راہِ فرار۔۔عارف خٹک

آپ کو معلوم ہے  اللہ تعالیٰ  نے انسان کو کتنی قوت برداشت دی ہوئی ہے۔ انسان کے سامنے اس کے جوان بیٹے کا لاشہ   پڑا ہوتا ہے تو وہ بے بسی سے سوچنے لگتا ہے کہ کاش اس وقت بیٹے کے لاشے کی جگہ اس کا لاشہ ہوتا ۔ پھر بھی کپکپاتے ہاتھوں سے وہ اپنی اولاد کو دفن کردیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں شاید انسانی فطری قانون میں اس سے بڑی کوئی تکلیف ہو ہی نہیں سکتی۔ مگر دو دن کے بعد وہی باپ دوبارہ ایک نئی توانائی سے اٹھ کھڑا ہوکر دنیا سے نبرد آزما ہونے  لگتا ہے۔

نفسیات کی زبان میں پریشر یعنی دباؤ یا  سٹریس بہت ضروری ہوتا ہے کیونکہ ہلکا  سٹریس ہمیں مقابلے کیلئے تیار کرتا رہتا ہے مگر یہی پریشر جب معمول بن جائے تو تباہی لیکر آتا ہے۔ اللہ نے ہر انسان کو پریشر برداشت کرنے کی قوت دی ہوتی ہے جیسے باپ اولاد کو دفن کرنے کا پریشر برداشت کرلیتا ہے ایسے ہی انسان بھی ایک حد تک پریشر برداشت کرسکتا ہے مگر مسلسل اور غیر یقینی پریشر یا  سٹریس آپ کو تباہی سے ہمکنار کرسکتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پریشر سے کیسے بچا جائے؟۔

یاد رہیں کہ ہمیں مائیکرو  سٹریس (چھوٹے چھوٹے  سٹریس) بہت متاثر کرتے ہیں جو ہماری جھنجھلاہٹ کی  شروعات ہوتے ہیں۔ اس کیساتھ بدترین معاشی بدحالیوں سے پیدا کردہ مسائل جو بالآخر  ہماری خانگی زندگی تک تباہ کرجاتی ہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ  اللہ نے ان سب چیزوں سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی عطا کی ہے ؟۔ انسان قوانین فطرت کا عجیب و غریب مجموعہ ہے۔ ہر انسان کی شخصیت کا احاطہ اس کی قوت برداشت کے مطمع نظر ہوتا ہے۔ کسی کو جلدی غصہ  آجاتا ہے اور کوئی کوئی ڈھیٹ مٹی کے بنے ہوتے ہیں۔ جس کو جلد غصہ آتا ہے وہ دراصل کمزور شخصیت کا مالک ہوتا ہے اور جس کو غصہ بالکل نہیں آتا اس کی شخصیت غصے والے سے بھی گئی گزری ہوتی ہے لہذا اعتدال یہاں بھی قدرت کی طرف سے لازم کردیا گیا ہے۔ انسان کو قدرت نے ایک اور صلاحیت سے بھی نوازا ہے وہ ہے راہ فرار۔ راہ فرار جس کو ہر زمانے میں ایک کمتر نظر سے دیکھا گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ راہ فرار حقائق سے منہ موڑنے  کو ہی کہا جاتا ہے۔

مگر نفسیات کے  علوم میں راہ فرار کو مثبت جانا جاتا ہے۔ راہ فرار کی مختلف شکلیں ہیں۔ انسان جب بے بسی کی انتہاؤ ں پر پہنچ جاتا ہے تو وہ خود سے اور  آس پاس لوگوں سے لڑنے لگتا ہے۔ اب انسان اپنی شخصیت کے حساب سے فیصلہ کرتا ہے کہ راہ فرار کیسے حاصل کیا جائے۔ اگر وہ کمزور شخصیت اور راہ فرار کی  قوتِ  فیصلہ سے محروم ہو تو وہ پاگل پن یا نفسیاتی عوارض کا شکار ہوجاتا ہے اگر شخصیت مضبوط ہو تو وہ روحانیت میں پناہ لیکر مسائل سے راہ فرار حاصل کرکے مطمئن زندگی گزارنے کی سعی کرتا ہے نفسیات میں اس کو بہترین طریقہ انتخاب کہا گیا ہے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو روحانیت سے جڑ کر رہیں ذہنی دباؤ کم سے کم رہے  گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس پورے مضمون کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ آپ کو نفسیات کا مطالعہ کرواؤں بلکہ کہنے کا یہ مطلب ہے کہ میں جو اپنا  آپ جوکر بنا کر اپنے الفاظ سے آپ کو ہنسا رہا ہوں یہ دراصل خود کو سنبھالنے کی کوشش کررہا ہوں۔ میرا طریقہ راہ فرار یہی ہے کہ میں بھی شدید پریشر کا سامنا کافی عرصے سے کررہا ہوں میں  آپ کی طرح کمزور انسان ہوں۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply