میاں بیوی کو متحد رکھنے والا ڈنڈا۔۔شاہد محمود

آج سے تیس چالیس سال پہلے تک پاک وطن میں طلاق کی شرح بہت کم تھی۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے اکثریتی علاقوں میں بجلی، پانی، گیس جیسی سہولتیں نہیں پہنچی تھیں۔ آبادی زیادہ تر دیہاتوں میں رہتی تھی۔ کھیتی باڑی، دودھ دینے والے مویشی پالنا، بھیڑ بکریاں پالنا، کھڈیوں پر کپڑا، کھیس، چادریں بننا، ہاتھ سے قالین و دریاں بنانا وغیرہ وغیرہ کاموں سے لوگ منسلک تھے۔ کیا مرد کیا عورت دیہات میں سب کام کرتے تھے۔ عورتوں کی صبح تو سحری وقت ہی ہو جاتی۔ اللہ والی بیبیاں ہوتی تھیں۔ سحری وقت اٹھ کر وضو کر کے تہجد پڑھتیں، سب کے لئے دعا مانگتیں اور روٹیاں پکانے کے لئے حسب ضرورت دو چار سیر گندم ہاتھ والی چکی پر اللہ سوھنے کا ذکر کرتے ہوئے پیستیں، پھر مدھانی کی طرف توجہ کرتیں اور دہی رڑڑک کے مکھن نکال پیڑا بنا رکھتیں، چھڈی الگ نکالتیں اور لسی تیار ہو جاتی۔

پھر یا تو خود گائے بھینس جو بھی جانور گھر کے دودھ کے لئے رکھا ہوتا اس کا دودھ دوھ (نکال) کر لاتیں یا گھر کے کسی مرد نے لا دیا تو اس میں سے ناشتے میں استعمال کا دودھ الگ دیگچی میں چولہے پر چڑھا دیتیں اور باقی چاٹی میں ڈال کاڑھنی میں دہکتے ہوئے اپلوں پر رکھ دیتیں اور دودھ خود ہی کڑھ کڑھ ہلکا سرخی مائل ہو جاتا جس کے پینے کا سواد ہینے والے کو کبھی نہیں بھولتا اور دودھ پہ یہ گاڑھی موٹی ملائی آتی کہ آج کل تو وہ خواب ہی لگتی۔ دودھ سے فارغ ہو کر خاتون خانہ چولہے میں آگ جلاتی، روٹیاں پکاتی اور تازہ مکھن سے چوپڑ کر سارے ٹبر کو کھلاڑی جاتی، کھانے والوں میں سے کوئی گھی شکر اور کوئی مکھن کے پیڑے ساتھ روٹی کھاتا تو کوئی اچار کے ساتھ یا رات کے بچے سالن کے ساتھ اور خوب رج رج لسی پیتا یا دودھ۔

چائے کا رواج نہ تھا۔ ناشتے کے بعد مرد کھیتوں یا اپنے کام کاج پر چلے جاتے اور خواتین گھر میں ناشتے کے برتن سنبھال باقی کاموں میں مصروف ہو جاتیں جس میں چرخے پہ سوت کاٹنے کے ساتھ ساتھ سینا پرونا، کڑھائی، گھر کی صفائی، لیپا پوچی سے لے کر کسی ٹیوب ویل یا کسی نہری نالے (سووئے) یا قدرتی نالے پر گھر بھر کے میلے کپڑے لے جا کر دھونا بھی ہوتا تھا۔ اس دھلائی کا باقاعدہ فن تھا۔ مٹی کی کنالیوں میں سوڈا و تیل وغیرہ ملا کر صابن بنایا جاتا تھا اور ایک تگڑا ڈنڈا ساتھ لے کر خواتین مل کر کپڑے دھونے جاتی تھیں ۔۔۔۔

اور قصہ مختصر یہ کہ یہ کپڑے دھونے والا عمل خواتین کے لئے بہترین کتھارسس کا کام کرتا اور خواتین اپنے دل کا غبار ایک دوسرے سے باتیں کر کے اور اپنے دل کا غصہ ڈنڈے سے کپڑوں کو کوٹ کے نکال لیتیں اور ان کا من سکھی ہو جاتا یا یوں کہہ لیجیے کہ ان کا من شانت ہو جاتا۔ کچھ بڑی عمر کی عورتیں اپنے سے چھوٹی خواتین کے دکھ درد سن کر انہیں دلاسہ بھی دیتیں اور مسائل کا حل بھی بتاتیں۔

اس وقت زندگی کی طرح مسائل بھی سادہ ہوتے تھے سوشل میڈیا تو درکنار ریڈیو ٹی وی بھی نہیں ہوتے تھے اور ریڈیو اگر ہوتا تو خال خال کسی گھر میں کپڑے کے خوبصورت سلے ہوئے غلاف میں اور سیلوں سے ریڈیو چلتے۔ اس طرح جب خواتین گھروں کو لوٹتیں تو دن بھر کے کام کاج کی تھکن اور سہیلیوں سے گپ شپ کے بعد وہ ہنسی خوشی گھر کے چھوٹے چھوٹے موٹے کاموں میں لگ جاتیں اور اپنے مرد پر جو غصہ آیا ہوتا تھا وہ کپڑے دھوتے ڈنڈے سے کپڑوں کو کوٹ کوٹ کر نکال چکی ہوتیں اور اسی طرح مرد اپنے دل کا غبار کھیتوں میں ہل چلاتے اپنے بیلوں سے باتیں کرتے یا پانی لگاتے نکال چکا ہوتا اور وہ بھی تھکا ہارا لیکن پرسکون واپس لوٹتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس ماحول میں طلاق کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی اور اس کا راز تھا کپڑے دھونے والا ڈنڈا ۔۔۔۔۔ خواتین عام طور پر اسی کپڑے دھونے والے ڈنڈے سے بچوں کی ٹیوننگ بھی کر دیا کرتی تھیں اور کچھ جغادری خواتین اس سے اپنے کھڑپینچ قسم کے مردوں کے نٹ بولٹ بھی کس دیتی تھیں۔ یاد رہے یہ ڈنڈا پوری دنیا across the glob رائج تھا ۔۔۔۔۔ طلاق کی شرح کم کرنے کے لئے اس ڈنڈے کی واپسی ضروری ہے۔
پس نوشت:
اسی کپڑے دھونے والے ڈنڈے، جس کو پنجاب میں تھاپا بھی کہا جاتا ہے، سے بیس بال کا ڈنڈا، کرکٹ بیٹ اور ٹیبل ٹینس کے ریکٹ وجود میں آئے اس لئے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کھیلوں کی موجد بھی خواتین ہی ہیں۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply