے کو جی کررہا تھا چل پڑا میں

یہ پیڑ مجھ سے خفا ہیں تو ان کا حق بھی ہے

میں ان سے پُھول نہیں لکڑیاں اُتارتا ہوں

اسی لیے تو میں رہتا ہوں خود سے محوِ کلام

خدا کے سامنے جاکر مجھے جھجھک نہ رہے

اسی لیے تو یہ دریا ادھر نہیں آتا

اسے پتہ ہے میں پیاسوں کے خاندان سے ہُوں

وگرنہ کس پہ تری کائنات کُھل سکتی

یہ میں ہُوں جس نے کڑی سے کڑی ملائی ہے

حسابِ روز و شبِ کائنات کر مرے ساتھ

Advertisements
julia rana solicitors

اِدھر اُدھر کی نہ اے دوست بات کر مرے ساتھ!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply