• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا عمران خاں حکومت کا بھی اب 3 لفافے تیار کرنے کا وقت آ چکا ہے؟۔۔ غیور شاہ ترمذی

کیا عمران خاں حکومت کا بھی اب 3 لفافے تیار کرنے کا وقت آ چکا ہے؟۔۔ غیور شاہ ترمذی

کہنہ مشق ادیب سید زیدی لکھتے ہیں کہ ایک کمپنی چل کر نہیں دے رہی تھی۔ مالکوں نے بہتیری کوشش کی اور حل یہ ڈھونڈا کہ منیجر بدل دیا جائے۔ ہر کمپنی اور دفتر میں منیجر یا سٹاف کی تبدیلی کے وقت جانے والا اہلکار / افسر آنے والے کو چارج دیتا ہے جسے دفتری اصطلاح میں ہینڈ اوور / ٹیک اوور کہا جاتا ہے۔ مذکورہ کمپنی کا پرانا مینجر جہاندیدہ تھا۔ اس نے نئے آنے والے مینجر سے کہا کہ اگر کبھی کسی مشکل میں پھنس جاؤ تو اس میز کی دراز میں تین (3) لفافے چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ان پر ایک دو تین نمبر لکھے ہوئے ہیں۔ پہلی مشکل جب آئے تو پہ ایک نمبر والا لفافہ کھولنا۔ پھر بھی اگر حالات جوں کے توں رہیں تو دوسرا لفافہ کھولنا اور حالات بالکل ہی بے قابو ہو جائیں تو پھر تیسرا لفافہ کھول لینا۔
نئے منیجر کو کچھ عرصہ بعد مشکل پیش آئی تو اس نے پہلا لفافہ کھولا تو اس میں لکھا تھا “ہر مسئلے کا ذمہ دار اپنے سے پہلے والے کو یعنی مجھے ٹھہرا دو”۔ نئے مینجر نے ایسا ہی کیا اور یوں لگا کہ معاملہ وقتی طور پر حل ہو گیا ہے۔ مگر درحقیقت ایسا نہ تھا۔ کچھ مہینوں کے بعد دوسرا لفافہ کھولنے کی بھی ضرورت پڑ گئی۔ اس میں لکھا تھا کہ تمام بورڈ میٹنگز اور اپنے تعلقات عامہ کے ذریعہ یہ بیان دینے شروع کر دو کہ “ہم ہر چیز کی تعمیر نو کر رہے ہیں، ہمارے سب معیار اور پیمانے یہ اشارہ کر رہے ہیں کہ حالات بہتری کی طرف جا رہے ہیں اور جلد ہی ان کے نتائج دنیا دیکھے گی”۔ نئے منیجر نے پرانے کی نصیحتوں کو خوب سراہا اور پہلی نصیحت کی طرح دوسری نصیحت پر بھی من و عن عمل کرنا شروع کر دیا مگر شومئی قسمت کہ حالات سدھرنے کی بجائے بالکل ہی بگڑ گئے اور یوں محسوس ہونے لگا کہ کمپنی کا دیوالیہ نکلنے ہی والا ہے نئے منیجر کو خیال آیا کہ اب تو تیسرا لفافہ کھولنے کی ضرورت پیش آ ہی چکی ہے۔ تیسرا لفافہ کھولا گیا تو اس میں لکھا تھا کہ “ایسے ہی تین لفافے تیار کر لو کہ اب تمہارا جانے کا وقت قریب ہے”۔
عمران خاں حکومت کے پہلے 2 سال تو ہر برائی کا ذمہ دار پچھلوں کو قرار دینے میں ہی گزر گئے اور اپنی ہر نالائقی اور بدنظمی کو وہ پچھلوں کے کھاتہ میں ڈال کر اپنے تئیں خود کو بری الزمہ کر چکے (حالانکہ نوشتہ دیوار ہے کہ اگلی حکومت جس پارٹی کی بھی ہوئی وہ عمران خاں اور ان کے ساتھیوں کو ان کی حکومت کے ایک ایک دن کے کڑے احتساب سے گزارے گی)۔ عمران خاں حکومت کے پہلے 2 سال گزرنے کے بعد جو اگلے 7/8 مہینے گزر چکے ہیں ان میں تحریک انصاف کے راہنماؤں کے بیانات میں پچھلی حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ قوم و ملک کو نوید سنائی جا رہی ہے کہ معیشت اور صورتحال مثبت اشارے دکھا رہی ہے۔ پچھلوں کی خرابیوں پر کافی حد تک قابو پا چکے ہیں اور آنے والا وقت عوام کے لئے ریلیف لے کر آئے گا۔ عوام کو سستی بجلی اور مہنگائی میں واضح کمی دکھائی دے گی۔
حکومتی اعلانات اور اقدامات کے دعوے اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اشیائےخوردونوش عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو رہی ہیں اور عوام حکمرانوں سے مایوس نظر آتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس دور میں غریب آدمی سبزیاں بھی خریدنے کے قابل نہیں رہا۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق بیرونی قرضوں کا حجم 30 جون 2020ء تک 113 ارب ڈالر ہو گیا جبکہ ستمبر 2018ء کو بیرونی قرضے 96 ارب ڈالر تھے۔ یعنی موجودہ حکومت نے پچھلا کوئی قرض نہیں اتارا، نہ کوئی ترقیاتی کام کئے، نہ عوام کو اٹا، چاول، چینی، دالوں کی قیمتوں، بجلی، گیس، پانی کے بلوں میں سبسڈی دی اور اوپر سے 17 ارب ڈالر کا نیا غیر ملکی قرض بھی لے کر اہنے اللے تللوں پر لگا لیا۔ یاد رہے کہ اگر حالات اسی ڈگر پر چلتے رہے تو بھوک کا ننگا رقص ہوگا۔ تب کسی کا گریبان بھی محفوظ نہیں ہوگا۔ اور پھر اس وقت ہی دیکھا جائے گا کہ کس کے ہاتھ سخت ہیں اور کس کے ہاتھ نرم۔
عام آدی کا جینا جس قدر اجیرن ہو گیا ہے، اس صورتحال کو بیان کرنے کے لئے عوامی شاعر حبیب جالب کی ایک نظم تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ بصد معذرت پیش خدمت ہے:۔
بائیس کروڑ انسانو!
زندگی سے بیگانو!
صرف چند لوگوں نے
حق تمہارا چھینا ہے
یہ بھی کوئی جینا ہے
یہ ملیں، یہ جاگیریں
کس کا خون پیتی ہیں۔
یرکوں میں یہ فوجیں کس کے بل پر جیتی ہیں
کس کی محنتوں کا پھل داشتائیں کھاتی ہیں
جھونپڑوں سے رونے کی کیوں صدائیں آتی ہیں
جب شباب پر آ کر کھیت لہلہاتا ہے
کس کے نین روتے ہیں
کون مسکراتا ہے
کاش تم کبھی سمجھو
کاش تم کبھی جانو
بائیس کروڑ انسانوں
سیاسی حالات اور تجزیوں سے ہٹ کر سوچیں تو صورتحال جس قدر دگرگوں ہے کہ اگر عمران خاں حکومت ذرا سی بھی زیرک ہو تو اسے نوشتہ دیوار پڑھ کر اپنے زوال کا اندازہ لگا لینا چاہیے۔ جب وہ حالات پر قابو پانے کی سکت نہیں رکھتے تو اقتدار سے الگ ہو جائیں۔ جن معاملات پر وہ اڑھائی سالوں میں قابو نہیں پا سکے، ان پر وہ آنے والے اڑھائی سالوں میں بھی کچھ نہیں کر سکیں گے۔ عمران خاں حکومت نے اپنے ترکش کا ہر تیر چلا لیا ہے۔ ان کے سب پوشیدہ راز ظاہر ہو چکے ہیں۔ ان ان کی پٹاری میں ایسا کوئی تیر بہدف نسخہ باقی نہیں بچا جس سے وہ قوم و ملک کی زبوں حالی کا علاج کر سکیں۔ اب تیسرا لفافہ کھولنے کا وقت ہے۔ انہیں تیسرا لفافہ کھول کر اپنی رخصتی کی تیاری کر لینی چاہئے۔ جنہوں نے لندن جانا ہے وہ وہاں جا کر زندگی بسر کرنے کی تیاری کریں اور جنہوں نے امریکہ کی فلائٹیں پکڑنی ہیں وہ وہاں کی بکنگ کروا لیں۔ وقت ہاتھ سے نکلنے سے پہلے ہی نشاندہی کر دی ہے تاکہ پھر وہ نہ کہیں کہ “ہمیں تو کسی نے بتایا ہی نہیں تھا”۔

Facebook Comments