کشمیر ۔ بلوچستان (22)۔۔وہاراامباکر

جب پاکستان بنا تو بلوچستان کے چار حصے تھے۔ پہلا حصہ برطانوی بلوچستان کہلاتا تھا۔ اس میں شمالی بلوچستان کے پختون علاقے اور چاغی تھا۔ دوسرا لیزڈ علاقے جن میں کوئٹہ، نوشکی اور نصیرآباد تھے۔ تیسرا گوادر کا علاقہ جو عمان کے پاس تھا۔ پھر نوابی ریاستیں جن میں قلات سب سے بڑی تھی اور انیس توپوں کا سلیوٹ ملتا تھا۔ (ہندوستان کی پانچ بڑی ریاستوں کے لئے اکیس توپوں کا سلیوٹ تھا۔ ان کے بعد انیس سلیوٹ والی ریاستیں تھیں)۔ تقسیمِ ہند کے بعد ان کا کیا ہونا تھا؟ 
برٹش بلوچستان کا معاملہ آسان تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ اور اس کے صدر قاضی عیسیٰ پختونوں میں بہت مقبول تھے۔ جولائی 1947 میں شاہی جرگے اور کوئٹہ میونسپلٹی نے پاکستان کے حق میں آسانی سے فیصلہ دے دیا۔
گوادر کے بارے میں کچھ کیا نہیں جا سکتا تھا۔ یہ ایک الگ ملک کا علاقہ تھا۔
قلات کا نظام فیوڈل تھا۔ قبائلی سردار اپنے قبیلوں پر حکومت کرتے تھے۔ خان آف قلات ان سب سرداروں کے سردار تھے۔ (ان کا لقب بیگلار بیگی تھا جس کا یہی مطلب تھا)۔ کس سردار کے اوپر خان کا کتنا زور تھا؟ یہ وقت کے ساتھ بدلتا رہا تھا۔
میر احمد یار خان 1933 میں خان آف قلات بنے تھے۔ کئی دوسرے حکمرانوں کی طرح انہوں نے بھی کوشش کی کہ ان کی شخصی حکمرانی برقرار رہے۔ سب سے پہلے انہوں نے یہ پوزیشن لینے کی کوشش کی کہ قلات برٹش انڈیا کا حصہ نہیں بلکہ اس کا معاملہ افغانستان یا نیپال کی طرح ہونا چاہیے۔ ماوٗنٹ بیٹن نے اس پوزیشن کو قبول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ یہ قانونی اعتبار سے غلط تھی۔
میر احمد یار خان کے آباء میں سے خان خداداد خان تھے جنہوں نے اپنی ریاست وائسرائے لارڈ لٹن کو پیش کی تھی۔ خان اس وقت مشکل میں تھے۔ انہوں نے 1863 میں اقتدار سنبھالا تھا۔ انہیں قبائلی سرداروں کی طرف سے بغاوت اور شورش کا سامنا رہا تھا۔ انہوں نے علاقے کی طاقتور قوت، برٹش، کے ساتھ معاہدہ کر لیا تھا۔ یہ 1875 میں مستونگ کا معاہدہ تھا جس سے کنفیڈریسی کی بنیاد بنی تھی۔ اس سے اگلے سال نیا اور تفصیلی معاہدہ ہو گیا۔ قلات اس کے بعد برٹش انڈیا کی نوابی ریاست بن گئی تھی۔ برٹش نے بلوچ سرداروں کی بغاوتیں اور بدامنی ختم کرنے میں مدد کی۔ 1877 دربار میں خان آف قلات کو پرنس کا درجہ دیا گیا۔ دیگر ایجنسیوں کی طرح یہاں پر بھی برٹش نے کئی سرداروں کے لئے وظیفہ مقرر کیا تھا۔ 1893 میں خداداد خان پر اپنے چیف اکاوٗنٹنٹ اور سٹاف کو قتل کروانے کا الزام لگا۔ اس سکینڈل کے نتیجے میں پندرہ اگست 1893 میں برٹش ایجنٹ جیمز براوٗن نے خان کو معزول کر دیا اور سرداری میر محمود خان کے پاس آ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک سوال یہ تھا کہ کوئٹہ، نصیر آباد اور نوشکی کی لیز کا کیا ہو گا۔ خان آف قلات کا دعوٰی تھا کہ یہ علاقہ برٹش کو دیا گیا تھا۔ اگر برٹش چلے جاتے ہیں تو ان کے جانے کے بعد یہ علاقے انہیں واپس مل جانے چاہییں۔ گیارہ اگست 1947 کو انہیں بتا دیا گیا کہ تمام برطانوی معاہدے یا تو انڈیا کو ملیں گے یا پاکستان کو، نہ کہ کسی بھی تیسرے کو۔ یہ والی لیز پاکستان کے پاس چلی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اگلا معاملہ ریاست کے الحاق کا تھا۔ پاکستان کی حکومت اور قلات کی حکومت کے درمیان ستمبر 1947 سے الحاق کے معاملے پر مذاکرات شروع ہو گئے۔
قلات کا اصرار تھا کہ آپس میں کوئی معاہدہ ہو۔ پاکستان کا اصرار تھا کہ زیادہ سے زیادہ الحاق کی دستاویز میں کچھ ردوبدل پر بات ہو سکتی ہے۔ اس پر پیشرفت نہیں ہو رہی تھی۔ جناح نے خان کو اکتوبر 1947 کو کراچی بلایا۔ دونوں کے ایک دوسرے سے ذاتی اور پرانے مراسم تھے۔ کسی وقت میں خان نے جناح کی، بطور وکیل، خدمات حاصل کی تھیں۔
میر احمد یار خان اور محمد علی جناح ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے لیکن معاملات آگے نہیں بڑھے۔ خان نے کہا کہ وہ قلات پارلیمان کا اجلاس بلائیں گے اور پھر فیصلہ کریں گے۔
قلات کے دارالامراء (اپر ہاوس) میں قبائلی سردار تھے۔ دارالعوام (لوئر ہاوس) میں عوامی نمائندے جن کی اکثریت قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی سے تھی جس کے سربراہ نوجوان غوث بخش بزنجو تھے۔ (اس پارلیمان کی حیثیت مشاورتی تھی۔ اصل طاقت خان کے پاس ہی تھی)۔
اپر ہاوٗس میں بات چیت اس پر رہی کہ سرداروں کی طاقت اور مرتبے کا کیا ہو گا۔ لوئر ہاوس میں قلات کے وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ نے الحاق کے حق میں رائے دی۔ بزنجو اس کے مخالف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم الگ تہذیب کے لوگ ہیں۔ پاکستان سے دوستی رکھ سکتے ہیں، لیکن اس کا حصہ نہیں بنیں گے”۔ دارالامرا میں کئی قبائلی سرداروں کو خدشہ تھا کہ پاکستان سے الحاق کے بعد ان کا کیا ہو گا۔ پارلیمان ڈیڈلاک کا شکار تھی۔
جناح نے خان کو فروری 1948 میں سبی میں سالانہ دربار پر ملنے کی دعوت دی۔ اس میں طے ہو گیا تھا کہ الحاق پر دستخط کر دئے جائیں گے لیکن آخری وقت میں خان نے خرابی طبیعت کی بنا پر آنے سے انکار کر دیا۔ جناح کی اپنی طبیعت اچھی نہیں تھی۔ وہ اس بارے میں سست روی سے ناخوش تھے۔ وہ خود کمزور تھے اور موت کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اس معاملے سے الگ ہو گئے اور اس کو وزارتِ خارجہ کے سپرد کر دیا۔
جب یہ معاملہ بیوروکریسی کے پاس آ گیا تو جلد حل کی طرف بڑھنے لگا۔ انہوں نے معاملے کی تہہ میں جا کر دیکھا کہ مسئلہ کہاں آ رہا ہے۔ دو بڑے مسائل تھے۔ خان کی خواہش سپیشل سٹیٹس کی تھی۔ دوسرا یہ کہ خان کے چھوٹے بھائی پرنس عبدالکریم الحاق کے خلاف تھے۔ تیسرا یہ کہ انہوں نے معلوم کیا کہ ایسا نہیں کہ قبائلی سرداروں کو کوئی اصولی اختلاف تھا بلکہ معاملہ ان کے سٹیٹس کا تھا۔ اگر یہ یقین دہانی کروا دی جائے کہ اسے نہیں چھیڑا جائے گا تو معاملہ حل ہو جائے گا۔ بیوروکریٹس نے ایک اور حربہ اپنانے کا پلان کیا۔
خاران اور لسبیلہ الگ نوابی ریاستیں تھیں لیکن بلوچ کنفیڈریسی کے حصے کے طور پر قلات کی باجگزار رہی تھیں۔ تاہم، یہ بڑی حد تک خودمختار تھیں۔ اگرچہ ان کے حکمرانوں نے پاکستان کے ساتھ الگ رابطے کی اور الحاق کی پیشکش کی تھی لیکن پاکستان تمام معاملے کو قلات کے ساتھ حل کرنے کا خواہشمند تھا۔
پاکستان نے 17 مارچ 1948 کو خاران اور لسبیلہ کے ساتھ ساتھ مکران کو بھی الگ ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا اور اس کے ساتھ ہی ان کے حکمرانوں نے خوشی خوشی پاکستان کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کر دئے۔
قلات کے لئے یہ بڑا دھچکا تھا۔ ان تین ریاستوں کے بعد قلات کا رقبہ نصف سے بھی کم رہ گیا تھا۔ اس پر شدید احتجاج کیا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے کہا کہ ہر ریاست کو اپنے علاقے کا فیصلہ لینے کا خود حق ہے۔ ان سرداروں نے یہ فیصلے خود ہی لئے ہیں۔
25 مارچ 1948 کو خان نے سرداروں کو اکٹھا کرنے کے لئے حکمتِ عملی طے کرنے کے لئے میٹنگ بلوائی لیکن بہت کم سرداروں نے اس میں شرکت کی۔
آل انڈیا ریڈیو نے 27 مارچ کو خبر لگائی کہ خان آف قلات نے بھارتی حکومت سے رابطہ کر کے ریاست کے بھارت سے الحاق کی پیشکش کی ہے لیکن جغرافیائی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے بھارتی حکومت نے معذرت کر لی ہے۔
یہ خبر سنتے ہی خان نے فوری طور پر کراچی کو پیغام بھیجا۔ “یہ صرف جھوٹا پراپیگنڈا ہے۔ میرا کبھی ایسا ارادہ نہیں رہا کہ انڈیا کے ساتھ الحاق کیا جائے۔ اس کو سنتے ساتھ ہی میرا پہلا ردِعمل یہ ہے کہ اس سب معاملے کو اب نمٹا دیا جائے۔ قلات اور پاکستان کے مسلمان بھائیوں کے درمیان کوئی غلط فہمی نہیں پیدا ہونے دی جائے گی۔ میں نے ستائیس مارچ کو رات نو بجے یہ جھوٹی خبر ریڈیو پر سنی ہے اور اسی کے ساتھ ہی میں اعلان کرتا ہوں کہ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ قلات کی ریاست پاکستان کا حصہ ہو گی”۔
(بعد میں انڈیا ریڈیو نے وضاحت کی کہ یہ خبر غلط تھی)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خان آف قلات کے بھائی پرنس عبدالکریم اس کے مخالف تھے۔ وہ مکران کے گورنر تھے۔ مکران کے نواب نے انہیں پاکستان سے الحاق کے بعد برطرف کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنے دوستوں اور حامیوں سمیت اس کے خلاف “بغاوت” کا فیصلہ کیا۔ وہ افغانستان چلے گئے اور اسے بیس بنا کر مسلح جدوجہد اور عسکری کارروائیاں شروع کر دی۔ اس میں کچھ خاص کامیابی نہ ہوئی اور 1950 تک یہ معاملہ نمٹ چکا تھا۔ پرنس عبدالکریم نے ہتھیار ڈال دئے تھے۔ انہیں بلوچ حمایت نہیں ملی تھی۔
قلات کا پاکستان سے الحاق طویل، پیچیدہ اور مشکل سیاسی عمل تھا۔ آخر میں اسے قانونی طور پر کیا گیا تھا اور قلات پاکستان کا حصہ بن گیا تھا۔
میر احمدیار خان کو پاکستان نے ان تمام ریاستوں کا سربراہ بنا دیا۔ وہ اس عہدے پر 1955 تک رہے جس کے بعد یہ ریاست تحلیل ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قلات جیسے مقابلتاً بہت آسان الحاق کے لئے بھی دشواری رہی۔ یہ ریاست خود مکمل طور پر پاکستان کے اندر تھی، چھوٹی تھی اور کم آبادی والی تھی۔ مسلمان اکثریت کی اور مسلمان سربراہ والی ریاست تھی۔ اس کے مقابلے میں کشمیر جیسی بڑی اور اہم ریاست جو پاکستان اور انڈیا، جو دونوں سے متصل تھی۔ آبادی کئی طرح کی تھی اور مہاراجہ فیصلہ نہیں کر رہے تھے۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ یہاں پر مسائل بھی بڑے ہی ہونے تھے۔

(جاری ہے)

نوٹ: آج کچھ “کہانیوں” میں پرنس عبدالکریم کو قوم پرست ہیرو کے طور پر دکھایا جاتا ہے اور جن کی اپنے بھائی کے فیصلے کے خلاف مسلح بغاوت کو روکنے کو اس طریقے سے دکھایا جاتا ہے کہ قلات کو ساتھ ملانے کے لئے بلوچستان پر فوج کشی کی گئی۔ تاریخ کو اس سے اتفاق نہیں ہے۔
کون کس وقت پاکستان سے الحاق کے حق میں رہا اور کون خلاف؟ یہ ایک غیراہم تفصیل ہے۔ ہر ایک اپنی رائے کا حق رکھتا ہے۔ بلوچستان ایک منفرد اور پیچیدہ جگہ ہے۔ اس کے کئی حصے ابھی تک ملک کے ساتھ ٹھیک طریقے سے نہیں یکجا ہوئے۔ آبادی بہت کم ہونے کی وجہ سے بنیادی سہولیات کی فراہمی آسان کام نہیں۔ خشک موسم اور زمین اس علاقے کی ڈویلپمنٹ کو مشکل بنا دیتی ہے۔ تاہم مشکل ہونا ایسا نہ کئے جانے کا اچھا جواز نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ اس کتاب سے
A Princely Affair: Accession and Integration of the Princely States of Pakistan, 1947-1955

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply