مہاراجہ ہری سنگھ کے لئے کرنے کے لئے ایک مشکل فیصلہ تھا۔ شاید، ان کی خواہش “ڈوگرستان” بنانے کی تھی جس میں جموں، کشمیر، کانگرا، مشرقی کاٹھوا شامل ہوں۔
کشمیر کے اہم سیاستدان شیخ عبداللہ کسی سے الحاق کے حق میں نہیں تھے لیکن کسی بھی اور چیز سے پہلے وہ ڈوگرہ راج سے نجات چاہتے تھے۔
اگست 1947 کے بعد ہری سنگھ کا رویہ مزید خراب ہوتا گیا۔ انڈین نواب اپنی راجدہانیاں قدیم طریقوں سے چلاتے رہے تھے۔ اختلاف اور سیاست کی اجازت کم ہی کسی کو تھی۔ برٹش حمایت نے ان کی حکومتوں کا ساتھ دیا تھا۔ انہیں جدید ریاست چلانے کا تجربہ نہیں تھا، سیاست کا تجربہ نہیں تھا، مشاورت کا تجربہ نہیں تھا۔ برٹش نے انہیں آزادی کی طالب کانگریس اور مسلم لیگ کے مقابلے میں وفادار علاقوں کے طور پر استعمال کیا تھا۔ اور یہ حکمران اپنے علاقوں میں مقبول نہیں تھے۔ ہری سنگھ نے نہرو کو جون 1946 میں گرفتار بھی کیا تھا تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ آپس میں اچھے دوست نہیں تھے۔
مہاراجہ کے دوسرے مسئلے بھی تھے۔ ان کی ریاست میں 77 فیصد مسلمان تھے۔ جموں و کشمیر کے جغرافیائی، ٹرانسپورٹ، سوشل اور کلچرل رابطے ان علاقوں سے تھے جو پاکستان کے پاس تھے۔ پاکستان کو جو دریا سیراب کرتے ہیں، وہ اس ریاست سے گزرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سردار پٹیل نے برٹش حکومت کو بتا دیا تھا کہ اگر مہاراجہ ہری سنگھ برٹش انخلا پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کر دیتے تو اگرچہ انڈیا کو مایوسی ہوتی لیکن اس پر اعتراض نہیں تھا۔ لداخ اور جموں سمیت تمام ریاست پاکستان کا حصہ بن جاتی۔
برٹش انخلا کے بعد اور مہاراجہ کے فیصلہ نہ کرنے کے بعد انڈین رویہ تبدیل ہو گیا۔ مہاراجہ کی مشکل کا ایک اور پہلو بھی تھا۔ مہاراجہ اپنی عوام سے کٹے ہوئے غیرمقبول راہنما تھے۔ سیاسی قیادت کو وقتاً فوقتاً جیل میں پھینکتے رہے تھے۔ خاص طور پر ان کا رویہ وادی کشمیر کے لوگوں کے ساتھ اس قدر برا تھا کہ 1929 میں ان کی اپنی بیوروکریسی سے افسران کے استعفے اس بنیاد پر دئے تھے کہ “ہم ایسی انتظامیہ کا حصہ نہیں رہ سکتے جہاں پر لوگوں سے گائے بکریوں کی طرح سلوک کیا جائے”۔ اور اس علاقے کے لوگ بھی ایک دوسرے سے بے حد مختلف تھے، جن کی خواہشات سے کم از کم مہاراجہ ناواقف تھے۔
عام تاثر یہ ہے کہ مسلمان پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے تھے اور غیرمسلمان انڈیا کے ساتھ۔ لیکن یہ بھی ٹھیک نہیں تھا۔ جموں و کشمیر کے وزیرِاعظم 11 اگست 1947 تک رام چندرا کاک تھے۔ انہیں مہاراجہ نے برطرف کیا تھا۔ یہ پاکستان سے الحاق کے حامی تھے۔ ایک اور مقبول سیاسی راہنما پریم ناتھ بزاز تھے، یہ بھی پروپاکستان تھے۔ جبکہ دوسری طرف، کشمیری مسلمانوں میں سے ایسی تعداد کی کمی نہیں تھی جو انڈیا کو پاکستان پر ترجیح دیتے تھے۔ کشمیر کے مقبول سیاسی راہنما شیخ عبداللہ نیشل کانفرنس کے لیڈر تھے، انڈین نیشنل کانگریس کے اتحادی تھے اور پروپاکستان مسلم کانفرنس کے سخت حریف تھے۔ شیخ عبداللہ کی دوستی نہرو سے تھی اور مسلم لیگ کے راہنماوٗں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ سوشلزم کی طرف جھکاوٗ رکھنے والے شیخ عبداللہ کا کہنا تھا کہ “پاکستان پر فیوڈل غالب رہیں گے۔ ہمارا ایجنڈا اصلاحات کا ہے۔ جاگیرداری نظام ختم کرنے کا ہے”۔ ان کے لئے جواہر لال نہرو سے ذاتی تعلق، ان کا کشمیر سے تعلق اور جاگیرداری کے خاتمے کا ایجنڈا پرکشش تھا۔
دوسری طرف نہرو کی کشمیر سے دلچسپی ذاتی تھی۔ ان کے اجداد صدیوں سے کشمیر میں رہے تھے۔ نہرو نے بیگم شیخ عبداللہ کو جون 1947 میں کہا، “میرا کشمیر سے رشتہ کوئی نہیں توڑ سکتا۔ کشمیریوں کی بہبود میرے لئے پہلی ترجیح رہے گی”۔
نہرو کی ذاتی وابستگی کا مطلب یہ تھا کہ ان کی کشمیر کے بارے میں رائے حقیقت پسندی پر مبنی نہیں رہی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ نیشنل کانفرنس کی وادی کشمیر میں سپورٹ کا مطلب یہ ہے کہ وادی کے عوام کی اکثریت انڈیا کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ یہ غلط تاثر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہاراجہ ہری سنگھ کے لئے پاکستان سے الحاق ذاتی طور آذہبی وجوہات کی وجہ سے ناپسندیدہ تھا۔ جب جناح 1944 میں وادی کشمیر گئے تھے تو انہوں نے ہری سنگھ پر اس ضمن میں دباوٗ نہیں ڈالا تھا۔ غالباً، اس کی وجہ یہ ہو گی کہ ان کے خیال میں مہاراجہ کے لئے کوئی دوسرا قابلِ عمل فیصلہ نہیں تھا اور جناح ہری سنگھ کو “بلینک چیک” لکھنے پر تیار تھے۔ ان کے خیال میں ایسی کوئی وجہ نہیں تھی کہ ہری سنگھ انڈیا کی طرف توجہ دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہاراجہ کے لئے انڈیا سے الحاق بھی آسان نہیں تھا۔ نہرو سے ذاتی نفرت ایک وجہ تھی۔ نہرو بطور وزیرِاعظم قابلِ قبول نہیں تھے۔ فزیکلی بھی انڈیا سے الحاق دشوار تھا۔
شاید برٹش کے چھوڑ جانے کے بعد ان پر یہ حقیقت اجاگر ہوئی ہو کہ معاملات جوں کے توں نہیں رہ سکتے۔ ڈوگرا راج کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ انتخاب یا تو انڈیا ہے یا پھر پاکستان۔
(جاری ہے)
ساتھ لگی تصویر مہاراجہ ہری سنگھ کی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں