زوال کا دیو جب کسی قوم کے آنگن میں اترتا ہے تو سب سے پہلے ان کی ذہنی قوت سلب کر تا ہے، ذہنی پسماندگی جب قوموں کی شروع ہو جائے تو یہ دیو مستقل طور پر ان کے ہاں بسیرا کر لیتا ہے، حکماء و اطباء لاکھ تدبیریں کریں مگر نہ ذہنی پسماندگی دور ہوتی ہے اور نہ زوال کے دیو سے چھٹکارا ملتا ہے، کچھ دو برس اوپر کا عرصہ گزرا ہو گا جب درویش ساتھ والے گاؤں کی مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے گیا، تب کوشش یہی ہوتی تھی کہ امام صاحب کے خطبے کا کچھ حصہ ہر صورت سماعت کیا جائے تا کہ کچھ علم و حکمت ہمیں بھی حاصل ہو سکے، ہر بار مگر خواہش ثمر آور نہیں ہوتی، وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کی اور خطبہ سننے کے لیے پہلی صفوں میں بیٹھ گیا، ان امام صاحب پہ خدا رحم کرے، عجب فراست کے مالک تھے، فرمانے لگے کہ یونیورسٹیوں میں بہت زیادہ بے حیائی ہے، درویش انگشتِ بدنداں ہوا کہ،خدایا طالب علم تو میں بھی ایک یونیورسٹی کا ہوں مگر بے حیائی سے کبھی چشم چار نہیں ہوئے، حیرانگی و وارفتگی کے عالم میں امام صاحب کی بات سن کر ابھی داخل ہی ہوئے تھے کہ امام موصوف نے اپنا نقطہ واضح کیا، گویا ہوئے کہ لڑکیاں سروں پر دوپٹہ نہیں لیتیں، شٹل کاک برقعہ نہیں پہنتیں، ان دو جملوں میں انہوں نے بے حیائی کو کس خوبصورتی سے تعریف کیا تھا۔۔
مگر اس بات کو حقیقت سے کچھ تعلق نہیں، ہم ایسی بیسیوں لڑکیوں کو جانتے ہیں جو نقاب نہیں کرتیں مگر دین کے احکامات پر پرلے درجے کا عمل کرتی ہیں، نماز قائم کرتی ہیں، اور ہر وہ چیز جس کا اسلام ان سے مطالبہ کرتا ہے، اور یہ کہ پاکدامن بھی ایسی ہیں کہ خدا بھی ناز کرے، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا امین احسن اصلاحی اور جلیل القدر استاذ جاوید احمد غامدی اس بات کے قائل ہیں کہ عورت کے لیے چہرے، ہاتھ اور پیروں کا پردہ ضروری نہیں ہے، علما کی ایک کثیر تعداد اسی نقطہ نظر کی حامی ہے، اب ایسوں کا میں کیا کروں جو نقاب نہ پہننے والیوں کو بے حیا سمجھتے ہیں۔
اس ضمن میں جو رائی برابر کسر رہ گئی تھی وہ خانِ اعظم نے پوری کر دی ہے ( خانِ اعظم جو کہ چنگیز خاں کا لقب ہے، مگر درویش اس لقب کا اصلی حقدار عمران خان کو سمجھتا ہے، کیوں کہ چنگیز نے تو تلوار کے بل بوتے پر ایک دنیا فتح کی تھی مگر آپ باتوں اور واعظوں سے دنیا فتح کر رہے ہیں)، آغا شورش کاشمیری “ابوالکلام آزاد” میں راقم طراز ہیں ہیں کہ مولانا ابواکلام آزاد ایک موضوع پر گفتگو شروع کرتے تو گھنٹوں جاری رکھتے اور سامعین بھی سر دھنتے کہ علم و دانش کے موتی مولانا کے الفاظ سے کیسے بکھر رہے ہیں۔
ایک دفعہ مولانا نے جاپانی شربت پر بات شروع کی جو اڑھائی گھنٹے جاری رہی، آغا شورش کہتے ہیں کہ میں سوچنے لگا کہ خدایا اس شربت اتنی معلومات تو جاپانیوں کو بھی نہ ہو گی، جتنا علم اس شربت کے بارے میں مولانا اپنی بغل میں دابے پھرتے ہیں، کچھ ایسا ہی حال سید عطا اللہ شاہ بخاری کا بھی تھا، عشاء کے بعد خطاب شروع کرتے جو فجر تک جاری رہتا، بقول آغا شورش کہ لوگوں کے سروں پر پرندے بیٹھ جاتے تھے، یہ دونوں ہستیاں اگر آج عالمِ زیریں ہوتیں تو لاریب خان اعظم کے سامنے دوزانو ہو جاتیں، اور اس گمراہ خیال کو ہر صورت دفع کرتیں کہ چہار دانگِ عالم میں ان کی گفتگو کے چرچے ہیں، مولانا ابوالکلام آزاد الہلال و البلاغ سے اعلان کرتے کہ خانِ اعظم سے بڑا مقرر کوئی گزرا نہ گزرے گا، شاہ صاحب الاحرار کے پلیٹ فارم سے گویا ہوتے کہ اے لوگو!۔۔
میری خطابت تو خانِ اعظم کے سامنے ایسے ہے جیسے ہمالہ کے سامنے ایک چھوٹا سا پتھر۔۔
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی، خانِ اعظم کی مدح سرائی میں آج رطب اللسان نہ ہوتا تو کل کو مجرم ٹھہرتا، آج کی تحریر میں ان کا بیان پیش نظر ہے جس میں موصوف فرماتے ہیں کہ بے حیائی کی وجہ سے ریپ کے کیسز بڑھ رہے ہیں،دل و دماغ پر ایک کچوکا لگا کہ مبادا خانِ اعظم کے نزدیک بھی بے حیائی کی وہی تعریف نہ ہو جو وہ امام مسجد کر رہے تھے، معلوم نہیں ایسی بے تُکی باتیں، جو مافوق العقل ہوتی ہیں، لوگوں کے ذہن میں کیسے سما جاتی ہیں، اور لوگوں کی دیدہ دلیری بھی قابلِ رشک ہے کہ ایسی باتوں کو بیان کرنے سے ذرا بھی نہیں چونکتے، خانِ اعظم لگتا ہے کہ کچھ زیادہ ہی تصوف کی راہ کے سالک بن گئے ہیں۔
خان کی اس بات پر نہ جانے یاسر پیرازادہ اور وجاہت مسعود کیا کہیں گے، ذرا اعداد و شمار کی چھان بین کر لیجیئے گا کہ جو لوگ ریپ کے جرم کا رتکاب کرتے ہیں وہ کس حد تک بے حیائی سے متاثر ہو کر ریپ کرتے ہیں، اور یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک عورت کا چہرہ اگر نقاب سے ڈھکا ہوا نہیں ہے، یا اس کے سر پر دوپٹہ نہیں ہے، یا اس نے چست لباس پہنا ہے تو اس کا ریپ کر دیا جائے، ریپ کا جرم تو شاید اس معاشرے سے ختم ہو جائے مگر ذہنی پسماندگی کیسے دور ہو گی
Facebook Comments