ایران چین معاہدہ کے تضمنات۔۔طاہر علی خا ن

ایران اور چین نے 27 مارچ کو اقتصادی اور تزویراتی سرمایہ کاری و تعاون کے جس منصوبے پر دستخط کیے ہیں وہ اس خطے اور مستقبل میں بڑی تبدیلیوں کا نقیب دکھائی دے رہا ہے۔

چین نے ساتھ ہی مغربی ایشیا کے مختلف ممالک میں بھی معاشی سرمایہ کاری کے منصوبے شروع کرکے خود کو یہاں اقتصادی ترقی و خوشحالی کےلیے ناگزیر بنادیا ہے اور جلد وہ اس خطے میں امریکہ سے زیادہ اثر ورسوخ کا حامل ملک بن جائے گا۔

چین اور ایران دونوں امریکہ اور مغربی ممالک کے رویے سے ناخوش ہیں اور اس مشترکہ نفرت اور سیاسی مفاد کی بنیاد پر کےلیے ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں۔ اب اس معاہدہ کے ذریعے ان کے تعلقات میں مالی مفادات بھی شامل ہوگئے ہیں جن سے ان کے باہمی تعلقات اور مضبوط  ہو جائیں گے۔

منصوبے کی تفصیلات چین یا ایران نے رسمی طور پر افشا نہیں کیں۔ اس پر بات چیت 2016 سے جاری تھی اور پچھلے سال امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے کہا تھا کہ یہ معاہدہ اٹھارہ صفحات پر مشتمل مسودے پر مبنی ہے۔

منصوبے کے تحت چین اگلے پچیس برسوں میں ایران میں چار سو ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرے گا جبکہ ایران چین کو رعایتی نرخوں پر اور مسلسل گیس اور تیل فراہم کرتا رہے گا۔

ایرانی وزرات خارجہ کے بقول یہ ایک مکمل نقشۂ  راہ ہے جبکہ چین کے مطابق یہ دونوں ملکوں کے درمیان مستقل تزویراتی تعاون کا منصوبہ  ہے۔

سمجھوتے کے تحت چین ایران میں ٹیکنالوجی، مواصلات، تنصیبات، تیز رفتار ریل، بندرگاہوں، آبپاشی، بجلی کی پیداوار اور تیل وگیس کے شعبوں میں سیکڑوں منصوبوں میں سرمایہ لگائے گا۔ فائیو جی ٹیکنالوجی کا ٹھیکہ سویڈن کی کمپنی ایریکسن کے پاس تھا اور اب چین کی ہو وائی کمپنی یہ کام کرے گی۔ دونوں ملک ایک مشترکہ بینک بھی بنائیں گے جو مالی مسائل کے شکار ایران کی مالیاتی ضرورتیں پورے کرے گا۔

ایران اس معاہدے کے بعد شنگھائ تعاون تنظیم کا رکن بھی بن جائے گا۔ ایران چین سے اسلحہ خریدے گا اور دونوں کے درمیان فوجی تعاون، تربیت اور معلومات کا تبادلہ بھی ہوگا۔

چین کا یہ منصوبہ اُس کے آٹھ کھرب ڈالر کے بی آر آئی منصوبوں کا حصہ ہے جن میں پاک چین معاشی راہداری کا منصوبہ یعنی سی پیک بھی شامل ہے۔ اندازہ ہے کہ مستقبل میں اس منصوبے کی کل سرمایہ کاری ایک ہزار ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔

یہ معاہدہ ایران کا کسی بڑے ملک کے ساتھ پہلا طویل مدتی سمجھوتہ ہے۔ 2001ء میں ایران روس کے مابین بھی جوہری توانائی اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعاون کا معاہدہ ہوا تھا مگر وہ دس سال کےلیے تھا جس میں دو بار پانچ سال کی توسیع ہوئی ۔

2018 میں ایران پر عائد امریکی پابندیوں اور پچھلے سال آنے والی کرونا وبا کی وجہ سے ایران کی معیشت کو اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا۔

پابندیوں سے پہلے ایران کے زرمبادلہ کے ذخائر 121.6 بلین ڈالر تھے جو 2019 میں 12.7 بلین ڈالرز اور 2020 میں 8.8 بلین ڈالرز پر آگئے۔

چین نے نہ صرف امریکہ سے پابندیاں اٹھانے کا کہا ہے بلکہ ایران سے یہ معاہدہ کرکے اس کی معیشت کو بحران سے نکالنے میں مدد دی ہے۔

چین و ایران کی باہمی تجارت 2014ء میں تقریباً 52 بلین ڈالر تھی مگر پھر ایران کے خلاف امریکی پابندیوں اور عالمی منڈی میں تیل کی ارزانی کی وجہ سے یہ حجم کم ہو گیا۔ آج کل اس کا حجم تقریباً 20 بلین ڈالر ہے جو اب کافی بڑھ جائے گا۔

چین کو آئندہ کئ برسوں میں رعایتی نرخوں پر گیس اور تیل ملے گا۔ تیل کی مسلسل یقینی فراہمی کے بابت دوسرے عرب ممالک پر اس کا انحصار کم یا ختم ہوجائے گا۔ چین ایران سے آج کل  روزانہ تین لاکھ بیرل تیل درآمد کرتا ہے اب یہ مقدار بڑھ جائے گی۔

ایران میں سڑکوں، ریل پٹڑیوں اور بندرگاہوں وغیرہ کی تعمیر کی وجہ سے چین کی بڑی پیداواری صلاحیت والی سیمنٹ، لوہے اور سٹیل کی صنعتوں کےلیے ایک بڑا مارکیٹ دستیاب ہوجائے گا۔ ڈالر کے مقابلے میں چین کی اپنی اور دنیا کی دیگر کرنسیوں کے ذریعے کاروبار ہوگا۔

پاکستان کو اس معاہدے سے  فائدہ  ہوگا۔ بعض لوگ اس معاہدہ کو سی پیک کا متبادل اور حریف گردانتے ہیں اور کہتے ہیں پاکستان کو چین کی غلط فہمیاں دور کرنی چاہیئں۔

ہوا یوں کہ چین کے وزیر خارجہ نے جب کہا کہ “ایران دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کا تعین آزادانہ طور پر کرتا ہے اور وہ ان ممالک کی طرح نہیں جو ایک فون کال پر اپنی پوزیشن بدل لیتے ہیں” تو اسے پاکستان کو اشارہ سمجھا گیا۔ مگر دراصل چینی وزیر خارجہ کا اشارہ بھارت کی طرف تھا جس نے ایران کو یقین دہانیوں کے باوجود امریکی دباؤ پر انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی میں ایران کے خلاف ووٹ دے دیا۔

چنانچہ صحیح بات یہ ہے کہ ایران چین سمجھوتہ سی پیک کا حریف نہیں بلکہ اس میں مزید وسعت اور تیزی یقینی بنائے گا کیونکہ دونوں کا ماخذ چین ہے۔

امکان ہے کہ عنقریب ترکی، آذربائجان، ایران اور پاکستان سب بی آر ائ میں منسلک ہو جائیں گے۔ یہ نقل وحمل میں انقلاب لے آئے گا۔ ایران کا تیل، جو اس وقت 13000 میل طے کرکے چین پہنچتا ہے پاکستان کے راستے ڈیڑھ ہزار میل کے سفر کے بعد پہنچے گا۔ اس سے پاکستان کو راہداری محصولات میں اربوں روپے حاصل ہوں گے۔

پھر چین اپنے معاشی مفاد کےلیے پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات اور تجارت کو فروغ دے گا اور ان کے باہمی مسائل حل کرنے میں بھی مدد دے گا۔ ایران بی آر آئی میں شامل ہوگا تو پاکستان کو بھی نہ صرف گیس اور تیل سستے نرخوں اور آسانی سے دستیاب ہوں گے بلکہ اس کے ساتھ اس کی موجودہ  چند سو ملین ڈالرز کی تجارت بھی بڑھ جائے گی۔ ایران پاکستان پائپ لائن کو بھی جلد مکمل کرنے کی کوشش کرے گا۔ نیز یہ معاہدہ گوادر بندرگاہ کی اہمیت اور استعمال بھی بڑھا دےگا اور دونوں ملکوں کے درمیان چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے پیدا ہونے والی غلط فہمیاں بھارتی خواہش کے برعکس ختم ہو جائیں گی۔

بھارت اور امریکہ کےلیے ایران چین معاہدہ پریشانی کا ذریعہ ہے۔ یہ معاہدہ 2050ء تک قابل عمل ہوگا اور اس پر عمل درآمد سے امکان ہے کہ امریکا اور بھارت دونوں کے مفادات متاثر ہوں گے، چینی معیشت تیزی سے ترقی کرنے لگے گی اور وہ جلد خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے قابل ہوجائے گا۔

امریکہ کی پابندیوں نے ایران کو چین اور روس کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اس معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ مغربی ایشیا میں نئے اتحادی بن رہے ہیں۔ پاکستان، ایران، وسطی ایشیا پر مشتمل راہداری اس خطے کی معاشی ترقی اور بہتری کا باعث بنے گی۔

2016ء میں افغانستان، ایران اور بھارت نے معاہدے پر دستخط کئے تھے جس کے تحت چاہ بہار سے زاہدان تک ریل کی پٹڑی بچھائی جانی تھی جس میں بڑا مالی حصہ بھارت کو فراہم کرنا تھا مگر ایران نے مبینہ طور پر بھارت کو چاہ بہار بندرگاہ، ریلوے اور گیس منصوبے سے ہٹا دیا ہے۔

ایران نے اس کی وجہ بظاہر یہ بتائ کہ بھارت درکار رقوم کا بندوبست نہ کرسکا لیکن وجہ اصل میں بھارت کی جانب سے ایران کے خلاف آئی  اے ای اے میں ووٹ دینا تھا۔ اب ایران نے خود ہی اس منصوبے کو مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور چین اس کی مدد کرے گا۔

یہ معاہدہ چین کو ایران میں 5000 سکیورٹی اور فوجی اہلکار تعینات کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔ معاہدے کے تحت ایران اور چین مشترکہ فوجی مشقیں بھی کریں گے، جنگی تحقیق بھی کریں گے اور مل کر اسلحہ بھی بنائیں گے۔ ایران اور چین انٹلی جنس میں بھی تعاون کریں گے۔

اس طرح خلیج فارس میں چین کو براہ راست دسترس حاصل ہوجائے گی اور اب جس طرح خلیج میں امریکی جہاز موجود ہیں جلد یہاں چین کے جہاز بحیرہ عرب میں مستقل طور پر موجود ہوں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

2008 میں چین کی عالمی سرمایہ کاری کا محض ایک فیصد مغربی ایشیا میں خرچ ہو رہا تھا۔ اب خطے کے تمام ممالک سعودی عرب، ایران، یو اے ای، ترکی، کویت، فلسطین اور اسرائیل وغیرہ میں اس کی سرمایہ کاری جاری ہے اور یہ خطے کا سب سے بڑا سرمایہ کار بن گیا ہے۔

Facebook Comments