• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ارطغرل، دی کراؤن اور پاکستانی جمہوریت۔۔محمد منیب خان

ارطغرل، دی کراؤن اور پاکستانی جمہوریت۔۔محمد منیب خان

ترکی کا بنایا گیا ڈرامہ سیریل ارطغرل پاکستان میں کھڑکی توڑ بزنس کر چکا ہے۔ حالیہ برسوں میں شاید ہی کسی ڈرامے کوپاکستان میں اس قدر شہرت نصیب ہوئی ہو۔ ڈرامے میں پیش کیے گئے کرداروں نے عوام میں نہ صرف مقبولیت حاصل کی بلکہ حیرت انگیز طور پہ لوگوں نے اس ڈرامے کو بڑی عقیدت کے ساتھ دیکھا۔ حتی کہ گذشتہ برس ماہ رمضان میں لوگوں نے اس کو کسی حد تک کار ثواب کی نیت سے بھی دیکھا۔ لوگوں کا ڈرامے اور ڈرامے کے فنکاروں سے عقیدت و محبت کا یہ عالم تھا کہ ان کے ملبوسات تکنقل کیے گئے۔ تلواروں اور خنجروں کے کھلونے اور ماڈل بازاروں میں بک رہے ہیں اور لوگ   ہاتھوں ہاتھ خرید رہے ہیں۔

تاریخ کبھی بھی میرا موضوع نہیں رہا، لہذا ارطغرل کی بطور ایک تاریخی شخصیت احاطہ کرنے کا نہ تو میرا ارادہ ہے اور نہ ہی قابلیت۔ البتہ انٹرنیٹ پہ سرسری سی تحقیق کے بعد بھی یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ اس ڈرامے کے مرکزی کردار ارطغرل بارے تاریخ میں بہت ہی محدود معلومات موجود ہیں۔ معروف تفصیل کے مطابق ارطغرل کے وجود بارے میں سب سے ٹھوس  ثبوت خلافت عثمانیہ کےپہلے حکمران عثمان کے دور کا ایک سکہ ہے جس کے اوپر عثمان بن ارطغرل لکھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ارطغرل کے بارے میں بہت ہی محدود قسم کی معلومات میسر ہیں، حتی کہ ارطغرل کا مزار بھی کئی سو سال تک نامعلوم اور شکستہ رہا ہے اور انیسویں صدی میں عبدالحمید دوم نے اس کو از سر نو تعمیر کروایا۔ ڈرامے کا مرکزی خیال تاریخ اور فکشن پہ بنیاد کرتا ہے۔ ادب سے تعلق رکھنے والےصاحبان علم جانتے ہیں تاریخی فکشن کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن وہ تاریخ پہ حوالہ نہیں بن سکتا۔ اس کے باجود ارطغرل پاکستانمیں نہ صرف دیکھا گیا بلکہ عقیدت و احترام سے دیکھا گیا۔

ارطغرل ڈرامے کی مقبولیت محض ڈرامے کی حد تک ہوتی تو اور بات تھی، لیکن اس کا عزت و احترام اس قدر وسیع ہو گیا کہ چند روزقبل 23 مارچ کے سلسلے میں اسلام آباد میں ہونے والی پریڈ میں ارطغرل کی خصوصی موسیقی بجائی گئی۔ چونکہ ارطغرل کی عقیدت چار سو بکھر چکی تھی لہذا اس موسیقی کے حلال یا حرام ہونے پہ کوئی بحث نظر سے نہیں گزری۔ خیر اب چونکہ ہم نےدوسرے ملکوں کے تاریخی ڈرامے دکھانے کا رواج شروع کر ہی دیا ہے تو میری صاحبان اقتدار سے درخواست ہو گی کہ کم و بیش سوسال تک برصغیر پاک و ہند پہ حکمرانی کرنے والے تاج برطانیہ پہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے واقعات پہ بنائے گئے ڈرامے “The Crown” کو بھی پاکستان میں دیکھایا جائے۔ اگر مکمل ڈرامہ کسی وجہ سے نہیں دیکھایا جا سکتا تو صرف اس کے تیسرے سیز ن کی پانچویں قسط پاکستان کے سرکاری ٹی وی پہ نہ صرف نشر کی جائے بلکہ ممکن ہو تو نصاب میں بھی شامل کر دی جائے۔

قارئین مضمون میں اس مقام پہ پہنچ کر سوچ رہے ہوں گے کہ ارطغرل سے بات شروع کر کے The Crown تک پہنچا دی، کہاں کی بات کہاں ملا دی۔ لیکن پڑھنے والوں کے لیے بات واضح کرنے کے لیے میں The Crown کے تیسرے سیزن کی پانچویں قسط کی روداد سناتاہوں۔ اس روداد کو سنانے سے پہلے اتنا کہنا از حد ضروری ہے، کہ ہمارے ملک میں گذشتہ ستر سال سے ہر چار چھ برس کے بعدجمہوریت کا پودا جڑ سے اکھیڑ کر دیکھنے والے بھی سوال کرتے ہیں کہ سیاستدانوں نے ملک کے لیے کیا کیا۔ دوسری طرف ستر سالکی ساری کوتاہیاں بھی محض سیاستدانون کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہیں۔ لیکن اس بات کو خال خال ہی موضوع بنایا جاتا ہے کہ ملک کو نقصان پہنچانے والے سیاستدان کس کی دست شفقت کے سائے میں پنپتے رہے۔ اور ملک جب جب نازک دور سے گزرا پارلیمان کو کیا اختیارات دیے گئے۔ اس قسط میں دیکھایا ہے کہ اگر جمہوریت کو مضبوط کیا جائےتو وہ بدترین دور سے بھی ملک کو نکال لیتی ہے۔ نظام کو وقتی چمک کی کشش سے نہیں بلکہ دیرپا منصوبوں سے مضبوط کیا جاتا ہے۔

The Crown دیکھنے سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ برطانیہ کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا سے رہا ہے جیسے کہ پاکستان کو، چرچل کے صحت کے مسائل کی وجہ سے حکومت چھوڑنے کے بعد سے برطانیہ کے مسائل میں اضافہ ہوا۔ برطانیہ کو شدیدمعاشی کساد بازاری کا سامنا بھی کرنا پڑا، کان کنوں اور ورکز کی ہڑتالیں بھی ہوتی رہیں۔ اس کے علاوہ بھی برطانیہ کو اندرونیاور بیرونی کئی محاذوں پہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن برطانیہ اس سب سے نکلتا رہا۔ اسی طرح جب 1968 میں وزیراعظم ہیرالڈولسن کی حکومت کو شدید اندرونی اور بیرونی مشکلات کا سامنا تھا جس میں سے سب سے بڑھ کر برطانیہ کی معاشی بدحالی کاخدشہ تھا پاؤنڈ کی قدر گرائی گئی تھی اس وقت بینک آف انگلینڈ کے ڈائریکٹر اور ایک اخبار کے ایڈیٹر سیسل کنگ نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ایک ملاقات میں وزیراعظم ولسن کی حکومت کے خلاف ماورائے آئین اقدامات کی ترغیب دی۔ سیسل کنگ کی ماؤنٹ بیٹن کےساتھ اس ملاقات میں چیف سائینٹفک ایڈوائزر سولےزیکربرگ بھی شامل تھے۔ اس ترغیب کے پیچھے یہ عنصر بھی کار فرما تھا کہ محض تین برس قبل حکومت نے ماؤنٹ بیٹن کو چیف آف ڈیفنس کے عہدے سے ہٹا دیا۔ جبکہ ماؤنٹ بیٹن براہ راست شاہی خاندان کاحصہ تھے۔ وہ پرنس فلپ کے انکل تھے اور فلپ انکی اپنے باپ کی طرح عزت کرتا تھا۔ لہذا ایسی شخصیت کو عہدے سے ہٹائے جانےکے چند سال بعد اس کے غصے کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی۔

اس کے بعد ڈرامے میں دیکھایا جاتا ہے کہ ایک طرف تو ماونٹ بیٹن خود ہی کسی بھی غیر آئینی اقدام کو مسترد کر چکے ہوتے ہیں البتہ پھر بھی جس وقت یہ اطلاع ملکہ کو پہنچتی ہے ملکہ فوراً ماونٹ بیٹن کو اپنے محل بلاتی ہے اور خوب سخت سست سنا کررخصت کرتی ہے۔ ممکن ہے اس کہانی میں کچھ فکشن بھی شامل ہو البتہ The Crown کو شائع کرنے والی ایپلیکیشننیٹ فلیکساس ڈرامے کے شروع میں فرضی کرداروں یا واقعات کا کوئی ڈسکلیمر نہیں دیتی۔

لہذا میرا ماننا ہے کہ The Crown میں دکھائے گئے واقعات کو تاریخی طور پہ سچ مانتے ہوئے پاکستان میں اردو ڈبنگ کے ساتھ نشرکیا جائے۔ تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ بظاہر ملکہ برطانیہ کے ہوتے ہوئے بھی دراصل یہ برطانوی پارلیمان ہے جس نے برطانیہ کو برطانیہ بنایا۔ یہ پارلیمان ہی ہے جو امریکہ کی سپر پاور کا ضامن بنا ہوا ہے۔ جس دن ان ملکوں نے جمہوریت کو تلف کر دیا یہ بھی ہمارےجیسے حالات کا سامنا کر رہے ہوں گے اور جس روز ہم نے اپنی جمہوریت کو پھلنے پھولنے دیا اس کے چند دہائیوں بعد ہی ہم دنیا کےسامنے ابھر آئیں گے۔ آپ ارطغرل کی موسیقی سنیں چاہے ملک بھر کے سکولوں کی اسمبلیوں میں بجا دیں لیکن ملک آئین اور قانون کیپاسداری اور جمہور کے فیصلوں کو تسلیم کرنے سے ہی آگے جاتے ہیں۔

آخر میں جو حبیب جالب کی حسرت تھی وہی میری بھی حسرت سمجھ لیجیے۔

کبھی جمہوریت یہاں آئے

Advertisements
julia rana solicitors london

یہی جالب ہماری حسرت ہے

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply