عرب مشاہیر : ابو طیب المتنبی۔۔منصور ندیم

امرجلیل کے مباحث کو دو دن سے سن رہا ہوں، چونکہ امر جلیل کو زیادہ نہیں جانتا مگر عرب دنیا کے بڑے بڑے شعرا جریر، فرزدق، بشار بن برد، ابو نواس، ابو تمام، البحتری، الشریف الرضی، ابو العلا المعری اور ابو طیب المتنبی جیسے مسلمان شعرا سے لے کر ابن العربی کا فلسفہ اور منصور حلاج اور سرمد کے اشعار میں ایسی بہت ساری تماثیل ہیں، جن میں خدا سے ، قدرت سے ، دنیا کے وجود پر یقین پر ایمان پر عجیب عجیب کیفیتوں میں بات کی گئی ہے ۔ بلھے شاہ ہو یا سعدی ایسی کئی حکایات ان کے ہاں بھی ملتی ہی ہیں۔ کعب ابن زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بانت سعاد کی تمثیل ہو یا مثنوی رومی کی حکایت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں گدڑیے کا خدا کی خدمت کے لئے بالوں میں کنگھی کرنا، جوئیں نکالنا، کپڑے بدلوانے کی تخیلاتی تمثیل ۔ شعراء و صوفیاء کا خدا کی بابت اپنی خودکلامی ایسی ہی رہی ہے۔

اسی مہینے ۲۱ مارچ کو پوری دنیا بھر میں شاعری کا عالمی دن منایا گیا تھا، سعودی میں بھی دارلحکومت ریاض کی شاہ عبدالعزیز پبلک لائبریری نے منظوم کلام (شعر وشاعری) کے عالمی دن کے موقعے پر مشہور عرب شاعر ابو طیب المتنبی کا نایاب عربی کلام نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا۔

مشہور عرب شاعر ابو طیب المتنبی کا اصل نام ابوطیب احمد بن حسین بن حسن بن عبدالصمد الجُعفی الکندی الکوفی ہے۔ ۳۰۳  ہجری کو پیدا ہوئے اور ۳۵۴ ہجری کو وفات پائی۔ المتنبی کے ناموجہ شہر جو اس عرف متنبی تھا، ہونے کا سبب ابوعباس احمد بن محمد خلکان نے تاریخ خلکان میں یوں لکھی ہے:

إنما قيل له المتنبي لأنه ادعى النبوة في بادية السماوة وتبعه خلق كثير من بني كلب وغيرهم. فخرج إليه لؤلؤ أمير حمص نائب الإخشيدية فأسره وتفرق أصحابه وحبسه طويلا. ثم استتابه وأطلقه. وقيل غير ذلك وهذا أصح. وقيل إنه قال أنا أول من تنبأ بالشعر.

اسے متنبی اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ اس نے بادیہ سماوہ میں نبوت کا دعویٰ کیا اور بنو کلب وغیرہ میں سے بہت سے لوگوں نے اس کی پیروی کی۔ پھر اخشیدیہ کا نائب امیرِ حمص لؤلؤ اس کے مقابلے میں گیا تو اس نے متنبی او ر اس کے اصحاب کو گرفتار کر لیا اور انہیں لمبے زمانے تک قید رکھا۔ پھر اس سے توبہ کا مطالبہ کیا اور اسے رہا کر دیا۔ اس معاملے میں دیگر واقعات بھی بیان کیے جاتے ہیں مگر یہ زیادہ درست بات ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ متنبی کہتا تھا کہ میں پہلا شخص ہوں جس نے شعر سے دعویٰ نبوت کیا ہے۔

حوالہ: ابن خلكان، وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان، ۱: ۱۲۲,  بيروت، لبنان: دار الثقافة

ابو طیب المتنبی کا شمار عرب دنیا کے ممتاز شعرا میں‌ ہوتا ہے۔ وہ عربی کے مشکل ترین شعراء میں سے تھا ابو طیب المتنبی چوتھی صدی  ہجری کے وسط کے شہرہ آفاق شاعر مانے گئے۔ کوفہ، بصرہ، بغداد، حلب، دمشق، مصر اور دوسرے علاقوں میں ان کی شاعری کو غیر معمولی پذیرائی ملی۔ انہیں سیف الدولہ کی شان میں لکھے قصیدوں کی بہ دولت شہرت ملی۔ المتنبی کے اشعار کی شرح ہمارے پاک و ہند کے مدارس کے نصاب درس نظامی میں شامل ہیں. یعنی پاکستان کے تمام مکاتیب فکر کے درس نظامی میں المتنبی کو باقاعدہ بحیثیت نصاب پڑھایا جاتا ہے، المتنبی کی اشعار میں کئی ایک انتہائی فحش قصیدوں میں سے ایک قصیدہ “ولہ فی ھجو ضبہ” ہے، جس میں ہر شعر میں گالیاں اور انسانی اعضائے جنسی کے نام موجود ہیں ہے، ان اشعار کی شرح تقریباً  ہمارے تمام مکاتیب فکر کے علما  نے لکھی ہیں۔

مؤرخین نے متنبی کے جو احوال بیان کیے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ المتنبی کے اشعار یا شعری تخیل کو اس کے ہمعصر علما نے دعویٰ نبوت قرار دیا تھا‘ حقیقت اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ بہرحال المتنبی فہم و فراست کا حامل اور عربی لغت ماہر تھا۔ منفرد اور مبہم الفاظ کے جاننے والوں میں سے تھا۔ اکثر باتوں کے جواب میں عربوں کے منظوم و منثور کلام پیش کیا کرتا۔ اس کے اشعار عربی ادب کا قابلِ فخر اثاثہ ہیں۔ عربی زبان و ادب اور الفاظ پر دسترس میں اسکا ثانی نہیں اسے خاتم الشعراء کہا گیا ہے یعنی ایسا شاعر جسے شعر کہنے کے فن میں آخری درجے کا کمال حاصل ہوا۔ اس کے دیوان کی چالیس چھوٹی بڑی شروحات لکھی گئی ہیں جو اس کا اعزاز ہے۔ ایسا کسی بھی دوسرے شاعر کے دیوان کے ساتھ نہیں ہوا ہے۔

جیل سے رہائی کے بعد ۳۳۷ ہجری میں المتنبی ایک عرصے تک سیف الدولہ بن حمدان کے دربار سے وابستہ رہا تھا. بعد المتنبی ۳۴۶ ہجری میں مصر چلا گیا تھا، مصر کے زنگی خواجہ سراء بادشاہ کافور ا خشیدی کا درباری بن گیا. المتنبی نے کئی مشہور قصائد میں کافور اخشیدی اور انو جوربن الاخشید کی مدح کی۔ پھر ایک بار اس نے کافور کی ہجو لکھ دی، کافور کے چاہنے والے اور رشتے دار اسے ڈھونڈتے پھرتے تھے، پہلے تواس نے فرار کا قصد کیا تھا مگر بالآخر یہ اس کے رشتے داروں کے ہاتھوں ۵۱ برس کی عمر میں مارا گیا تھا۔

شاعری کے عالمی دن کے موقع پر ریاض میں شاہ عبدالعزیز پبلک لائیبریری میں احمد ابو طیب المتنبی کا یہ شعری کلام ۱۱ ہجری (سنہء ۱۷۰۰ عیسوی) میں مرتب کیا گیا تھا، اس شعری مجموعے کے مقدمہ میں ابو طیب المتنبی کے حالات واقعات اور اس کے اشعار پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ سعودی عرب جیسے اسلامی ملک میں اگر شعراء کے خیالات کو ایسے مذہبی شدت پسندی سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ المتنبی کے اس نایاب دیوان کے اوراق کو زرد، سرخ اور نیلے رنگ کے پھولوں کی شکل میں سجایا گیا تھا۔ شاہ عبدالعزیز پبلک لائبریری میں ۵۰۰ ایسے نایاب مخطوطات موجود ہیں‌۔ ان میں ۱۱۹۰ ہجری کے محمد بن احمد الورغی کا دیوان بھی شامل ہے۔ دیگر شعرا میں احمد ابی حجلہ، عبدالقادر العلمی، محمد البروسوی، محمد بن علی بن عربی، علی بن موسیٰ الانصاری جیسے شعرا کے شاعری کے مجموعی بھی لائبریری کے علمی خزانے کا حصہ ہیں۔

علمی خزانوں اور شعراء یا صوفیاء کی ہم کلامی سے اختلاف و انکار یقینا ً ممکن ہے مگر اسے شدت پسند رویوں سے جانچنا بہرحال ہمارا کام نہیں ہے۔ جن سے وہ گلہ کررہے ہیں یہ ان کا اور ان کے خدا کا معاملہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ : تصاویر سعودی عرب کی شاہ عبدالعزیز پبلک لائبریری کی نمائش میں پیش کی جانی والے دیوان کی تصاویر ہیں۔

Facebook Comments