کشمیر ۔ ڈوگرہ راج کو چیلنج (17)۔۔وہاراامباکر

برٹش ڈوگرہ مہاراجوں کے مضبوط حمایتی رہے لیکن درمیان میں مسائل بھی آتے رہے۔ 1889 سے 1905 تک مہاراجہ پرتاب سنگھ کو ایک طرف کر کے کونسل آف سٹیٹ نے ریاست کا نظام اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔
کشمیر میں 1877 سے 1879 تک بدترین قحط آیا جس نے وادی کشمیر کی ساٹھ فیصد آبادی کو ختم کر دیا۔ اگرچہ ان برسوں میں باقی برِصغیر میں بھی قحط پڑا تھا کیونکہ سالانہ مون سون میں بارش نہیں ہوئی تھی۔ لیکن یہاں پر اس قدر برے حالات کی وجہ مہاراجہ رنبیر سنگھ کا قانون تھا۔ اس کے مطابق کوئی بھی کسان اس وقت تک کٹائی نہیں کر سکتا تھا جب تک سرکاری اہلکار موجود نہ ہو۔ یہ اس لئے تھا تا کہ ٹیکس پورا اکٹھا ہو۔ ناقص انتظامیہ کی وجہ سے فصل کاٹنے میں تاخیر اور خزاں کی بارش نے فصل کو نقصان پہنچایا۔ رنبیر سنگھ کشمیریوں کو ناپسند کرنے کے بارے میں اپنے والد سے آگے تھے۔ یہاں سے ملنے والی ناقص انتظامیہ کی خبریں برٹش تک پہنچیں۔ 1857 کے واقعات کے بعد اچھی گورننس دینا برٹش کے لئے ترجیح تھی۔ ان خبروں نے توجہ کشمیری مہاراجہ کی حکمرانی کے انداز کی طرف کروا دی۔ 1885 میں رنبیر سنگھ کے بعد ہونے والے جانشنینی کے تنازعے کے وقت اقتدار کونسل کے سپرد کر دیا گیا۔ اس کے پانچ ممبران میں ایک برٹش تھا، دو بیوروکریٹ تھے اور دو پرتاب سنگھ کے بھائی تھے۔ 1891 میں برٹش کا تبصرہ اس پر یہ تھا، “کشمیر میں بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ ہم اس میں پوری طرح سے مداخلت کر رہے ہیں۔ یہاں پر اصلاحات شمالی انڈیا کے لئے اچھے نتائج کا باعث بنیں گی”۔
مقامی نوابوں کے کاموں میں “مداخلت” برٹش حکومت کے لئے بیسویں صدی کی ابتدا تک معمول رہا تھا۔ لیکن پھر جنگِ عظیم اول آ گئی۔ اس وقت مہاراجہ نے برٹش کی بھرپور حمایت کی۔ جنگ کے بعد آزادی کی تحریک برِصغیر میں زور پکڑ رہی تھی۔ اس وقت مقامی نوابوں کو چھیڑنا برٹش کے مفاد میں نہیں تھا۔ پرتاب سنگھ کو سولہ سال کے بعد اپنے تقریباً تمام اختیارات واپس مل گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرتاب سنگھ کی اولاد نہیں تھی۔ ان کے جانشین ان کے بھتیجے ہری سنگھ بنے جو کشمیر کی فوج کے کمانڈر انچیف تھے۔ اگرچہ پرتاب کو ہری سنگھ بالکل پسند نہیں تھے لیکن برٹش نے جانشین بدلنے کی اجازت نہیں دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپریل 1927 میں مہاراجہ ہری سنگھ نے قانون بنایا جس میں ریاست کے شہری کی تعریف کی گئی تھی۔ اس میں کسی غیرشہری کو اس ریاست میں کام کرنے اور جائیداد خریدنے کے حق سے محروم کر دیا گیا تھا۔ صرف شہریوں کو ریاست میں قانونی طور پر رہنے کا حق تھا۔ غیرشہری اجازت نامے کے ساتھ عارضی طور پر رہ سکتے تھے۔ یہ قانون آئندہ آنے والے واقعات کے لئے اہم رہا۔
اہم کشمیری راہنماوٗں نے 1924 میں سرینگر آنے والے وائسرائے کو کشمیریوں کی حالتِ زار کے بارے میں عرضداشت پیش کی تھی۔ مہاراجہ کا ردِ عمل درشت تھا۔ ان لوگوں کو جیل میں ڈال دیا گیا یا جلاوطن کر دیا گیا۔ یہ بغاوت دبا دی گئی۔ لیکن 13 جولائی 1931 کو کشمیر میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ اس کی وجہ ایک پولیس والے کی طرف سے قرآن کی مبینہ بے حرمتی تھی۔ سرینگر، بارہمولا، شوپیاں اور سوپور میں ہونے والے ان مظاہروں کو کشمیری ریاست نے اس کو آہنی ہاتھ سے نمٹا۔ اس کے لئے برٹش فوج سے مدد طلب کی گئی۔ یہ کشمیری تاریخ کی ہونے والی سب سے بڑی بغاوت تھی۔
قرآن کی بے حرمتی کے واقعے سے شروع ہونے والی حکومت مخالف تحریک نے ایک نوجوان کو نمایاں کر دیا، جو اس تحریک میں پیش پیش تھے۔ یہ شیخ محمد عبداللہ تھے جو بعد میں شیرِ کشمیر کہلائے۔
(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: ساتھ لگی تصویر 1895 میں کھینچی گئی۔ اس میں ڈوگرہ فوجی کشمیری خواتین پر نظر رکھے ہوئے ہے جو مہاراجہ کے کھیتوں میں بیگار کا کام کر رہی ہیں۔ یہ تصویر سری نگر کے قریب کے علاقے پامپور میں کھینچی گئی اور اس وقت برٹش لائبریری کا حصہ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply