درہم و دینار سے اگر بات کاغذ کے نوٹ تک پہنچ سکتی ہے تو فطری امر ہے کہ مستقبل قریب میں کاغذ کے نوٹ کی جگہ ڈیجیٹل کرنسی لے لے۔ ڈیجیٹل کرنسی کی ابتدائی شکلیں اپنے امکانات اور اپنی قباحتوں کے ساتھ ہمارے سامنے ہیں ۔سوال یہ کہ اس سارے عمل میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ ہمارے ہاںکسی سطح پر کوئی غوروفکر ہو رہا ہے یا ہم حسب معمول بین الاقوامی میں ایک کونے میں بیٹھے دہی کے ساتھ قلچہ کھا رہے ہیں کہ ’’ سانوں کی‘‘، جو ہو گا دیکھا جائے گا؟ پاکستان میں کرنسی کے قوانین ا س زمانے کے ہیں جس زمانے میں انٹر نیٹ اور ای میل جیسی چیزوں کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔جسے ہم Pakistan Coinage Act یعنی سکوں کا قانون کہتے ہیں ہ تو قیام پاکستان سے 41 سال پہلے کا ہے۔قیام پاکستان کے ایک سال بعد پاکستان کرنسی آرڈی ننس لایا گیا اور دو سال بعد ، 1950 میں ، پاکستان کرنسی ایکٹ متعارف کرایا گیاجس کے تحت حکومت کو روپے کا نوٹ چھاپنے کی اجازت دی گئی اور اسے لین دین کے لیے قانونی طریقہ قرار دیا گیا۔اس قانون کو 71 سال بیت چکے۔ دنیا اور دنیا کے مالیاتی نظام کی ہیئت بدل چکی ۔ سوال یہ کیا ہم نے بدلتے تقاضوں کے تحت کچھ قانون سازی کرنی ہے یا پارلیمان میں صرف ایک دوسرے کی تذلیل کر کے مراعات اور ٹی اے ڈی اے صول کر کے گھر چلے جانا ہے؟ قیام پاکستان کے ساتھ ہی ، 1947 میں ، پاکستان میں فارن ایکس چینچ ریگولیشن ایکٹ لایا گیا جس میں کرنسی کی تعریف کی گئی۔یہ تعریف اس دور کے لحاظ سے بہت جامع تھی اور تمام سکوں ، کرنسی نوٹ، بنک نوٹ ، پوسٹل نوٹ ،چیک ، منی آرڈر وغیرہ کو بھی کرنسی تصور کیا گیا تھا۔ کرنسی کی یہ تعریف بھی اس زمانے کی ہے جب انٹر نیٹ نہیں تھا اور ڈیجیٹلائزیشن کا کوئی تصور نہیں تھا۔اب وقت بدل گیا ہے تو کیا کرنسی کے نئے تصورات پر غور کرتے ہوئے اپنے قانون کو جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوئی ضرورت ہے یا دہی اور قلچہ ہمارے لیے کافی ہیں اور اپنے کونے میں مست ہیں؟ فارن ایکس چینج ایکٹ کی دفعہ 2 میں فارن ایکس چینج کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صرف وہ کرنسی فارن ایکسچینج کی صورت میں قانونی ہو گی جسے سٹیٹ بنک ایکٹ کے تحت جائز تصور کیا گیا ہو گا۔دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ سٹیٹ بنک ایکٹ بھی 1956 کا ہے جب ابھی ڈیجیٹل کرنسی کا کہیں وجود تک نہیں تھا۔اب 2021 ہے تو کیا یہ مناسب ہے کہ اس وقت کے معاشی سوالات کا جواب چھ سات دہائی پرانے قانون میں سے تلاش کیا جائے؟ ملک میں ایک عجیب سی کنفیوژن ہے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا ڈیجیٹل کرنسی پاکستان میں جائز اور قانونی چیز ہے تو خود حکومت کے پاس ابھی تک اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔مئی 2017میں حکومت نے ایک نوٹی فیکیشن میں قرار دیا کہ کرنسی کی ہر وہ شکل غیر قانونی ہو گی جسے سٹیٹ بنک آف پاکستان نے بطور کرنسی قبول نہ کیا ہو۔اس نوٹی فیکیشن کے تحت بٹ کوائن یا کوئی بھی ڈیجیٹل کرنسی ہمارے ہاں غیر قانونی قرار پاتی ہے۔لیکن تین سال بعد سندھ ہائی کورٹ میں سٹیٹ بنک نے اس کے بالکل برعکس موقف اپنا لیا کہ اس نے بٹ کوائن یا کسی ڈیجیٹل کرنسی کو غیر قانونی قرار نہیں دیا۔اس سوال کا جواب ابھی تک کسی کے پاس نہیں کہ کیا ڈیجیٹل کرنسی پاکستان میں جائز ہے یا ناجائز؟ اورجائزہے تو مالیاتی نظام میں کس حد تک قابل قبول ہے؟ دل چسپ بات یہ ہے کہ سٹیٹ بنک کہہ رہا ہے کہ اس نے ڈیجیٹل کرنسی کو ناجائز قرار نہیں دیا اور ایف آئی اے اسے الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کے تحت فراڈ تصور کر رہی ہے اور کرپٹو کرنسی کے کاروبار کرنے والوں کے خلاف تعزیرات پاکستان کے تحت فراڈ اور دھوکہ دہی کے مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔پشاور میں بھی گرفتاریاں ہوئیں اور کراچی میں بھی۔یہاں تک کہ ہائی کورٹ کو حکم جاری کرنا پڑا کہ ایف آئی اے لوگوں کو ہراساں کرنا بند کر دے۔یہ بات بھی اب سامنے آ چکی کہ خود ایف آئی اے کے لوگ کرپٹو کرنسی کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ دوسروں کے لیے البتہ یہ ناجائز ہے۔ ڈیجیٹل کرنسی کی بحث سماجی سطح پر زور پکڑ رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس کے بڑے تذکرے ہیں لیکن ہم نے کبھی نہیں سنا کہ پارلیمان میں اس پر کبھی گفتگو ہوئی ہو۔معزز اراکین پارلیمان غریب قوم کے خرچے پر آتے ہیں ، ایک دوسرے کو جلی کٹی سنا کر چلے جاتے ہیں۔ ترجیحات کا ہی نہیں ذوق اور صلاحیت کا بحران بھی نمایاں ہے۔اس جہان نو کے امکانات اور چلینجز پر اب تک جتنی بات ہوئی ہے سوشل میڈیا پر ہوئی ہے۔سیانوں کے نزدیک یہ سرے سے کوئی ایشو ہی نہیں۔ اس نئی کرنسی کے بارے میں دنیا کے رویے بھی دل چسپ ہیں۔ غیر ترقیاتی یافتہ اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں نسبتا پسماندہ ممالک کا رویہ ترقی یافتہ ممالک سے مختلف ہے۔جن ممالک نے اس پر پابندی لگا رکھی ہے ان میں الجیریا ، بولیویا ، مصر ، عراق ، نیپال، انڈونیشیا، کولمبیا ، بنگلہ دیش ، عمان ، قطر وغیرہ شامل ہیں۔دوسری جانب چین روس ، جاپان جیسے ممالک ہیں جو ڈیجیٹل کرنسی کو کسی نہ کسی درجے میں قبول کر چکے ہیں۔کاغذی کرنسی کا آغاز بھی چین سے ہوا پھر منگولوں نے اسے آگے بڑھایا ، اخباری اطلاعات کے مطابق اب چین نے باقاعدہ ریاستی سطح پر ڈیجیٹل کرنسی متعارف کرانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔جاپان پہلے ہی جزوی طور یہ کر چکا اور روس کے وینویلا کے ساتھ ’ پیٹرو‘ میں ہونے والے معاملات بھی ڈیجیٹل کرنسی ہی کی ایک صورت ہیں۔تھائی لینڈ بھی ڈیجیٹل کرنسی کے سنٹرل بنک کے قیام کا عندیہ دے چکا ہے۔یعنی کچھ ممالک آئین نو کی طرف بڑھ رہے ہیں اور کچھ طرز کہن پر اڑے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ ڈیجیٹل کرنسی کی طرف تو جانا ہی ہو گا۔ یہ نوشتہ دیوار ہے۔ کاغذ کی کرنسی کے خاتمے کی شروعات ہو چکیں۔جلد یا بدیر اسے ختم ہوناہے۔جو ممالک پہلے سے ہی اس چیلنج سے نبٹنے اور اس میں سے امکانات تلاش کرنے کے لیے تیار ہوں گے وہ سرخرو رہیں گے باقی پچھتائیں گے۔کرنسی کے اس نئے تصور میں قباحتوں کا ہونا فطری امر ہے۔ حکمت عملی سے انہیں دور کیا جا سکتا ہے۔ اس کرنسی کی موجودہ شکل پر اگر یہ اعتراض ہے کہ یہ کسی مرکزی نظام سے نہیں جڑی ہوئی تو یہ خامی ڈیجیٹل کرنسی کی نہیں ، یہ مرکزی نظاموں کی کوتاہی ہے۔ چین اور تھائی لینڈ ریاستی سطح پر ڈیجیٹل کرنسی متعارف کروا کر اسی کوتاہی کا ازالہ کرنے جا رہے ہیں۔ سوال وہی ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم نے پارلیمان میں صرف ایک دوسرے کو سینگوں پر لے کر داد شجاعت دینی ہے یا ہم مستقبل کے امکانات پر غور کر نے اور قانون سازی کا بھاری پتھر اٹھانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں؟ یہ ترجیحات کا بحران ہے یا صلاحیت کا؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں