صدر اور گورنر کی ضرورت؟

صدر اور گورنر کی ضرورت؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
برطانیہ کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی سربراہِ ریاست اور سربراہِ حکومت میں فرق رکھا ہے اور ایک جانب صدر ہوتا ہے تو دوسری طرف وزیر اعظم۔ اسی طرح صوبوں میں ایک جانب گورنر ہوتا ہے تو دوسری طرف وزیر اعلیٰ۔
سوال یہ ہے کہ جب صدر کوئی کام وزیر اعظم کے مشورے کے بغیر کر ہی نہیں سکتا، نہ ہی گورنر کوئی کام وزیر اعلیٰ کے مشورے کے بغیر کرسکتا ہے تو پھر یہ دو عہدے خواہ مخواہ کیوں رکھے گئے ہیں؟
زیادہ سے زیادہ صوبہ خیبر پختونخوا اور کسی حد تک صوبہ بلوچستان کے گورنروں کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے اپنے صوبوں کے قبائلی علاقوں کے لیے سربراہِ حکومت، یعنی انتظامی سربراہ بھی ہوتے ہیں، لیکن وہاں بھی وہ دراصل صدر کے نمائندے ہوتے ہیں اور صدر تو وزیراعظم کے مشورے کے بغیر کچھ کر ہی نہیں سکتا! Back to square one
برطانیہ کو بادشاہت سے جذباتی اور روایتی وابستگی ہے۔ اس لیے اگر وہ وزیراعظم کے ہوتے ہوئے بھی ملکہ کی موجودگی چاہتے ہیں تو سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن ہمیں خاموش صدر اور بیمار گورنر کی کیا ضرورت ہے؟ پاکستان میں صدر اور گورنر کے عہدوں کے لیے برطانوی آقاؤں کی "اندھی تقلید"کے سوا کوئی دلیل نہیں پائی نہیں جاتی!
امریکیوں نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی تو اگرچہ دستور بہت حد تک برطانوی طرز پر رہا لیکن اپنے معروضی حالات کی روشنی میں اسے تبدیل بھی کیا اور صدر کو سربراہِ ریاست اور سربراہِ حکومت دونوں کی پوزیشن دی۔ یہ ہوتی ہے اصل آزادی لیکن ہم غلام بدستور غلام رہے۔
کہ ہے مرور غلاموں کے روز و شب پہ حرام!

Facebook Comments

محمد مشتاق
قانون کے پروفیسر ہیں اور قانون اسلامی میں دسترس رکھتے ہیں۔ آپ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے بطور پروفیسر وابستہ ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply