شب پٹاخہ بازی۔۔مہرساجدشاد

جب یہ تحریر لکھی جارہی ہے تو شب برات کی گھڑیاں ہیں نماز و نوافل کا وقت ہے لیکن باہر ہمارا مستقبل ہماری قوم کے بچے اعلان کر رہے ہیں کہ وہ دنیا میں کھڑاک کرنے کو ہی آئے ہیں لیکن حد تو یہ ہے کہ جنہیں ہم عمر کے اعتبار سے سیانا کہہ سکتے ہیں وہ بھی یہ ثابت کرنے میں مصروف ہیں کہ انکی صرف عمر بڑھی ہے عقل وہیں بگڑے بچپن میں ہی کھو گئی تھی۔ ایسے میں کون سا کرونا اور کون سے ایس او پیز ؟
آج تو لنگر بانٹنے کے بہانے تاجروں نے دوکانیں بھی کھول رکھی ہیں۔ دن بھر لنگر بانٹے جاتے رہے امید ہے کئی غریب گھرانوں میں آج کھانے کی دو وقت کی بچت ہو گئی ہو گی غریب کی تو یہی شب برات ہے۔

پرانے وقت میں جب فوت شدگان اور بیمار شدگان کے لئے بہت توہمات عام تھیں تو مسجد کے مولوی صاحب کو اہل خانہ سمیت سال بھر کا راشن پانی اور کپڑے مل جایا کرتے تھے اب لوگ سیانے ہو گئے ہیں تو مولوی بے چاروں نے بھی سالانہ فنڈ ریزنگ کے دوسرے  ذرائع کا بندوبست کر لیا ہے۔

مہنگائی کے اثرات آج کے لنگر پر بھی نظر آئے، نان روغنی کی بجائے سادہ ہو گیا تو چلو قابل قبول ہے لیکن اس پر رکھا جانے والا حلوہ اتنا کم کر دیا گیا ہے کہ باقاعدہ اس پر احتجاج کو دل آمادہ ہو گیا وہ تو بھلا ہو منتظم کا جن کی نگاہ احتجاج شناس نے حلوہ ڈبل کروا دیا وگرنہ لنگر پر احتجاجی کالم کا ماحول بن گیا تھا۔ نمازیوں کو اپنی عبادات میں خشوع و خضوع کیلئے دشواریاں درپیش ہیں، ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو دوران نماز پٹاخے کے شدید دھماکے تراہ نکال کر اس شب برات میں آخرت کی خوب یاد دلا رہے ہیں، اس پر ان دہشت پسندوں کا تو شکریہ ادا کرنا زیادہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔

پرانی بات ہے ہمارے محلے میں ایک نہایت شریف النفس نستعلیق طبیعت بڑی ہی پیاری اردو بولنے والے بزرگ رہتے تھے شب بارات ہی کی بات ہے کہ وہ رات علاقہ کونسلر کے پاس شکایت لے کر آئے، کونسلر کا دفتر جس منیاری و بک اسٹور میں تھا ہم وہیں پارٹ ٹائم سیلز مین تھے، حاجی صاحب آئے اور فرمانے لگے، پہلوان جی محلے کے شرانگیز و فسادی طفلان نے شدید قسم کے پٹاخے پھوڑے ہیں اور ہوایاں بھی بے دریخ چلائیں ہیں انہی سے کچھ شرارے نکل کر ہماری چھت پر رکھی ایک بان سے بُنی چارپائی پر جو گرے ہیں تو آن کی آن میں اسے خاکستر کر گئے ہیں وہ تو صد شکر اسکے قرب و جوار میں دیگر کوئی آتش گیر شے نہ تھی وگرنہ نہ جانے اس کی لپیٹ میں کیا مال و اسباب آ جاتا۔ کونسلر صاحب نے گفتگو کو بغورسنا اور فرمایا چاچا جی چارپائی تے مال اسباب نوں کی ہویا اے باقی گل سمجھ آ گئی اے۔ (چاچا جی چارپائی اور مال اسباب کو کیا ہوا ہے باقی ساری بات مجھے سمجھ آ گئی ہے)

آج کی کہانی پر واپس آتے ہیں
پولیس گذشتہ تین چار روز سے بہت مصروف تھی، ہر محلے اور بازار میں انہوں نے اپنے مخبر استعمال کر کے تمام چھوٹی بڑی دوکانوں کا ڈیٹا حاصل کیا جو آتش بازی پٹاخے وغیرہ بیچ رہے تھے، پھر منظم طریقے سے بڑی محنت کیساتھ پٹاخے بیچنے کی غیر سرکاری پرمٹ فیس وصول کی، اسی لئے اب پولیس کے شیر جوان قانون کی خلاف ورزی کو روکنے کی بجاے اپنے روایتی طریقہ کار یعنی شریف اہل علاقہ کو روک کر انکی تلاش لینے کے بہانے ان سے مسکرا کر شب برات کا نذرانہ طلب فرما رہے ہیں۔ عوام کے پاس وقت نہیں ہے وہ بھی فورا ً مٹھی دباتے ہیں اور رخصت ہو جاتے ہیں۔

ایک اور دفعہ کا ذکر ہے ایک نعت خواں صاحب جو کار پر تھے انہیں ایک ناکہ پر پولیس نے روکا، تعارف کروانے پر پولیس نے انہیں عزت کیساتھ رخصت کرنا چاہا تو انہوں نے فرمایا میں محفل سے لیٹ ہو رہا ہوں آگے ناکے بھی ہیں اور ٹریفک بھی اگر تم لوگ اپنا نیلی بتی والا ڈالہ آگے لگا کر مجھے جلدی پہنچا دو تو سب آدمیوں کا کھانا اور گروپ کو دس ہزار انعام میری طرف سے،
آپ جو بھی سوچیں پولیس پارٹی نے آفر قبول کی اور ناکہ اٹھا کر نعت خواں کا پروٹوکول بن گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب تو شب برات جیسے تیسے گذر گئی اگر واقعی کوئی نیکی کا کام اس دن کرنا چاہتے ہیں تو تہیہ کر لیں آئندہ اپنے بچوں کو پٹاخے نہیں چلانے دیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply