جب آتش جواں تھا۔۔ناصر خان ناصر

پاکستان میں ایک زمانے میں فلمی انڈسٹری پر بہاریں تھیں۔ ہر شہر قصبے میں لاتعداد سینما گھر موجود ہوا کرتے تھے۔ نت نئی    شاندار فلمیں بنتیں اور کامیابی سے ہمکنار ہوتیں۔ خواتین گھریلو فلمیں دیکھنے جایا کرتیں اور زار و قطار روتے ہوئے نکلتیں۔
سینما گھروں میں فرسٹ، سکینڈ اور تھرڈ کلاس کی علیحدہ نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ تھرڈ کلاسیے خوب سیٹیاں اور اودھم مچاتے۔ فلم کی سکرین پر سکے اچھالے جاتے اور نیچے فرش پر خوب دھمالیں ڈالی جاتی تھیں۔

نوجوانوں کو فلم دیکھنے کا چسکا پڑ جاتا تھا۔ اسے معاشرتی برائی  سمجھا جاتا اور ان نوجوانوں کو اپنے دقیانوسی بزرگوں کی مار پیٹ اور گالیاں سننی پڑتی تھیں۔ ہمارے وقتوں میں یہی گھر گھر کی اور بچے بچے کی کہانی تھی۔ جیب خرچ میں ملنے والے دو دو آنے اور چونی اٹھنی جوڑ جوڑ کر اور اپنی گولک توڑ کر فلم کی ٹکٹ کے پیسے پورے کیے جاتے تھے۔

ایک نادر سینما راولپنڈی کے سیٹلائیٹ ٹاؤن میں بھی تھا۔ ہمارا گھر ان سے مخالف سمت میں مری روڈ کراس کر کے چاندنی چوک کی دوسری طرف چراہ روڈ پر تھا۔ کئی  بار ہم دوستوں کے ساتھ فلم دیکھنے گھر سے پیدل بھی وہاں چلے جاتے تھے۔

اس زمانے میں مری روڈ پر شہر کے چھ مشہور سینما ہال ہوا کرتے تھے۔ سنگیت، ریالٹو، گلستان، شبستان، موتی محل اور ناز سینما کے نام ابھی تک یاد ہیں۔ موتی محل کا ڈسکو گلوب اس زمانے میں دیکھنے کی چیز سمجھا جاتا تھا۔ گلستان سینما میں اس کے افتتاح کے کچھ ہی دنوں بعد آگ لگ گئی  تھی۔

ان کے علاوہ سٹی روڈ پر تاج محل، بینک روڈ پر کیپٹل، راجہ بازار میں روز سینما، رتہ امرال میں ناولٹی، لیاقت روڈ پر نشاط، مال روڈ پر اوڈین اور پلازہ نام کے سینما موجود تھے۔ لال کرتی میں تصویر محل، حیدر روڈ پر سیروز، ایکس ویسٹرج اور گریژن سینما ویسٹرج بھی تھے۔

ان سینماؤں پر فلموں کے بڑے بڑے قد آور بینرز پینٹ کر کے لگائے جاتے تھے۔ فلم کا نام اور ستارے ان پر “آج شب کو” کے ہمراہ لکھے ہوتے تھے۔
اسلام آباد میں واحد میلوڈی سینما تھا جو ملکہ ترنم نور جہان صاحبہ نے اعجاز صاحب کو بنوا کر دیا تھا۔

اس زمانے میں سینما ہی سب سے بڑی تفریح ہوا کرتے تھے۔ ساری دنیا فلمیں دیکھنے سینما ہالوں میں فیملی سمیت جایا کرتی تھی۔ فلم کے دوران ڈرنکس، مونگ پھلی، چلغوزے وغیرہ کھائے جاتے تھے۔ اچھی فلموں کی ٹکٹیں بلیک میں بکتی تھیں۔ کھڑکی توڑ ہفتے لگتے تھے۔

سینما کی بلیک کی ٹکٹیں بیچنا بھی ایک دھندا تھا اور بہت سے لوگ اسی دھندے سے اپنے ٹبر پال رہے تھے۔

اچھی فلموں اور ان میں اپنے کردار عمدگی سے ادا کرنے والوں کی دھومیں مچ جاتیں۔ فلمیں سلور، گولڈن، ڈائمنڈ اور پلاٹینم جوبلیاں مناتیں۔ اچھی اور مہنگی فلمیں ایک ہی شہر میں ساتھ ساتھ کئی  سینما ہاوسز میں بھی ریلیز کر دی جاتی تھیں تو باقاعدہ اشتہار لگائے جاتے کہ فلم پہلے فلاں سینما میں چلے گی۔

فلموں سے بے شمار لوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔ روپیہ گردش کرتا تھا اور لوگوں کو تفریح ملتی تھی۔ حکومت نے ٹیکس پر ٹیکس لگا کر اس انڈسٹری کو تباہ کر دیا۔ رہی سہی کسر ضیا الحق صاحب کی پالیسیوں، پنجابی لچر فلموں وغیرہ نے پوری کر دی۔ آہستہ آہستہ یہ ساری انڈسٹری ہی ڈوب گئی ۔ سارے سینما ہاوس توڑ دیے گئے یا مارکیٹس، شادی ہالز وغیرہ میں تبدیل کر دیے گئے۔

ان زمانوں میں گاؤں سے شہر آنے والوں کو شہر کی بتیاں اور کوئی  تازہ فلم دیکھنے کا بہت شوق ہوا کرتا تھا۔ ان کے لیے مالٹے کا رس پینا دوسرے نمبر پر ہوتا تھا۔

لگے ہاتھوں ایک مزےدار قصہ بھی سن لیجیے۔
ہم ایک بار پنڈی سے اپنے ماموں کے ہاں سمہ سٹہ گئے تو اس چھوٹے سے قصبے میں ہمارے تازہ فیشنوں کی بدولت ہماری دھوم سی مچ گئی ۔ ہمارے محترم کزن حالیہ بیرسٹر سپریم کورٹ جناب شاہد صاحب ہمیں وہاں کے اکلوتے تنبو سینما میں فلم دکھانے لے گئے۔

اس وقت تک وہاں کوئی  سینما نہیں بنا تھا۔ اس تبنو میں بھی فلم شاید پیڑھیوں چوکیوں اور ٹاٹ وغیرہ پر ہی بیٹھ کر دیکھی جاتی تھی۔
شاہد صاحب نے فرمایا کہ آپ کو تو اس شہر میں کوئی  نہیں جانتا، ہمیں کوئی  وہاں دیکھ لے گا تو شرمندگی ہو گی۔

لہذا انھوں نے پڑوس کی بڑھیا سے اس کا میلا سا سادہ برقعہ کسی حیلے بہانے سے منگوایا اور اندھیرا ہوتے ہی ہم لوگ چل پڑے۔ ہم نے سفید براق بیل باٹم ڈانٹ رکھی تھی اور کھٹ کھٹ کرتی اونچی ایڑی کی ہیل والی جوتی پہن کر اور بغل میں میلے سادے برقعے میں ملعوف و ملبوس سمٹے سمٹائے ہمارے پیارے کزن شاہد صاحب کے ہمراہ بازار کی سڑک سے گزرے تو جھمگٹے لگ گئے۔
اس دن اس قصبے میں شاید اتنی موشگافیاں ہوئیں کہ بقول شخصے ہم نے ساری دیواروں کو سرخ رنگ دیا۔

تنبو سینما میں ہمیں کسی گھر سے ترنت منگوائے موڑھوں پر بٹھایا گیا اور حاضرین و ناظرین باتمکین نے فلم سے زیادہ مڑ مڑ کر ہمیں دیکھا اور کھسر پسر فرمائی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

چند برس قبل پیارے شاہد بھائی  اقوام متحدہ کے کسی اجلاس میں تقریر کرنے پاکستان سے تشریف لائے تو ہماری ہمشیرہ محترمہ سے ملنے کے لیے اٹلانٹا جانے کا وقت بھی نکال لیا۔ وقت کی کمی کی بنا پر ان کے لیے نیو اورلینز آنا ممکن نہیں تھا تو ہم اور ہماری بیگم صاحبہ ترنت فلائی  کر کے ان سے ملنے اٹلانٹا پہنچ گئے۔ یہی پرانے یادگار قصے چھیڑے گئے تو یادیں ہمیں اڑا کر ان پرانے دنوں میں واپس لے گئیں جب آتش جواں تھا۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply