شبِ نجات۔۔علینا ظفر

شبِ برات سے مراد نجات پانے کی رات ہے۔شب فارسی کا لفظ ہے جبکہ برات بری ہونے کو کہتے ہیں۔یعنی جن گناہوں کے بدلے اللہ تعالیٰ کے ہاں سزائیں رکھی گئی ہیں ان سے بری ہونے اور نجات حاصل کرنے کو برات کہا جاتا ہے۔یہ رات بہت مقدس ہے اور اس میں اللہ سبحان تعالیٰ کی رحمت بھی بڑے جوش میں ہوتی ہےکہ اس وقت جو شخص بھی سچے دل سے رب کے حضور اپنے گناہوں کی بخشش و معافی طلب کرے گا تو اللہ اسے معاف فرما دے گا۔

بے شک اللہ ہی ہر شے پہ قدرت رکھنے والا ہے۔اللہ تعالیٰ میزانیہ بنانے والا ہے جس کی قدرت نے دنیا کی ہر چیز کو ٹھیک اندازسے پیدا کیا۔یہاں میزانیہ سے مراد وہ میزان ہے جس کی بدولت اللہ نے کائنات کے سارے نظام میں توازن برقرار رکھا ہے۔ ماہِ شعبان کی پندرہویں شب اللہ رب العزت کے ہاں ایک طرح سےاس کا میزانیہ ہے جہاں پروردگار ِ عالم کی اپنی مخلوق کے لیے سالانہ منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ اس میں مخلوق کے لیے جو پیدائش، زندگی و موت، رزق،خوراک و قحط، جنگ و امن، بیماری و شفا اور دیگر معاملات سے متعلق تاریخ و وقت طے کیے جاتے ہیں وہ ہر سال پندرہ شعبان کو مقرر کیے جاتےہیں۔

نمازِ عشاء سے لے کر نمازِ فجرکے آغاز تک دنیا کے تمام مسلمان اس وقت پوری رات جاگ کر خصوصی طور پہ عبادت کا اہتمام کرتے اور اللہ سے اپنی معافی اور بخشش کی دعائیں مانگتے ہیں۔ رات کو جاگنا رسول اللہﷺ کی سنت ہے اور اسی سنت کو صوفیاء کرام نے بھی اپنایا۔ راتوں کو جاگ کر بزرگانِ دین نے اپنے لیے سوائے ہدایت کے کوئی بھی دنیاوی و مادی شے اللہ تعالیٰ سے طلب نہیں کی بلکہ رسول اللہ ﷺ کی روایت پر عمل کرتے ہوئے امت کے لیے دعائیں کی ہیں۔ ہمیں بھی رسول اللہﷺ کی سنت کو ٹھیک اسی طرح اپنانا ہے جیسے ان تمام معتبر ہستیوں نے اپنایا ہے۔

اسلام ہمیں یہ نہیں سکھاتا کہ محض ایک رات کو جاگ لیں۔ اسلام کہتا ہے کہ روز رات کو تھوڑی دیراللہ کے لیےضرور اٹھا کرو۔ ہم نے اس کو اپنی عادت بناتے ہوئے زندگی کی روزمرہ روٹین کا حصہ بنانا ہے۔ایک دن عبادت کر لیں باقی سارا سال سوتے رہیں یہ مشن نہیں ہے۔ جاگنے کی عادت ڈالیں کہ اللہ والے رات کو جاگتے ہیں۔

شبِ برات کے حوالے سے لوگوں نے بہت سی نئی روایات بنا لی ہیں جس کی اسلام میں کہیں کوئی گنجائش ،حوالہ یا ذکرسرے سے موجود نہیں ہے۔ہمارے ہاں اس دن کو مذہبی رسم کی بجائے فرسودہ رسم کے طور پہ منایا جاتا ہےہم دیکھتے ہیں کہ بازاروں میں بھی خریداری کو لے کر ایک الگ ہی سماں ہوتا ہے اور رشہ داروں میں خصوصی طور پہ تحفے تحائف بھی تقسیم کیے جاتے ہیں ۔ اگر کوئی اس رسم کے خلاف آواز اٹھانا بھی چاہے تو باقاعدہ جھگڑے جنم لیتے اور رشتہ داریاں ٹوٹنے کی نوبت بھی آتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔منفی رویوں کا تو یہاں تک حال ہے کہ جب آپ اس فضول رسم پر کسی کو قرآن و حدیث کا حوالہ دے کر روک ٹوک کرنا بھی چاہیں تو اس کے بدلے یہ طنزیہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ دینے کی بات آئی ہے تو تم لوگوں کو اسلام یاد آگیااور تمھیں ملنے جلنے کا طریقہ کار معلوم نہیں ہیں ۔

طریقہ تو ایک ہی ہےکہ طریقہء رسول ﷺکو اپناؤ۔ طریقہ رسول تو انتہائی سادہ زندگی ہے، بالکل سادہ رویہ ہے۔ شبِ نجات انتہائی برکت، فضیلت و اہمیت والی رات ہے۔خدارا! اس بابرکت دن کا یوں تقدس پامال نہ کیجئے کہ ہمارے مذہب میں تو حقیقتاً ایسی کوئی بات ہے ہی نہیں جن برائیوں کوہم نے خود سےجوڑا ہوا ہے۔منفیت سے بچیے خود منفیت پھیلا ئیں اور نہ ہی دوسروں کے ہاتھوں اس کا شکار ہو سکیں۔سنتِ رسولﷺ پہ چلیں بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں سنتِ رسولﷺ پہ چلیں۔جب سنتِ رسول پہ چلیں گے تو یہ تمام منفی سوچیں اور رویے ختم ہو جائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

استادِ محترم فرماتے ہیں کہ جب آدمی صحیح راستے کا مسافر نہیں رہتا تو آف شوٹس تلاش کرتا ہے۔بحیثیت مسلمان ہمیں آف شوٹس تلاش نہیں کرنے بلکہ اللہ اور رسولﷺ کی پوری بات ماننی ہے۔ اس دن کی مناسبت سے اصل چیز یہی ہے کہ اللہ سے معافی مانگی جائے۔ شب برات کوجو بھی عبادت کر لے ،اللہ سے توبہ کر لے، معافی مانگ لے تو اس رات کی برکت سے وہ بری ہو جاتا ہے کیونکہ اللہ پہلے آسمان پہ آتا ہے اور لوگوں کی دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے ۔ اللہ کے رسولﷺ نے اس سے متعلق ایک مسنون دعا بھی تعلیم فرمائی ہے اور وہ دعا ہے، “اے اللہ ! تجھے معاف کرنا بہت پسند ہے، تُو سب سے بہتر معاف کرنے والا ہےمیرے گناہ بھی معاف فرما۔ ” اللہ تعالی ہم سب کی اس مقدس اور برکت والی شب میں مانگی جانے والی توبہ و معافی قبول فرمائے، آمین۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply