جوالہ مکھی۔۔پروفیسر رضوانہ انجم

جانتے ہو کہ عورت “جوالہ مکھی” کب بنتی ہے؟؟

عورت کا خمیر محبت سے اٹھایا گیا ہے۔پیدائش سے لیکر موت تک وہ مرد سے ہر رشتے میں محبت کرتی ہے۔چھوٹی سی عمر میں باپ کے عشق میں مبتلا ہوجاتی ہے۔انکی ہر عادت،ہر ادا سے پیار کرتی ہے۔وہ کیسے بولتے ہیں؟کیسے اٹھتے بیٹھتے ہیں؟ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھتے ہیں یا پاؤں پھیلا کر؟وہ کیسے مسکراتے ہیں؟کیسے گنگناتے ہیں؟کیسے شفقت سے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں؟کیسے پیار سے گلے لگاتے ہیں؟وہ انکے وجود کے سائے سے بھی محبت کرتی ہے انکے خوابوں سے بھی محبت کرتی ہے۔ساری زندگی کرتی رہتی ہے۔۔۔وہ نہ رہیں۔۔۔تو۔۔۔لوگوں کے ہجوم میں کوئی ان سے ملتا جلتا ۔ان کا عکس ڈھونڈتی رہتی ہے،پر محبت کرنا نہیں چھوڑتی۔

باپ کی محبت کے گھنے سائے کے نیچے بھائی کی چاہت کا ننھا سا بیج پھوٹتا ہے اور کچھ ہی وقت میں ہرا بھرا پیڑ بن جاتا ہے۔وہ بھیا کی بہنا تو ہوتی ہے۔چھوٹی ماں بھی بن جاتی ہے۔سلولائیڈ سے بنے گڈے کی طرح اسے گودی میں اٹھائے پھرتی ہے۔ممتا سے چومتی ہے،دل سے لگائے رکھتی ہے جب تک وہ اس سے بھی اونچا قد نکال کر ،گھر سے باہر نکل کر،اپنی چھوٹی ماں سے ہاتھ چھڑا کر مردوں کی دنیا میں گم نہیں ہوجاتا اور پھر پورا مرد بن کر اپنے حصے کی عورت کا پلو پکڑ کر اپنی دنیا میں مصروف نہیں ہوجاتا،لیکن چھوٹی ماں اسے نہ اپنی یادوں سے نکالتی ہے اور نہ دعاؤں سے۔۔کیونکہ خود ماں بننے سے بھی پہلے اس نے بھیا کے لئیے ممتا کو دل کے ہر valve میں خون کے ساتھ دوڑتا محسوس کیا ہوتا ہے۔

عورت کی تیسری محبت وہ مرد ہوتا ہے جسکی پسلی سے وہ پیدا ہوئی ہوتی ہے۔اس اَن دیکھے انجانے سے تو شاید وہ ازل سے محبت کرتی ہے۔اسکی منتظر ہوتی ہے،اسے کھوجتی رہتی ہے،اور جب وہ ملتا ہے تو وہ ذہن کے خزانے سے لیکر وجود کی پونجی تک۔۔۔سب کچھ اس پر لٹا کر خود اپنی مرضی سے۔۔۔خالی ہاتھ رہ جاتی ہے۔۔۔جیسے دریا اپنی مرضی سے سمندر میں گر کر شانت ہوجاتا ہے۔مکمل ہوجاتا ہے۔۔۔بغیر کسی رنج اور احساس زیاں کے،خود کو اسکے سپرد کر دیتی ہے۔

عورت بیٹے کی ماں بنتی ہے تو گویا ایک لمحے میں قارون کے خزانے کی مالک بن جاتی ہے۔۔۔کوہ نور ہیرا اسکی گود میں آ گرتا ہے۔اسکے نازک پیروں کے نیچے نجانے کب اللہ میاں جی کی پوری جنت پھیل جاتی ہے۔زندگی میں پہلی بار وہ پہلے سارے رشتوں کو بھول کر صرف اور صرف ماں بن جاتی ہے۔۔۔۔اود پھر ساری زندگی ماں ہی بنی رہتی ہے۔۔۔۔کچھ اور بننا بھی جاہے تو بن نہیں پاتی۔

حتیٰ کہ بیٹے کی زندگی میں وہ عورت آجاتی ہے جسے نہ ماں بھاتی ہے اور نہ اسکی ممتا۔۔وہ اسکا کوہ نور ہیرا چھین کر لے جاتی ہے اور ماں ناچاہتے ہوئے بھی لٹ جاتی ہے۔۔۔۔ہار جاتی ہے کیونکہ اسکا ہیرا تو خود چور کی جھولی میں جاگرتا ہے۔

پتہ ہے محبتوں سے اسقدر بھرپور اور سرشار عورت،

کچے دھان کے مہکتے ہوئے کھیتوں جیسی شاداب عورت،

مٹی کی طرح زندگی کو ہر رنگ میں جنم دینے والی عورت،کنوئیں کے ٹھنڈے پانی کے گھونٹوں جیسی عورت،پہاڑی چشمے کے جیسی الہڑ عورت،

جوالہ مکھی کب بنتی ہے؟کیوں بنتی ہے؟عورت سراپا احتجاج اور مجسم انتقام کب بنتی ہے؟

جب مرد کسی بھی رشتے اور تعلق میں اسکی محبت کا استحصال کرتا ہے۔اسکی عزت نفس کو مجروح کرتا ہے۔

اسے اپنی کمینگی،خود غرضی اور منافقت کی گرم سلاخوں سے داغتا ہے۔۔۔ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے پر پڑی پاکیزہ سفید برف جیسی اسکی محبت کو اپنے وجود اور خیالات کی غلاظت سے میلا کرکے من ہی من میں اپنی کامیابی پر قہقہے لگاتا ہے۔۔۔اسکی محبت کا شکار کر کے اسکی لاش پر پاؤں رکھ کر تصویر بنواتا ہے اور ساری دنیا میں اسکا اشتہار بانث کر شیخیاں بگھارتا ہے کہ۔۔۔

ہونہہ۔۔یہ تھی عورت اور یہ ہے اسکی محبت۔۔۔۔

تب عورت عورت نہیں رہتی۔۔جوالہ مکھی بن جاتی ہے۔

اسکا جلال۔۔اسکا قہر۔۔اسکی نفرت۔۔۔اسکی نفرت کی بھر پور طاقت گرم کھولتا ہوا لاوا بن کر اسکی ذات کے ہر مسام سے پھوٹ پڑتی ہے۔۔۔اور۔۔۔۔۔نفرتیں محبتوں سے کہیں زیادہ شدید اور طاقتور ہوتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جہاں یہ جوالہ مکھی پھٹتا ہے وہاں کچھ بھی باقی نہیں بچتا,کچھ بھی نہیں,صرف راکھ کے ڈھیر باقی بچتے ہیں,عورت بھی بھسم ہوجاتی ہے,اسکی محبت بھی اور مرد بھی۔

Facebook Comments