• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • خدا گم ہوگیا ہے۔امر جلیل کا متنازع بنا دیا گیا افسانہ/ترجمہ:ٹھاکر ظہیر حسین

خدا گم ہوگیا ہے۔امر جلیل کا متنازع بنا دیا گیا افسانہ/ترجمہ:ٹھاکر ظہیر حسین

کچھ دنوں سے خدا گم ہوگیا ہے، میرا دوست ہے، ہمارا آپس میں جھگڑا بھی نہیں ہوا تھا بس کھڑے کھڑے گم ہوگیا۔

تھوڑی دیر کے لئے مجھے خیال آیا کہ خدا کو یقیناً گم کرنے والوں نے گم کردیا ہے، ان کے پاس سے واپس لوٹنا محال ہے، خدا اب کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا اور اگر کبھی لوٹ کر آیا تو وہ مجھے پہچان نہیں سکے گا بلکہ کسی کو بھی پہچان نہیں سکے گا اپنی خدائی بھی بھول جائے گا یہاں تک کہ اسے اپنا نام بھی یاد نہیں رہے گا۔

کیونکہ گم کرنے والوں کے پاس سے واپس لوٹنے کے بعد اکثر ایسا ہی ہوتا ہے، ایک بار ہمارے دوست دھنی بخش کو گم کردیا گیا تھا، رشتے دار و احباب نے سوچا کہ مار دیا گیا ہے، لیکن اچانک پانچویں برسی کے موقعے پر پریشان حال لوٹ آیا، مغفرت کے لیے دعا کرنے والوں کے ساتھ بیٹھ گیا اور ہاتھ اوپر کرکے اپنے لئے مغفرت اور جنت الفردوس میں جگہ مانگنے لگا، لوگوں نے پہچان لیا، گھر کے اندر لے گئے، وہ اپنی بیوی کو ساس اور ساس کو اپنی بیوی سمجھنے لگا، اپنے سسر کو طالبان کا شہید اعظم ضیاء الحق سمجھا، آج کل گدو بندر (حیدرآباد کا تاریخی پاگل خانہ و موجودہ دماغی امراض کا بڑا ہسپتال) میں بند ہے اور رنگوں کی تفریق میں الجھ کر رہ گیا ہے، بینگن کو مولی اور مولی کو بینگن سمجھتا ہے، مجھے خوف تھا کہ گم کرنے والوں نے خدا کے ساتھ بھی دھنی بخش جیسا سلوک نہ کیا ہو، خدا اگر سفید اور کالے کا فرق بھول گیا تو کارو کاری کی بجائے وہ سفید و سفیدی کرکے مار ڈالے گا، وسوسوں میں الجھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ خدا آخر خدا ہے، گم کرنے والوں کو گم کرکے لوٹ آئے گا، میرے بغیر رہ نہیں سکے گا، میں بھی اس کے بغیر نہیں رہ سکتا، مجھے یقیں ہے کہ خدا لوٹ آئے گا، لیکن میرے رشتے دار، دوست اور دشمنوں کی رائے ہے کہ میرا خدا لوٹ کر نہیں آئے گا، ان کے مطابق میں نے جس کو خدا سمجھا ہے وہ اصل میں سرگواسی (جنتی) گوپال داس کی آتما (روح) ہے، سرگواسی گوپال داس میرا ہم عمر تھا اور بڑھاپے میں مذھب تبدیل کرکے مسلمان ہوگیا تھا، ڈرپوک تھا اس لیے ختنہ نہیں کروایا تھا، نام خدا بخش رکھوایا تھا، لیکن خدو کے نام سے مشہور تھا، روزے نماز کا پکا پابند، پانچوں وقت مسجد میں نظر آتا تھا۔

ایک دن مولوی صاحب خدا بخش عرف خدو کو ایک کونے میں لے گئے اور کہا کہ سن خدا بخش تم جب تک ختنہ نہیں کراؤ گے تب تک پکے مسلمان نہیں بنو گے، خدا بخش عرف خدو کانپ اٹھا ، اس پر خوف طاری ہوگیا۔

سوچا مذہب تبدیل کرکے دوبارہ گوپال داس بن جاتا ہوں تو ختنہ کرانے سے بچ جاؤں گا، دوستوں سے مشورہ کیا، دوستوں نے خبردار کیا کہ اب دوبارہ مذہب  چھوڑا تو مرتد ہوکر مرو گے، واجب القتل قرار دیئے جاؤ گے اور ماردیئے جاؤگے، اب تمہاری مرضی ہے کہ زندگی بچاتے ہو یا ختنہ بچاتے ہو۔۔خدا بخش نے زندگی کو ترجیح دی، دوستوں نے سر پہ پگڑی باندھی، گلے میں پھولوں کا ہار ڈالا اور نائی کے پاس لے گئے، تب تک خوف میں خدا بخش کا آدھا سانس جاتا رہا، چھپکلی کی طرح کانپنے لگا، دوستوں نے گرا کر قابو کیا، ہاتھ پیر مارنے لگا، بیچارے نائی سے بھول ہوگئی اور نشانہ چوک گیا، استرے نے خدا بخش کا کام اتار دیا تھا، اتنی بلیڈنگ ہوئی کہ ہسپتال جاتے ہوئے دم توڑ دیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا بخش کے مرنے کا مجھے بہت دکھ ہوا، لیکن یہ بات قطعی غلط ہے کہ خدا بخش کی روح میرے ساتھ رابطے میں ہے یا میں خدا بخش کی روح کے ساتھ رابطے میں ہوں۔

میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے خدا میرے ساتھ ہے، میں جب کھلونوں کے ساتھ کھیلتا تھا تب خدا بھی میرے ہمراہ بیٹھ کر کھلونوں کے ساتھ کھیلتا تھا، میں گلی میں گلی ڈنڈا کھیلتا تھا تو خدا بھی میرے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلتا تھا، اسکول میں، کالج میں، یونیورسٹی میں میرے ساتھ ہوتا تھا، میرے ساتھ مل کر سینما میں فلمیں دیکھا کرتا تھا، یہ ان دنوں کی بات ہے، جب سندھ کا مغل اعظم صدر کراچی میں سینما کے باہر ٹکٹ بلیک میں فروخت کرتا تھا، تب تک شہزادہ سلیم ابھی پیدا نہیں ہوا تھا۔

میرے کہنے کا مطلب ہے کہ خدا میرا وہم نہیں ہے، وہ موجود ہے، میں اسکے بغیر مکمل نہیں ہوں، وہ میرے بغیر مکمل نہیں ہے، میں ہوں تو وہ ہے، وہ نہ ہوتا تو کچھ بھی نہ ہوتا، نہ دھرتی نہ آسمان نہ چاند نہ سورج نہ تارے، نہ پہاڑ نہ چٹانیں نہ ریگستان نہ جنگل نہ دریا نہ سمندر نہ انسان ، کچھ بھی نہ ہوتا، وہ ہے تو سب کچھ ہے، خدا میں بہت سی اچھائیاں ہیں، اسے غصہ نہیں آتا، وہ کسی سے بدلا نہیں لیتا، کسی کو خوفناک عذابوں سے ڈراتا نہیں ہے، کسی کو انعام و اکرام کا لالچ نہیں دیتا، کسی سے قربانی نہیں مانگتا، کسی کو پوجا پاٹ کے لئے مجبور نہیں کرتا، خدا کی اچھائیوں کی فہرست بہت طویل ہے، لیکن خدا میں اکا دکا خامیاں بھی ہیں، جیسے خدا کچھ کھا نہیں سکتا، نہ برگر نہ بریانی، یہ نہ سمجھنا کہ کچھ کھانے سے خدا کا ہاضمہ خراب ہوجاتا ہے، نہیں نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔۔

ایک بار خدا میرے ساتھ لاہور گیا، پھجے کے  ہوٹل میں بیٹھے تھے، میں بیٹھا نان پائے کھا رہا تھا، خدا ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھ رہا تھا، میں نے ایک نوالہ خدا کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ ایک نوالہ کھانے سے مر نہیں جاؤ گے، خدا نے کہا مرتے تو انسان ہیں۔۔ میں خدا ہوں میں نہیں مرتا، میں نے پوچھا پھر کیوں نہیں کھاتے؟؟ کہا کھاتے صرف انسان ہیں، میں خدا ہوں میں کچھ نہیں کھاتا، میں نے کہا ٹھیک ہے تمہارے حصے کے پائے میں کھا لیتا ہوں، کہنے لگا لیکن ایک بات یاد رکھنا، تم چاہے پھجے کے پائے کی دس دیگیں بھی کھا کر ختم کردو لیکن تم پاکستان کے وزیراعظم نہیں بن سکتے۔۔

ایک بارمیں نے خدا کو کنفیوژ کردیا تھا، میں نے پوچھا تھا کہ تم نے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی بھیجے ہیں ان میں ایک بھی عورت نہیں ہے، کسی عورت کو نبی نہیں بنایا۔۔ تم نے ایسا کیوں کیا؟؟ جواب دینے کی بجائے خدا یہاں وہاں دیکھنے لگا، میں نے کہا کہ مجھے پتہ ہے تم نے ایسا کیوں کیا، کیونکہ تمہیں ماں اور ممتا کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہیں۔۔
میری طرف دیکھ کر کہنے لگا کہ میرے ساتھ رہ رہ کر تم خود کو خدا سمجھنے لگے ہو؟؟
میں نے کہا کہ میں خوش نصیب ہوں کہ میں خدا نہیں ہوں، مجھے ایک ماں نے جنم دیا ہے، اس لئے مجھے عورت کی عظمت کا اچھی طرح احساس ہے.
خدا تم بڑے بدنصیب ہو کہ تمہیں کسی ماں نے جنم نہیں دیا، اس لئے تمہیں پتہ ہی نہیں ہے کہ ایک ماں اورماں کی ممتا کیا ہوتی ہے، اگر پتہ ہوتا تو دس پندرہ عورتوں کو بھی نبی بنا کر ضرور بھیجتے، تم نے یہ دنیا مردوں کے لئے بنائی ہے، راون اور بدروحوں کے لئے بنائی ہے۔۔
خدا نے کہا کہ بولو تو تمہیں ابھی کے ابھی عورت بنا دوں؟
میں نے فوراً کہا کہ ایسا ظلم نہ کرنا، میری چار گھر والی ہیں اور چار باہر والی ہیں، میں عورت بن گیا تو ازدواجی زندگی میں خلل پڑ جائے گا، شرعی مسئلہ پیدا ہوگا اور اسلامی جمہوریہ مملکت خداد کے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی۔۔

خدا کی بڑی بدنصیبی ہے کہ خدا کی ماں نہیں ہے، اس کو کسی نے جنم نہیں دیا۔۔ خدا کی ایک اور خامی افسوسناک ہے، دردناک ہے، دل دکھانے والی ہے، کائنات کی ہر مخلوق کے لئے جوڑے پیدا کئے، پارٹنر پیدا کئے، چڑیا کے لئے چڑا، شیر کے لئے شیرنی، انسانوں اور سوئروں کے لئے بھی جوڑے تخلیق کئے ہیں، لیکن خود کو چھڑا چھانڈ (اکیلا، تن تنہا) رکھا، اپنے لئے مادہ پیدا نہیں کی، چھڑے چھانڈ کو دنیا شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے، خدا اگر انسان بن کر دنیا میں آجائے تو اسے رہنے کے لئے کوئی کرائے پہ جگہ بھی نہ دے۔

اچھائیاں اتنی کہ جن کا شمار ہی نہیں، لیکن خدا کی ایک اور خامی مجھے تپا دیتی ہے، بیٹھے بیٹھے کہہ دیتا ہے کہ مانگو، مانگو کیا چاہئے، پوری دنیا مجھ سے مانگتی آئی ہے تم بھی مانگو۔۔
میں کہہ دیتا ہوں کہ تم خدا ہی رہو فضول میں چیف منسٹر نہ بنو، مجھے تم سے کوئی کنٹریکٹ نہیں چاہیے۔۔
روکھا جواب سن کر خدا کو ذرا بھی غصہ نہیں آتا، یہ خدائی وصف ہے جو ہم میں نہیں ہے۔

ایک بار منگھو پیرکے مگرمچھوں کے پاس کھڑے تھے، اچانک کہنے لگا کہ
بالم! تم مجھ سے کچھ مانگو، تم مانگتے کیوں نہیں ہو، کچھ تو مانگو۔۔
میرا دماغ گھوم گیا، دل میں خیال آیا کہ دھکا دے دوں بھلے مگرمچھ کھا جائیں۔۔
اس سے پہلے کہ خدا کو دھکا دیتا، میں خود پھسل کر تالاب کے کنارے پہ بیٹھے بڑے مگرمچھوں کے بیچ میں جا گرا، مگرمچھوں نے کوئی حرکت نہیں کی، حیرت ہوئی، خدا سے پوچھا کہ یہ پتھر پہاڑوں جیسے مگرمچھ اتنے سست کیوں ہیں، خدا نے جواب دیا کہ یہ سندھی مگرمچھ ہیں۔

ایک بار ہم بوٹ بیسن پہ گھوم رہے تھے، اچانک خدا بولا کہ مجھ سے کچھ مانگو، بتاؤ کیا چاہیے ۔۔
میں نے کہا کہ مجھے قطرینہ کیف لاکر دے دو، میں قطرینہ کیف پہ عاشق ہوگیا ہوں مجھے قطرینہ کیف لاکر دو، خدا نے کہا ارے پاگل، ایک قطرینہ کیف کے لئے دو ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ کرواؤ گے کیا،
میں نے پوچھا قطرینہ کیف کی اہمیت کشمیر سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے کیا،
کہنے لگا کہ قطرینہ کیف کے لئے تیسری عالمی جنگ لگنے کا پورا امکان ہے، میں تمہارے لئے عالمی امن کو خطرے میں نہیں ڈالوں گا۔۔
میں نے کہا تم بھی میرے ساتھ رہ رہ کر چکرباز ہوگئے ہو، بات ٹال دی۔

اس کے بعد خدا نے دوبارہ مجھ سے نہیں پوچھا کہ مانگو کیا چاہیے، اور اس کے بعد کافی دنوں تک خدا نے مجھ سے کچھ مانگنے کو نہیں کہا۔ میں دل میں خوش تھا کہ چڑ دلانے والی بات خدا کے ذہن سے نکل گئی ہے، جس پہ مجھے بہت چڑ لگتی ہے، مانگو، منت کرو، مانگو، مجھ سے کچھ مانگو،۔۔۔
خدا کی یہ بات مجھے بالکل بھی اچھی نہیں لگتی تھی، میری عزت نفس کو مجروح کرتی تھی۔

ایک بار مجھے اتنا غصہ آگیا تھا کہ بیچ صدر میں چیخ کر کہا تھا میں فقیر نہیں ہوں۔۔۔ میں بھیک مانگنے والا فقیر نہیں ہوں۔۔۔۔ میں بھکاری نہیں ہوں۔۔۔ سنتے ہو نا خدا۔۔۔ میں تم سے بھیک نہیں مانگوں گا۔۔۔
میری چیخیں سن کر لوگوں کا مجمع لگ گیا، میرے علاوہ کسی کو خدا نظر نہیں آرہا تھا، ایک بوڑھے جوگی نے میرے کاندھے پہ ہاتھ رکھا، اور کہا کہ کون کہتا ہے کہ تم بھکاری ہو۔۔۔۔ تم سے کون کہہ رہا ہے کہ تم کسی سے بھیک مانگو۔۔۔
میں نے خدا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہتا ہے کہ مجھ سے کچھ مانگ۔۔
مجھ سے کچھ مانگ۔۔۔ مجھ سے کچھ مانگ۔۔۔۔ مجھے کچھ نہیں  چاہیے ۔۔۔۔۔
میں بھکاری نہیں ہوں۔۔۔
میں بھکاری نہیں ہوں۔۔۔
لوگوں نے ادھر ادھر دیکھا، کسی کو کچھ نظر نہیں آیا، مجھے مجذوب سمجھ کر، مجھے میرے حال پہ چھوڑ کر افسوس کرتے ہوئے چلے گئے۔

لیکن میری خوش فہمی دیرپا ثابت نہ ہوئی، ایک بار ناممکن کو ممکن کرنے کے لئے میں سرحد پار کرکے دوسری طرف جا کھڑا ہوا، کیکر کے پیڑ کے سامنے جھولی پھیلا کر کیکر سے بیر مانگنے لگا، تب میں نے خدا کی آواز سنی۔۔۔
کیکر سے بیر مانگ رہے ہو۔۔۔ مجھ سے مانگو کیا چاہیے۔۔
میرے پیچھے آ کھڑا ہوا تھا۔۔

میں نے کہا فضول میں بھرم نہ دکھاؤ،
مجھے پتہ ہے کہ تم کچھ نہیں دے سکتے ہو۔۔۔
کہنے لگے ارے تم کچھ مانگ کر تو دیکھو۔۔۔۔۔

میں نے کہا تم فضول میں ضد نہ کرو خدا۔۔۔ مجھے دینے کے لئے تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔۔

کہنے لگا میں خدا ہوں۔۔
میں ضد نہیں کرتا۔۔ آج مانگو۔۔۔ جو بھی چاہیے مانگو۔۔
جو چاہو مانگو۔۔۔
میں نے کہ کہا سوچ لو۔۔۔
کہنے لگا کہ سوچتے انسان ہیں، میں خدا ہوں، مانگو جو چاہیے۔۔۔
میں نے کہا ٹھیک ہے۔۔
اگر دے سکتے ہو تو مجھے اپنی خدائی دے دو۔۔۔ اور خود میری طرح انسان بن کر آجاؤ۔۔۔۔
مجھے اپنی خدائی دے دو۔۔۔
اور خود انسان بن کر آجاؤ۔۔۔۔

بس پھر خاموشی۔۔۔
ایک دم خاموشی چھا گئی۔۔
جیسے صدیاں بیت گئی ہوں۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے مڑ کر دیکھا۔۔۔۔۔۔۔
خدا گم ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”خدا گم ہوگیا ہے۔امر جلیل کا متنازع بنا دیا گیا افسانہ/ترجمہ:ٹھاکر ظہیر حسین

  1. امر جلیل نے ایک عالمی شاہکار افسانہ تخلیق کیا ہے۔ کاش وہ زرداری اور نواز شریف کو اس بار بیچ میں نہ لاتے ۔ میرے خیال میں اس سے افسانے کا قد کم ہوگیا ہے

  2. اس افسانے کو سستی شہرت کے لیے لکھا گیا ہے۔ افسانے میں گھسی پٹی طرزِ تحریر ہے جو قاری کو بالکل متاثر نہیں کرتی۔ جملے انتہائی عامیانہ بیانیے کی غمازی کر رہے ہیں۔ افسانے میں خدا کی علامت کے ساتھ انتہائی مضحکہ خیز مختلف واقعات کو جوڑا گیا ہے جن کا افسانے سے کوئی ربط نہیں بنتا۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی تعصب کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس افسانے کو ادب کے معیار پر مکمل طور پر رد تصور کر رہا ہوں۔

  3. میں بہت بدھو ہوں کیونکہ مجھے اس افسانے میں کوئی ایک بھی قابل اعتراض بات نظر نہیں آئی۔ آپ کچھ بھی لکھ دیں آپ خالق کائنات کی توہین کے مرتکب نہیں ہو سکتے۔ خالق کائنات بے نیاز ہے۔کیا آپ اپنے خدا کے ساتھ اتنے گہرے تعلقات نہیں رکھ سکتے کہ اس سے لڑائی بھی کریں اور پیار بھی، خفا بھی ہوں، گھر میں بیٹھ کر یا باآوازِ بلند؟ آپ کا خدا، آپکی مرضی۔ ہم کون ہوتے ہیں بیچ میں اپنا لُچ تلنے والے؟ میرا خدا، میری مرضی۔ اگر میں نے اسکی (خدانخواستہ) توہین کر بھی دی تو میری چھترول بھی وہی کرے گا! آپ میری چھترول کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ آپ جائیں اپنے گھر میں یا گلی کوچوں میں اور اپنے خدا کو جو چاہئیے آپ کہیں، لڑیں یا پیار کریں۔ نہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا نہ خدا کو ۔ اینویں یاویاں نہ مارو میرے یارو! کچھ تو سمجھو کہ تعلق ہو اپنے رب کے ساتھ تو ایسا ہی ہو کہ وہ آپ کو دیکھے اور آپ اس کو! آپ اس سے بات کریں اور وہ آپ سے۔ جنہوں نے نہیں ماننا ان کو ہم کچھ نہیں کہتے۔ ان کا خدا، انکی مرضی۔ خدا پر کسی کی اجارہ داری نہیں۔ جو سمجھتا ہے کہ خدا صرف اسکا ہی ہے، اسکے قابو میں ہے، اُسکا خدا گُم نہیں ہوا ہے، تے فیر کڈ کے دکھاوے! صرف اِک چھوٹے جئے کرونا وائرس دی ویکسین ہی بنا کے دکھا دے!!
    افسانہ سمجھیے یا حقیقت! راوی واویلا کر رہا ہےکہ اس کا خدا گم ہو گیا ہے۔ ہم روتے بندے کو تسلی دیں یا اس کا سر اتار دیں؟ یا اس کی تحریر میں ڈوب کر دیکھیں کہ بندہ کیا کہہ رہا ہے؟ ہمیں سمجھ نہیں آئی تو کہہ دیں “یہ تحریر میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ میں متفق نہیں۔ “راوی اور لکھاری ضروری نہیں ایک ہی ہو۔ ہم لکھاری پر کیوں چڑھائی کر دیتے ہیں؟ فرض کر لیں لکھاری کو ٹھوکر لگی تو کیا ہم اسے سہارا دیں گے یا دھکا؟ ہمارا ردعمل بتاتا ہے کہ ہم انسان ہیں یا طوطے یا چوہے۔
    جو اعتراض کر رہے ہیں بغیر سوچے سمجھے رٹی رٹائی دہرا رہے ہیں۔ اگر خدا کی توہین ہو رہی ہے توخدا کو اعتراض ہونا چاہئیے اور لکھاری پر بجلی گرانی چاہئیے- اگرخدا نہیں بجلی گرا رہا تو ہم لوگ کیوں اچھل کود کر لکھاری کا سر اتارنا چاہتے ہیں؟ ہم کیوں خوفزدہ ہو رہے ہیں؟ جو کام خدا کے ہیں وہ خدا پر چھوڑ دیں۔ کیا خدا کو علم نہیں کہ لکھاری کے دل میں کیا ہے؟ ہم کیوں مامے بن رہے ہیں؟
    سیدھی سی بات ہے۔ لکھاری ایک راوی کے کنفیوژن کو بیان کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ کنفیوژن لکھاری کے اپنے دماغ میں ہو۔ راوی ایک ایسا بندہ ہے جس کے تصور میں اسکا خدا حقیقی تھا اور پھر گُم ہو گیا۔ یہ کہانی کچھ سوال اُٹھاتی ہے جو ہم سب عام لوگوں کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں جب ہم اپنے اردگرد ایسے حالات دیکھتے ہیں جو انسانوں کے ہی پیدا کئے ہوئے ہیں اور ہمیں افسوس ہوتا ہے، کہ ہمارا زندہ خدا جسےہم ہر چیز پر قادر سمجھتے ہیں وہ کیوں کچھ نہیں کر رہا ان زمینی خداؤں کے بارے میں۔
    ہم بہت سی باتوں کو خدا کی مصلحت کہہ دیتے ہیں ان پر سوچ و بچار نہیں کرتے۔ یہ چوٹ لگائی گئی ہے ہم سب کے ذہنوں میں اپنے اپنے تصور میں تخلیق کئے خدا پر جو کوئی ایکشن نہیں لے رہا (کیونکہ ہم سب بہت بے صبرے بندے ہیں، ہر چیز فوراً چاہتے ہیں)۔ خالق کائنات تو ہماری تنقید سے بہت بالاتر ہے۔ راوی کے خدا کو اگر آپ اپنے خیالی خدا جیسا سمجھیں گے تو کنفیوژن پیدا ہو گا۔ کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک شخص کا تصور خدا کی ہستی کے بارے میں مختلف ہو سکتا ہے؟ اس تصور، اس خاکے، اس ’’بُت‘‘،ہمارے دماغ کے نیورونز پر بنے اِس غیر مرئی نقشے کے پیچھے جو عوامل کارفرما تھے جنہوں نے ہمارے بچپن سے اِس تصور کی تراش خراش کی، ہماری برین واشنگ کی، ہمارے والدین نے ہمیں کیا بتایا، ماسٹر جی نے کیا بتایا، مولوی صاحب نے کیا فرمایا، کتابوں میں کیا لکھا تھا، میڈیا کے اینکروں نے کیا کیا چنگھاڑا ؟ کیا ہم نے کبھی اس ساری معلومات کو کسی کسوٹی پر پرکھا؟ اور وہ کسوٹی کہاں سے آئی اور ہم اُس کسوٹی کو کس کسوٹی پر رکھیں؟
    بالآخر بات آ جائے گی ذاتی رُوحانی مشاہدے کی جسے ہم انگریزی میں (spiritual experience) کہتے ہیں، اپنے ’’خُدا‘‘ کے ساتھ بیٹھنے کی، اُس سے بالمشافہ مشورہ کرنے کی، اُس کی مصلحت سمجھنے کی، اُسکے ظاہری (Inaction) کی۔ اور اگر ہم بہت خوش نصیب ہیں تو قانون قدرت میں قدرتی تباہیاں، وبائیں، زلزلے، طوفان، سُنامی، ایکسیڈنٹ، وغیرہ میں عیاں حقیقت سمجھنے کی جس میں انسانی تصورات مثلاً ظلم، رحم، انصاف، سزا، جزا کی گنجائش بالکل نظر نہیں آتی۔
    اس کہانی کا بندہ ان سب مراحل سے گزر رہا ہے اور اپنے خدا کے اس تصور سے واویلا کر رہا ہے جو اُس نے حقیقی سمجھا ہے۔ہم اپنے خدا کے تصور کی توہین یا بے عزتی کا کیوں سوچتے ہیں۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ہم بھی اپنے اپنے تصوراتی ہستی کی تشکیل میں غلطی پر ہیں بالکل جیسے ہمارے خیال میں راوی غلطی پر ہے؟ ہم کس بنیاد پر اتنا تکبر کر رہے ہیں؟ کیا یہ ایک قسم کی خدائی نہیں؟
    ہم میں سے وہ لوگ جو اِن کٹھن مراحل سے گزرے ہیں، اپنے اپنے تصوراتی خدا سے یہی سوال کر چُکے ہیں، اپنے اپنے خدا کو بار بار کھو کر پا چُکے ہیں، گئی رات کے اِن واویلوں سے آشنا ہیں۔ وہ اِس تحریر کو سمجھ سکتے ہیں۔ اس کردار کی اذیت کو محسوس سکتے ہیں۔ جن کو سمجھ نہیں آئی، جِنہوں نے محسوس نہیں کیا، وہ اپنی عاجزی کا اظہار کر دیں کہ بھئی ہمارے بس کی بات نہیں۔ ہم پھنے خان نہ بنیں تو کیا بہتر نہیں ہو گا؟ ہر پھنے خاں اپنے آپ کو خدا ہی سمجھتا ہے۔ کوئی چھوٹا کوئی بڑا۔

Leave a Reply to محمد اکبر نیازی Cancel reply