سو کا نوٹ ۔۔عنبر عابر

تیرہ سالہ اس قبائلی لڑکے کو آج صبح سے بازار جانے کی طلب ہو رہی تھی اس لئے اس نے اپنی ماں سے سو روپے مانگے جو بوڑھی ماں نے یہ کہہ کر اسے دے دیے کہ کوئی کھانے کی چیز لینا ،فضول مت لگانا۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ لڑکا خوشی خوشی بازار کی طرف جا رہا تھا کہ چند بندوقوں والوں نے اسے روک لیا۔لڑکا اگرچہ خوفزدہ ہوگیا تھا لیکن وہ یہ سوچ کر خود کو تسلی دے رہا تھا کہ میری جیب میں فقط سو روپے ہیں اس لئے یہ مایوس ہو کر مجھے چھوڑ دینگے لیکن یہ اس کی غلط فہمی تھی۔سو روپے بہت کم تھے اس لئے اسے نہیں چھوڑا گیا۔

چار دن گویا سولی پر لٹکتے گزر گئے تھے اور بوڑھی ماں اپنے بیٹے کا انتظار کرتے کرتے تھک گئی تھی۔وہ سوچ رہی تھی کہ سو روپے اتنی بڑی رقم تو نہیں جسے میرا بیٹا خرچ کرنے میں اتنی دیر لگا رہا ہے۔وہ بندوقوں والوں کے پاس گئی اور اپنے بیٹے کے بارے میں دریافت کرنے لگی لیکن وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔بوڑھی ماں نے اعلان کیا کہ کوئی انسان اس کے بیٹے کے بارے میں خیر خبر دے گا تو وہ اسے اپنے ہاتھوں سے ہار پہنائی گی۔اگرچہ اسے یقین تھا کہ انسان ہی اس کے بیٹے کی خبر چھپا رہے ہیں اس لئے اس کا اعلان بے سود ہے لیکن ماں تھی اس لئے خود کو روک نہ سکی۔۔

پھر ایک دن گاؤں میں شور اٹھا۔ایک کتے نے چار لاشیں دریافت کی تھی۔کتا نادان تھا اور اسے اتنی تمیز نہیں تھی کہ انسانوں کی چھپائی گئی چیزیں برآمد نہیں کیا کرتے ورنہ شور مچ جاتا ہے۔۔شور مچ گیا تھا اور لاشوں پر نوحے پڑھے جانے لگے تھے۔

بوڑھی ماں کو اپنے بیٹے کی جیب سے مڑا تڑا سو کا نوٹ ملا۔۔نوٹ خون آلود تھا۔نوٹ کی لالی میں ماں کے آنسوؤں کی نمکینی بھی گھل گئی اور یوں اس کی قیمت دنیا کی ہر کرنسی سے بالاتر  ہو گئی۔

یہی وجہ تھی کہ جب وہ قریبی دکان پر جا کر اس خون آلود نوٹ کے بدلے ہار خریدنے لگی تو دکاندار نے نم آنکھوں کے ساتھ اس کے سامنے ہاروں کا ڈھیر لگا دیا۔دکاندار اس نوٹ کی قیمت جانتا تھا اس لئے اس نے اس نوٹ کو ایک محفوظ جگہ رکھ دیا تاکہ اگر کبھی اسے بھی ڈھیر سارے ہاروں کی ضرورت پڑے تو اس قیمتی نوٹ کو کام میں لا سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بوڑھی ماں گھر آئی اور اس نے وہ ڈھیر سارے ہار اس کتے کے گلے میں ڈال دیے جس نے اس کے بیٹے کی لاش دریافت کی تھی!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply