گزشتہ چند سال سے اسکاٹش نیشنل پارٹی کی اندرونی سیاست میں جو ہلچل مچی ہوئی تھی، سابق فرسٹ منسٹر الیکس سالمنڈ اور موجودہ فرسٹ منسٹرنکولا سٹرجن جو کبھی انتہائی قریبی ساتھی تھے،نیرنگی سیاست کے باعث دونوں کے درمیان سیاسی خانہ جنگی کی کیفیت ہے۔ نکولا سٹرجن کے سر پر استعفیٰ کی جو تلوار لٹکی ہوئی تھی اب ہٹ گئی ہے، ڈرامے کاڈراپ سین ہوگیا ہے اور اب وہ اپنی سیاسی زندگی کے سب سے بڑے بحران سے نکلنے میں کامیاب ہوگئی ہیں جس کے بعد وہ اب پوری توجہ6مئی کو ہونے والے اسکاٹش پارلیمنٹ کے الیکشن پر دے سکیں گی، الیکس سالمنڈ2014ء میں برطانیہ سے آزادی کے ریفرنڈم میں45کے مقابلے میں55فیصد سے ہارنے کے بعد حکومت سے مستعفی ہوگئے تھے۔ وہ ایک نہایت اعلیٰ پائے کے سیاستدان ہیں جن کی شخصیت کے باعث نہ صرف اسکاٹش پارٹی بلکہ آزادی کی تحریک بھی بڑی تیزی سے آگے بڑھی، ان کی دست راز نکولا سٹرجن نے بھی سربراہ بننے کے بعد پارٹی ذمہ داریوں کو بڑے اچھے طریقے سے نبھایا، مقبولیت کا نیا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے اب وہ تیسری بار حکومت بنانے کی تیاری کررہی ہیں، دونوں قریبی دوستوں اور ساتھیوں کے درمیان تلخ تعلقات اس وقت پیدا ہونا شروع ہوئے جب دنیا بھر میں’’ME Too‘‘ تحریک چلی جس میں ایسی خواتین سامنے آئیں جو پس پردہ جنسی ہراسگی نشانہ بنتی رہی تھیں، نکولا سٹرجن کی حکومت نے بھی ایسے قوانین بنائیںجن کے تحت سابق وزرا کو بھی اس نئے قانون کے تحت چارج کیا جاسکتا تھا، الیکس سالمنڈ کا خیال تھا کہ نیا قانون ان کو سیاسی راستے سے ہٹانے کے لیے بنایا گیا اور پھر اگست2018ء کو یہ خبر سامنے آگئی کہ الیکس سالمنڈ کے خلاف بھی جب وہ فرسٹ منسٹرتھے، کے خلاف بھی جنسی ہراسگی کے مقدمات کی تحقیق جاری ہے، الیکس سالمنڈ نے ان الزامات کی صحت سے مکمل طور پر انکار کیا اور ساتھ ہی اسکاٹش نیشنل پارٹی سے بھی استعفیٰ دے دیا اور اسکاٹش حکومت کو اس تحقیقات میں غلط طریقہ کار اختیار کرنے پر عدالت میں لے گئے، جنوری2019ء میں کورٹ آف سیشن نے الیکس سالمنڈ کی درخواست قبول کرتے ہوئے حکومت کے خلاف فیصلہ دے دیا جس کےبعد حکومت کو مقدمے کے اخراجات کے طور پر الیکس سالمنڈ کو پانچ لاکھ 12ہزار پونڈ ادا کرنے پڑے اور حکومت کی خاصی سبکی ہوئی، عدالتی ریویوکو جیتنے کے دو ہفتے کے بعد الیکس سالمنڈ پر13الزامات کے تحت مقدمہ پیش کردیا جو نازیبا حملوں، ریپ کی کوشش اورجنسی ہراسگی کے تھے، الیکس نے ان تمام الزامات کی صحت سے انکار کیااورالزامات کو اپنے خلاف ایک سازش قرار دیتے ہوئے نکولا سٹرجن کے قریبی ساتھیوں اور ان کے خاوند پیٹر مرل جو اسکاٹش نیشنل پارٹی کے چیف ایگزیکٹو بھی ہیں، کو مورد الزام ٹھہرایا، الیکس کے خلاف مدعیان میں پارٹی ورکرز، سیاستدان اور سول سرونٹس بھی شامل تھیں، جنوری2019ء میں الیکس سالمنڈ کو گرفتار کرلیا گیا، ان پر کیس چلا لیکن جیوری نے ان کو اکثریتی فیصلے کے ساتھ بری کردیا، الیکس سالمنڈ کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف ایک لمبی اور گندی مہم چلائی گئی مقصد نہ صرف ان کی شہرت کو خراب کرنا بلکہ جیل بھجوانا تھا، نکولا سٹرجن نے الیکس سالمنڈ کی طرف سے سازش کے الزامات کی مکمل نفی کرتے ہوئے کہا کہ وہ مجھ سے اس لیے ناراض ہیں کہ میں نے ان کے خلاف لگائے گئے جنسی الزامات کو ختم کرانے کے لیے ان کی کوئی مدد نہیں کی، الیکس سالمنڈ کے کیسز سے بری ہوتے ہی مختلف معاملات پر مزید انکوائری شروع ہوگئی، ایک تو اسکاٹش پارلیمنٹ کی کراس پارٹی کمیٹی کی طرف سے تھی، جنہوں نے اس بات کا جائزہ لیا کہ اسکاٹش حکومت نے الیکس سالمنڈ کے خلاف ابتدائی شکایات کو کیسے ہینڈل کیا، نیز کیا انہوں نے پارلیمانی کمیٹی کے سامنے گواہی میں اپنی اطلاعات کے مطابق صحیح معلومات دیں، کمیٹی نے نکولا سٹرجن کی گواہی میں کئی خامیاں پائیں جب کہ چارکے مقابلے میںپانچ ممبران نے ان کے بیان کو پارلیمنٹ کو گمراہ کرنے کی کوشش قرار دیا، ایک دوسری آزادانہ انکوائری بھی قائم کی گئی تھی جس کی سربراہی آئرش قانون دان جیمز ہملٹن کررہے تھے۔ جیمز ہملٹن کی انکوائری میں جائزہ لیا گیا کہ نکولا سٹرجن نے الیکس سالمنڈ کے کیس کی تحقیقات کے دوران سول سرونٹس کی انکوائری میں مداخلت کرکے منسٹریل کوڈ کی خلاف ورزی کی تھی یا کہ پارلیمنٹ کو بیان دیتے ہوئے جو کچھ وہ جانتی تھیں، نہیں بتایا تھا، جیمز ہملٹن نے نکولا کو پہلے سوال منسٹریل کوڈ کی خلاف ورزی سے بری کردیا جب کہ دوسرے سوال کے بارے میں کہا کہ یہ پارلیمنٹ کاکام ہے کہ وہ اس بات کا جائزہ لے کہ کیا نکولا سٹرجن نے ان کو گمراہ کیا تھا اور یوں لارڈ جیمز ہملٹن کی رپورٹ میں خود کو منسٹریل کوڈ کی خلاف ورزی سے بری ہونے پر نکولا سٹرجن کو ایک نئی سیاسی زندگی مل گئی، اگر اسکاٹش پارلیمنٹ کی کمیٹی کی طرح جیمز ہملٹن بھی نکولا کو منسٹریل کوڈ توڑنے کا ذمہ دار قرار دے دیتے تو پھر ان کے پاس شاید استعفیٰ دینے کے علاوہ کوئی راستہ نہ بچتا، اس ساری کشمکش سے اگرچہ وہ باہر آگئی ہیں لیکن ان کی پارٹی اور تحریک آزادی پر اس کے خاصے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، ایک ایسے موقع پر جب اسکاٹش پارلیمنٹ کے الیکشن صرف چند ہفتوں کی دوری پر ہیں، ان کی پارٹی اوپر سے نیچے تک تقسیم ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں وہ اگرچہ پارلیمنٹ کی سب سے بڑی پارٹی تو ہوں گی لیکن توقعات کے مطابق شاید مجموعی اکثریت نہ حاصل کرسکیں جوکہ اکیلے حکومت بنانے کے لیے ضروری ہوگی
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں