نسبت ہے مجھے شاہِ لولاک سے”عشق آتش”/اسماء مغل

کہتے ہیں زندگی ایک ہی بار ملتی ہے،بحیثیت مسلمان ہمارا یقین کامل ہے کہ انسان ایک بار پیدا ہوتا ہے،اور ایک ہی بار موت کا مزا چکھے گا،زندگی کے لمحے خشک ریت کے ذرے ہیں ،جو کب اور کیسے بند مٹھی سے پھسل رہے ہیں ،کوئی نہیں جانتا ،لیکن پھر بھی سب اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح کسی لمحے کو قید کرلیا جائے،ایسا لمحہ جو جادواں ہو۔جس میں انسان سب کچھ کھو دے لیکن کچھ ایسا پا لے جو متاعِ حیات ٹھہرے،

کائنات میں ہرذی روح کسی نہ کسی سے نسبت رکھتا ہے،لمحوں کو زندگی سے نسبت ہے،پھولوں کو کونٹوں سے،خوشی کو غم سے،ہنسی کو آنسوؤں سے،آسانی کو مشکل سے۔۔۔بعض اوقات  یہی نسبت انسان کو اَن جانی راہوں کا راہی بنا دیتی ہے،جبکہ بعض دلبر لمحے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ  جب انسان انہی لمحوں کی بدولت لذتِ آشنائی سے متعارف ہوتا ہے۔بس یہی وہ لمحہ جاوداں ہوتا ہے۔

بارش کے قطروں کو دھرتی سے نسبت ہے،یہی بارش ٹوٹے دل پر پھاہا بھی ہے،اور یہی بارش زخموں پر گرتا نمک بھی۔نسبت کے مفہوم بہت وسیع ہیں ،زندگی کی پُرپیچ گھاٹیوں پر سفر کرتے اگر نسبت کا ساتھ نہ ہو تو  منزل کا تعین کرپانا ناممکنات میں سے ہوگا۔قرآن کریم میں اللہ کریم اپنے نیک بندوں کی زبان سے یہ دعا کرواتے ہیں۔۔

“تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا ،ان لوگوں کا راستہ جن پر  تو نے انعام کیا ،نہ ان کا راستہ جن پر تیرا غضب ہوا،اور نہ ہی گمراہوں کا راستہ”(الفاتحہ)

یعنی اگر اللہ چاہے تو اپنے نیک بندوں کا راستہ ہمیں بتائے،اور ہم اس پر چل کر منزل پا لیں ،جان لیجئےزندگی آگہی کا لمحہ ہے،خبر لیجئے کہیں بے خبری میں تو بسر نہیں ہورہا؟۔۔۔

اللہ کریم نے انسانوں اور چیزوں کو نسبتیں عطا کی ہیں ،ایک خیر کی نسبت ہے،جو آپ زم زم میں ہے،صفا و مروہ اور کوہِ طورمیں ہے،طواف میں ہے،ایک نسبت وہ ہے جو لفظ کو محمد ﷺ سے ہے۔کہ جب نسبت ہوئی تو قرآن بن گئے۔وہ زمین مکہ و مدینہ بن گئی،وہ پہاڑ احد بن گیا،اور مقام جو قبلہ بن گیا۔

لےسانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام۔۔۔

بےادب کے نصیب میں یہ لذتِ آشنائی کہاں ،کہ ان کے بارے میں  خؤد قرآن کہتا ہے “اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کیا کرو اور نہ بلند آواز سے رسول سے بات کیا کرو جیسا کہ تم ایک دوسرے سے کیا کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو”(سورہ حجرات)

کائنات میں گونجتی آواز، زندگی کا سارا ردھم ،سر ساز،برکت ،نعمت ان الفاظ کی بدولت ہے۔۔۔کہ جو اللہ کریم خؤد بھی ہر دم ورد کرتے ہیں اور اس کے فرشتے بھی۔۔”ان اللہ و ملائکتہ یصلّون علی النبی یا ایھا الذین آمنوا صلّوا علیہ وسلّموا تسلیما”القرآن!)
“بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم پر درود و سلام بھیجتے ہیں،اے ایمان والو! تم بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم پر درود و سلام بھیجو”۔

“اللھمہ صلی علی محمد النبی الامی وعلی آلہ واصحابہ وبارک وسلم”

اس ہادیِ برحق کی نسبت دل کے بند کواڑ کھول کر ہدایت و نور سے منور کرتی ہے،قلب و جاں کا گداز عشق رسول ﷺ کی نسبت سے ہے،آپﷺ کے رہینِ منت ہے،یہ تڑپ انسان کو کبھی میسر نہ آتی گر آپﷺ نہ ہوتے،یہ عشق ہی کا کرشمہ ہے کہ انسان فرشتوں پر برتری پاگیا۔ اللہ جل شانہ نے اپنے  محبوب کے لیے پوری کائنات بلکہ  کتنے ہی جہان تخلیق کردیے،کہتے ہیں ایک دنیا نہیں  ہے،ایک جہان ہے،ایسے جانے اور کتنے جہان ہیں جو انسان کو معلوم ہی نہیں ،لیکن آقا ﷺ کی ذات مبارک ایسی ہے جو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجی گئی۔آپ ﷺ کو سب جانتے ہیں اور” حضؤرﷺ بھی سب جانتے ہیں” ۔۔۔

مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد!

شاہ عبدلاطیف بھٹائی آپ ﷺ کو اپنے ایمان کا مرکز ٹھہراتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔

’’اے چاند تو میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدمقابل ہے، میں تجھے چیلنج کرتا ہوں کہ تُو چودھویں رات کا جو چاہے سنگھار کرلے، ساری کائنات کا حُسن اپنے دامن میں سمیٹ لے تو پھر بھی میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک کی بھی برابری نہیں کرسکتا‘‘۔

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو

عجب چیز ہے لذتِ آشنائی

عشقِ مصطفیٰ ﷺ جس کا سرمایہ ہو اسے دنیا کا کوئی غم نہیں چھو سکتا،حیات عشقِ رسولﷺ کےدم سے فروزاں ہے۔۔

کاش میرے الفاظ بارگاہِ محبوب ﷺ میں  شرفِ قبولیت پا لیں ،مجھ سیاہ کار کی فریاد کو پذیرائی حاصل ہو۔۔۔ اگرچہ دنیا کے تمام درخیوں کی قلمیں بنا لی جائیں اور سمندوں کے پانی کی روشنائی بنا کر آپ کےاوصاف حمیدہ تحریر کیے جائیں تو  یقیناً وہ کم پڑجائیں گے،لیکن آپ کی تعریف ختم نہ ہوگی۔

یارسول اللہ ﷺ میری ذات پر آپﷺ کے احسانات کا شمار ناممکنات میں سے ہےمیرا شعور ،میری سوچ اس کا احاطہ ہی نہیں کرسکتی ،میری اوقات ہی نہیں ۔۔میرے ماں باپ آپ ﷺ پر سے قربان ۔

یا رسول اللہ آپ کا وجود برکت اور رحمت ہے،اور میں سیاہ کار ،گناہوں میں لتھڑی،آپ کی ایک نگاہِ کرم کی منتظر ۔ آپ کی ذات بابرکت کے وسیلے سے ہی اپنے رب کے حضؤر ہاتھ پھیلائے اس کی رحمت کی طلبگار ہوں ۔ ۔ میرے گناہ گرچہ  شمار میں نہیں لیکن آپ ﷺ کا دامنِ رحمت ان  سے لاکھوں گنا زیادہ وسیع ہے،یا نبیء برحق ﷺ آپ ہی میری تمام امیدوں کامرکز ہیں ،میرا یقین ہے آپﷺ کی نسبت سے مانگی دعا میرا مالک کبھی نہیں لوٹاتا۔

اس دنیا فانی میں دیکھا گیا ہے کہ محبوب جس شخص سے راضی ہو معشوق بھی اس سے الفت رکھنے لگتا ہے کہ یہ محبوب کی پسند ہے۔۔یا رسول اللہ ﷺ آپ اپنی کملی کا سایہ عطا کردیں گے آپ راضی ہوجائیں گے تو وہ رب ِ کائنات بھی راضی ہوجائے گا۔کہ بھلا محبوب کی بات بھی کوئی ٹالتا ہے۔۔اور محبوب بھی آپ ﷺسا !

یا رسول اللہ ﷺ آپ پر لاکھوں کروڑوں درود وسلام ،کائنات کا ذرہ ذرہ آپ پر درور و سلام بھیج رہا ہے،خود  اللہ رب العزت فرماتے ہیں۔۔”و ر فعنا لک ذکرک”اور ہم نے آپﷺ کا ذکر بلند کردیا،القرآن

صبح کاذب کےسنہرے ماتھے پر ،شام کی سرمگیں رنگت پر،شفق کی لالی پر،رات کی دبیز خاموشی پر،بارش کے شفاف قطروں پر، موسم کے چہروں پر،دھوپ کی تمازت پر،ہوا کے دوش پر،صحرا میں ریت کے ذروں پر،کھیتوں کی ہریالی پر،پھولوں کی شادابی پر،ابنِ آدم کے تخیل پر،کائنات کی پراسراریت کے پردے پر۔۔ہر جاء یہ پیغام  تحریرہے۔۔۔”و ر فعنا لک ذکرک”۔

Advertisements
julia rana solicitors

یا رسول اللہ ﷺ میں بھی آپ ﷺ کی امتی ہوں آپ سے نسبت رکھتی ہوں ، آپ کے کرم کی طلبگار ہوں ،کرم کیجئے،کرم کیجئے!

 

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”نسبت ہے مجھے شاہِ لولاک سے”عشق آتش”/اسماء مغل

  1. صبح کاذب کےسنہرے ماتھے پر ،شام کی سرمگیں رنگت پر،شفق کی لالی پر،رات کی دبیز خاموشی پر،بارش کے شفاف قطروں پر، موسم کے چہروں پر،دھوپ کی تمازت پر،ہوا کے دوش پر،صحرا میں ریت کے ذروں پر،کھیتوں کی ہریالی پر،پھولوں کی شادابی پر،ابنِ آدم کے تخیل پر،کائنات کی پراسراریت کے پردے پر۔۔ہر جاء یہ پیغام تحریرہے۔۔۔”و ر فعنا لک ذکرک”۔
    اس کے بعد کچھ کہنا میرے خیال میں توہین کے زمرے میں آتا ہے ۔۔۔ اللہ ہم پر بھی نعلین پاک کی خاک کے صدقے کرم فرمائے ۔۔۔۔

Leave a Reply