اگر گذشتہ تقریباً ایک ماہ کے دوران میں خطے کے چند بڑے واقعات کو سامنے رکھا جائے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے خطے کے حقائق نہایت تیز رفتاری سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ پاکستان کسی صورت بھی اس تبدیلی کے اثرات سے اپنے آپ کو الگ نہیں رکھ سکے گا۔ ان میں ایک بڑا واقعہ یمن میں سعودیہ کی جانب سے جنگ بندی کی پیشکش ہے۔ اس سلسلے میں انصار اللہ، امریکہ اور اقوام متحدہ کے نمائندگان کی متعدد ملاقاتیں عمان میں ہوچکی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں سعودی عرب کی طرف سے پیش کی گئی جنگ بندی کی تجویز کے علاوہ اس امر کا جائزہ لیا گیا ہے کہ یمن کے معزول صدر عبد الرب منصور الہادی کا مستقبل کیا ہوگا۔ اقوام متحدہ اور امریکہ کے نمائندے اس وقت عبد الرب منصور الہادی سے ملاقات کر رہے ہیں۔ ان مذاکرات میں انصار اللہ نے مطالبہ کیا ہے کہ الحدیدہ بندرگاہ کو کھولا جائے نیز صنعاء کے ائیرپورٹ پر فضائی حملے بند کرکے وہاں رفت و آمد بحال کی جائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 6 سالہ جنگ جو اس وقت ساتویں برس میں داخل ہوگئی ہے اور جس کے بارے میں سعودیہ نے حملہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ دو ہفتے کے اندر صنعاء پر قابض ہو جائے گا، اتحادیوں کی شکست پر منتج ہو رہی ہے۔ امریکہ کو یہ پریشانی ہے کہ اگر اس کے حواریوں کو اعلانیہ شکست ہوتی ہے تو یہ خطے میں امریکی مفادات کی اعلانیہ شکست ہوگی۔
انصار اللہ نے بار بار کہا ہے کہ یمن پر مسلط کردہ جنگ میں اصل فریق امریکہ ہے، نیز اقوام متحدہ جارحین کے ساتھ ایک پارٹی ہے۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری ایک چھوٹے سے غریب ملک کے سامنے گھٹنے ٹیکنے جا رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی ہیبت خطے میں شکست کھا رہی ہے۔ اسی طرح سعودی عرب جس کا مسلمانوں میں ایک بڑا نام اور مقام ہے اور جس کے پاس ایک بڑی فوجی مشینری ہے، کی شکست نمودار ہو کر سامنے آرہی ہے۔ اس واقعے کے خطے اور باقی مسلمان ممالک پر تیز رفتار اثرات مرتب ہوں گے۔ علاقے کی چھوٹی ریاستوں پر سعودی تسلط ہی ختم نہیں ہو جائے گا بلکہ یہ بھی آشکار ہو جائے گا کہ امریکہ اپنے قریب ترین دوستوں کے دفاع کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس کے نتیجے میں علاقے میں امریکہ کی فوجی موجودگی خطرے سے دوچار دکھائی دیتی ہے۔
کجا ایک جانب امریکہ اسرائیل کو اس خطے پر مسلط کرنے کے لیے تمام تر ہتھکنڈے اور وسائل بروئے کار لا رہا تھا اور اپنے لے پالک حکمرانوں کے دفاع کے نام پر بڑی سطح پر فوجی موجودگی کو برقرار رکھے ہوئے تھا اور کجا ایک چھوٹے سے کمزور اور غریب ملک کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ان کے مطالبات پر غور کر رہا ہے۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ اگر یمن میں انصار اللہ کی حکومت کو جائز تسلیم کر لیا جاتا ہے، جیسا کہ مذاکرات سے ظاہر ہے، امریکہ پہلے ہی انصار اللہ پر عائد کی گئی اپنی پابندیاں ہٹا چکا ہے تو وہ ممالک جو اس قضیے میں بالواسطہ طور پر شریک ہیں، انھیں بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کے لیے پرائی جنگ میں گھٹیا درجے کی شراکت داری کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔
دوسرا بڑا واقعہ 27 مارچ 2021ء کو تہران میں چین اور ایران کے مابین ہونے والا جامع اقتصادی معاہدہ ہے۔ اس معاہدے سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ایران پر پابندیوں کی سیاست کا جنازہ نکل گیا ہے۔ ایران اور روس کے مابین بھی بیس سال سے ایک جامع معاہدہ جاری ہے اور توقع ہے کہ اس میں مزید توسیع کر دی جائے گی۔ پہلے ہی دس سالہ معاہدے میں دو مرتبہ پانچ پانچ سال کی توسیع کی جا چکی ہے۔ روس ایران قربت کے اقتصادی اور تزویراتی نتائج مسلسل سامنے آرہے ہیں۔ چین ایران معاہدے کے جتنے نکات سامنے آئے ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک جامع معاہدہ ہے۔ چین اپنی روایتی پالیسی کے مطابق اس معاہدے کی تفصیلات جاری نہیں کرے گا۔ ایک امریکی اخبار کی طرف سے اس کےجو نکات جاری کیے گئے ہیں، ایرانی وزیر خارجہ نے ان کی تائید نہیں کی۔ تاہم ایک بات تو واضح ہے کہ یہ معاہدہ فقط پیٹرو کیمیکل انڈسٹری کی ڈویلپمنٹ، ایرانی تیل کی چین کو برآمد اور اس سے منسلک ذرائع مواصلات کی تعمیر و ترقی ہی سے متعلق نہیں ہے۔ اس میں ایران کے اندر شرقاً غرباً اور شمالاً جنوباً انفراسٹرکچر اور ریلویز کی تعمیر کے علاوہ، سیاحت، تعلیم، صنعت اور زراعت کے شعبہ جات کی ترقی بھی شامل ہیں۔
اس سلسلے میں دونوں ملک مشترکہ منصوبوں پر کام کریں گے۔ چین سے نئی اور جدید ٹیکنالوجی ایران منتقل کی جائے گی۔ خود ایران بھی ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ بعض منصوبے ایران سے آگے بڑھ کر عراق، شام اور دیگر ممالک تک جا پہنچیں گے۔ منصوبوں میں خطے کے دیگر ممالک جن میں پاکستان، افغانستان، مرکزی ایشیاء کی ریاستیں اور روس کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اگر مغربی اطلاعات کو درست مانا جائے کہ اس معاہدے میں تقریباً ساڑھے چار سو بلین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ تیل کی صنعت سے ہے تو جب ہم اس کا موازنہ سی پیک کے منصوبوں سے کرتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان میں ابھی تک چینی سرمایہ کاری کے معاہدے 62 بلین ڈالر سے زیادہ نہیں ہیں۔ دوسری طرف بعض ذرائع کے مطابق پچیس سال کے لیے چین اور ایران کے درمیان ہونے والے ترقی کے جامع منصوبے کی کل سرمایہ کاری ایک ہزار ارب ڈالر تک پہنچتی ہے۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں کس قدر کم سطح پر چین کے ساتھ سرمایہ کاری پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔ نیز چین کو پاکستان پر کس قدر اعتماد ہے جبکہ ہم شب و روز چین سے اپنی دوستی کو ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہرا کہتے ہوئے نہیں تھکتے۔ اگر کوئی قوم خود فریبی کا شکار ہو جائے اور اپنی حقیقی قیمت کو نہ پہچان سکے تو اس کا علاج کسی دوسری قوم کے پاس نہیں ہے۔ پاکستان میں ایران کے سفیر نیز ایران کے سکیورٹی چیف شمخانی نے کہا ہے کہ ایران چین معاہدہ دیگر ممالک کے لیے ایک نمونہ ہے کہ ایران سے کیسے شراکت کی جاسکتی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ معاہدہ ان ممالک کو ایک بھرپور اور جامع جواب ہے، جنھوں نے روس، چین، پاکستان، ایران اور دنیا کے دیگر ممالک پر پابندیوں کو ایک سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا اور قوموں کو اپنے سامنے جھکانے کے لیے ایک جال بچھایا۔ اس معاہدے سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اب ان حربوں کا نہ فقط کا کوئی اثر باقی نہیں رہے گا بلکہ یہ الٹا استعماری ممالک ہی کو اپنی گرفت میں لیں گے۔
ایران اور چین نے 2016ء سے اس معاہدے پر کام شروع کیا تھا، اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چار سال سے زیادہ کی مدت میں معاہدے کی باریکیوں پر کس قدر غور و خوض کیا گیا ہوگا اور اس معاہدے پر امریکہ اور اس کے حواریوں کے ردعمل کو ملحوظ رکھ کر کس ہنر مندی سے بچنے کی تدابیر اختیار کی گئی ہوں گی۔ اس سلسلے میں ایران کے سکیورٹی چیف علی شمخانی کا یہ بیان معنی خیز ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی اس معاہدے پر تشویش بالکل درست ہے، عالم مشرق میں شراکت کے نئے افق ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ کا زوال تیز رفتار ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ دنیا فقط مغرب نہیں ہے اور مغرب فقط قانون شکن امریکہ اور تین بدعہد یورپی ممالک پر منحصر نہیں ہے۔
پاکستان کو اب یہ سوچنا ہے کہ ان بدلتے حقائق کے پیش نظر کیا حکمت عملی اختیار کرنا ہے، جن میں ایک طرف سعودیہ کی فوجی اور سیاسی ابتری دکھائی دے رہی ہے، افغانستان کے مسئلے میں امریکہ کی طالبان کے ساتھ بدعہدی سامنے آچکی ہے نیز مغربی تسلط کا خاتمہ نقش بر دیوار ہے اور مشرق میں چین، روس، وسطی ایشیا کی ریاستوں، ترکی اور ایران کے پائیدار روابط قائم ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ پاکستان کو دیکھنا ہے کہ ہمیں دنیا پر زوال پذیر حاکم طاقتوں سے دوستی سے زیادہ فائدہ ہوا ہے یا نقصان۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ امریکہ اور سعودی عرب کی سرپرستی میں پاکستان نے افغانستان میں جو کردار ادا کیا، اس کا ہمارے معاشرے اور ریاست پر انتہائی منفی اثر پڑا ہے۔ یہاں تک کہ ہم ابھی تک اس اثر سے نہیں نکل سکے۔ اب بھی اگر پاکستان خطے میں انہی طاقتوں کی کاسہ لیسی میں مصروف رہا اور ان کی برپا کی ہوئی جنگوں میں زیر زمین یا بالائے زمین حصے دار رہا تو اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ ہم نہ قوموں کو دھوکہ دے سکتے ہیں اور نہ قوموں کے حافظے سے ان کی مشکل کے دور میں کیے گئے سلوک کو مٹا سکتے ہیں۔
بعض اداروں کی رپورٹ کے مطابق تہران میں معاہدے کے موقع پر چینی وزیر خارجہ نے جو ایران کے بارے میں کہا کہ ایران ایسا نہیں ہے کہ ایک فون کال پر اپنی پالیسی بدل لے، بڑا معنی خیز ہے۔ ہمیں سوچے بغیر معلوم ہے کہ یہ اشارہ کس کی طرف ہے۔ حال ہی میں پاکستان نے کوالالمپور سمٹ میں سعودیہ کو خوش کرنے یا اس کی ناراضی سے بچنے کے لیے جو یوٹرن لیا، اس نے پوری دنیا میں ہمارے لیے رسوائی کا سامان مہیا کیا۔ اس سے پہلے طالبان کی حکومت کے خاتمے کے لیے امریکی سیکرٹری خارجہ کولن پاول کی فون کال پر نامور کمانڈو نے جو کردار ادا کیا، اس نے خود امریکیوں کو بھی حیران کرکے رکھ دیا۔ ایران نے کئی برسوں کی ہوشربا اور ستم خیز پابندیاں برداشت کرکے عالمی سطح پر یہ اعزاز حاصل کیا ہے کہ دنیا کی ابھرتی ہوئی سب سے بڑی طاقت کے وزیر خارجہ نے انقلابی ایران کی سرزمین پر کھڑے ہو کر یہ کہا کہ وہ ایسا ملک نہیں جو ایک فون کال پر اپنا موقف تبدیل کرلے۔
اس سلسلے میں مڈل ایسٹ آئی نے ایرانی وزیر خارجہ کا یہ بیان نقل کیا ہے۔
Iran decides independently on its relation with other countries and is not like some countries that change their position with one phone call. یعنی ایران دوسرے ممالک سے تعلق کا فیصلہ آزادی سے کرتا ہے اور ایسے ممالک کی طرح نہیں، جو اپنی پوزیشن ایک فون کال پرتبدیل کر لیتے ہیں۔ قوموں کے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ دنیا ان کے بارے کہے کہ وہ مشکلات کے مقابل ڈٹ جاتی ہیں اور اپنی عزت و افتخار کا سودا نہیں کرتیں۔ پاکستان کے پاس کیا ہے؟ کیا ہم پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کو اعتماد میں لے کر دنیا کے ظالم نظام کے خلاف کھڑے نہیں ہوسکتے؟ یہی قوم ہے جس نے قربانیاں دے کر پاکستان بنایا تھا۔ ہمارے حکمرانوں نے ہمیں دنیا سے کتنی عزت کما کر دی ہے۔ اس صورتحال کا ہمیں تجزیہ کرنا ہے، ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کا از سر نو جائزہ لینا ہے۔ ذمہ داروں کو اپنے انفرادی اور ذاتی مفادات کو قربان کرکے قومی مفادات کو ترجیح دینا ہوگی۔ قوم کی عزت و افتخار کو ہر چیز پر بالادست سمجھنا ہوگا۔
Facebook Comments