• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • “وبائی صورتحال میں طبی ماہرین کی ہدایات اور ہماری شرعی ذمہ داریاں”۔۔ڈاکٹر محمد عادل

“وبائی صورتحال میں طبی ماہرین کی ہدایات اور ہماری شرعی ذمہ داریاں”۔۔ڈاکٹر محمد عادل

وبائی صورتحال میں طبی ماہرین  کی ہدایات اور ہماری شرعی ذمہ داریاں[1]

اسلام  آخری  آسمانی دین  ہے ،یہی وجہ ہے کہ اس  کو اللہ تعالیٰ نے ایسا مکمل اور فطرت کے مطابق بنایا کہ 14  صدیاں  گزرنے کے باوجود  بھی اس کے  احکامات قابل عمل  ہیں۔ انسان کو چاہے جیسے بھی حالات درپیش ہوں، خوشی ہو یاغم ،امن ہو یا جنگ، صحت ہو یا بیماری اسلام انسان کو مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات نہ صرف قرآن کریم کی شکل میں محفوظ ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعد صحابہ ؓنے عملی طور پر اسے سمجھا بھی دیا ہے۔ لہٰذا بحیثیت مسلمان کسی بھی   صورتحال میں ہمیں سب سے پہلے علما  سے رہنمائی لینی چاہیئے  کہ شریعت کا حکم کیا ہے اور اس کا عملی نفاذ کس طرح ممکن ہوگا۔ زیرِ نظر آرٹیکل میں وبائی صورتحال میں شرعی احکامات کا جائزہ لیا گیا ہے اور یہ بھی جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ حکومت کو کس حد تک اختیار حاصل ہے اور حکومتی احکامات کے حوالے سے شرعی طور پر عوام کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟

وبا کے دوران طبی ماہرین کی تجویز کردہ احتیاطی تدابیرپر عمل کرنا

وبا  وبیماری علمِ طب کے مضامین میں سے  ہے ،لہٰذا ایسے مواقع پر  شریعت  پہلے طبی ماہرین سے رجوع کرنے کا حکم دیتی ہے پھر علما  ان کی ہدایات و تجاویز کی روشنی میں فتویٰ دیں گے۔ فقہ اسلامی میں اس کے بے شمار نظائر موجود ہیں ، جیسے رمضان میں   بیماری کی صورت میں  روزہ چھوڑنا تب جائز ہوگا جب  ماہر  طبیب کہے کہ روزہ رکھنا مضرِ صحت ہو سکتا ہے[2]۔ایک حدیث مبارک میں بھی  ایسے معاملات میں  ابتداً  مفتی کی بجائے ماہرین سے مشورے کااشارہ ملتا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو  وہاں کے کسان کھجور کے مادہ درختوں میں نر کا پیوند لگاتے تھے۔رسول اللہ ﷺ نے ان کو ایسا کرنے سے منع  فرمایا ،لیکن جب رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہوا کہ اس  سے کجھور کی  افزائش کم ہوگئی ہے، تو انہوں نے فرمایا:

أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ[3]    ترجمہ: تم اپنے دنیوی امور سے خوب واقف ہو۔

جہاں شرعی امور میں ابتداً ہی علما  کی طرف رجوع کیا جاتا ہے وہی دنیوی امور میں ماہرین کی ہدایات کی روشنی میں علما  و مفتیان شرعی رہنمائی کریں گے۔لہٰذا مذکورہ بالا دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ وبا کے  متعلق طبی ماہرین  کا  فیصلہ حجت مانا جائے گا۔

یاد رہے کہ شریعت کی  حدود کے اندر  حاکم (حکومت وقت)کی اطاعت  شرعاً ہر مسلمان پر واجب ہے،مسند احمد کی روایت ہے:

ترجمہ: مسلمان پر امیر کی اطاعت واجب ہے،خواہ اس کو پسند ہو یا ناپسند[4] ۔

وبا  کے اوقات میں  طبی ماہرین کی طرف جاری کردہ  احتیاطی تدابیر (SOPs) کو جب حکومت  وقت  نافذ کریں ، تو ان  پر شریعت کی  حدود کے اندر عمل لازم ہے۔ وبائی صورتحال میں حکومت اگر طبی ماہرین  کے مشورے سے کسی جائز چیز پر بھی پابندی لگائیں ،تو  اس  چیز کی خرید و فروخت اور استعمال  ناجائز ہو جائے گا ۔ دور حاضر کے مشہور  فقیہ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی  دامت برکاتہم لکھتے ہیں:

“اسلامی شریعت  نے حکومت وقت کو یہ اختیار دیا ہے کہ کسی عمومی مصلحت کے تحت کسی ایسی چیز یا ایسے فعل پر پابندی عائد کر سکتی ہے جو بذات خود حرام نہ ہو بلکہ مباحات میں سے ہوں،لیکن اس سے کوئی اجتماعی خرابی لازم آتی ہو۔جیسے فقہاء نے لکھاہے کہ   ہیضہ کی  وباء کے وقت  حکومت خربوزہ کھانےاور بیچنے کو ممنوع  قرار دے  تو اس وقت خربوزہ کھانا اور بیچنا ممنوع ہوجائےگا[5]“۔

طبی ماہرین  کی طرف جاری کردہ احتیاطی تدابیر دو قسم کی ہوسکتی ہیں ،ایک انفرادی احتیاطی تدابیر جن کا تعلق فرد کے ساتھ ہو اور دوسرے اجتماعی عبادات سے متعلق احتیاطی  تدابیر ۔طبی ماہرین   ایسی پابندیاں تجویز کریں جو   عبادات کی روح کے منافی نہ ہو اور علما  شرعی طور اس کو جائز سمجھتے ہوں ،تو ان  پابندیوں کا خیال رکھنا  شرعاً بھی لازم ہوگا  اور ان پابندیوں  کی خلاف ورزی شرعاًٍ وقانوناً جرم تصور ہوگا ۔

انفرادی احتیاطی تدابیر  میں مصافحہ  ومعانقہ، بلاضرورت گھر سے نکلنے ،اور  افراد  کے درمیان فاصلہ رکھنے وغیرہ کے حوالے سے اسلامی    کتب   کے ذخیرہ میں مثالیں موجود ہیں،جیسے صحیح مسلم کی روایت ہے:

ترجمہ:وفد ثقیف میں ایک جذامی شخص  تھا(بیعت کے لئے آیا تھا)،رسول اللہ ﷺ نے  اسے پیغام بھیجا کہ ہم نے تجھے بیعت کردیا ہے ، لہٰذا واپس چلے جاؤ[6]۔

اس حدیث مبارک  میں بیمار سے دور رہنے کے حوالہ سے ہدایت موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے آنے سے پہلے واپس جانے کے احکامات جاری کئے۔اسی طرح  یہ بات بھی ثابت ہوتی ہیں کہ  کسی موذی بیماری میں مبتلا لوگوں کو آبادی سے الگ ہونے کا حکم دیا جاے گا[7]۔لہٰذا حکومت کو بجا طور پر انفرادی پابندیوں کے ذریعے نقل وحرکت محدود کرنے،بیمار کوآبادی سے الگ رکھنےوغیرہ  کا اختیار حاصل ہے۔

اسی طرح اجتماعی عبادات جیسے حج ، عمرہ ،جماعت اور جمعہ کی نماز کے حوالے سے طبی ماہرین  ایسی پابندیاں  تجویز کرسکتے ہیں ،جو شرعاً قابل عمل ہوں ۔پہلے بتایا گیا ہےکہ اسلام دینِ فطرت  ہے اور مختلف  حالات میں اس کے احکامات میں گنجائش رکھی گئی ہے،لہٰذا مخصوص  حالات میں باجماعت نماز چھوڑنے اور جمعہ کی شرائط میں رخصت  کی مثالیں   علماء وفقہاء نے  کتب میں بیان فرمائی ہیں،جیسےبارش میں گھروں پر نماز کا پڑھنے کی اجازت دی گئی،جبکہ  صحیح  البخاری کی روایت ہے:

ترجمہ:جو  اس بدبودار  درخت میں سے کھائے،تو وہ  مسجد میں نہ آئے [8]۔

اس حدیث  مبارک میں  انسانوں اور فرشتوں کو ایذاء سے بچانے کے لئے بدبودار اشیاءکھانے کے بعد باجماعت نماز کے لئے مسجد میں آنے سے منع کیا گیا ہے۔  مریض یا ایسے افراد جو لوگوں کے تکلیف کا باعث  بنے، بھی اس حدیث کے عموم میں داخل ہیں، جیسے علامہ عینیؒ فرماتے ہیں:

ترجمہ: اسی طرح اس کے ساتھ بعض ائمہ نے اس کو بھی شامل کرتے ہیں جس کے منہ سے بدبو آتی ہو یا  جسے بدبودار زخم لگا ہو۔اسی طرح قصاب، مجذوم اور کوڑی والا بھی بطریقہ اولی اس کے ساتھ شامل ہیں[9]۔

بلکہ بعض فتاویٰ میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ  مسجد کی کمیٹی یا دیگر لوگ بھی ایسے مریضوں وغیرہ کو مسجد میں داخلہ سے روک سکتے ہیں ،جیسے کفایت المفتی میں ہے :

“ان صورتوں  میں خود مجذوم پر لازم ہے کہ وہ مسجد میں نہ جائے اور جماعت میں شریک نہ ہو، اور اگر وہ نہ مانے تو لوگوں کو حق ہے کہ وہ اسے دخولِ مسجد اور شرکتِ جماعت سے روک دیں اور اس میں مسجد محلہ اور مسجد غیر محلہ کا فرق نہیں ہے، محلہ کی مسجد سے بھی روکا جاسکتا ہے تو غیر محلہ کی مسجد سے بالاولی روکنا جائز ہے[10]“۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ محض بدبو کی وجہ سے لوگوں کو ایسے شخص کو  مسجد سےروکنے کا حق ہے ،تو  وباء کی صورت میں جب دوسرے لوگوں کی صحت و زندگی  کو خطرہ بن سکتا ہو اور طبی ماہرین بھی منع کرتے ہوں،تو حکومت   کو ایسی  صورت میں پابندی کا حق بطریق اولیٰ حاصل ہے اور خود وباء سےمتأثرہ شخص کا بھی قومی و مذہبی فرض بنتا ہے کہ مسجد نہ آئے۔

مندرجہ بالا  دلائل سے یہ واضح ہوگیا کہ اجتماعی عبادات کے حوالے سے طبی ماہرین کی پابندیاں اگر شرعاً صحیح ہو تو اس پر عمل لازم ہے،مثلاً خاص حالات میں  جمعہ  کی نماز جامع مسجد کی بجائےعوامی مقامات جیسے   حجروں وغیرہ میں  پڑھنے کے جواز  پر علماء کا اتفاق ہے  کہ امام کے علاوہ تین  افراد بھی ہوں تو جمعہ پڑھنا جائز ہے، توصحت عامہ کے خطرے کی پیش نظر طبی ماہرین  کی ان ہدایات پر  عمل قومی و دینی  ذمہ داری ہے۔یہی حکم باجماعت نماز و تراویح وغیرہ  کا بھی ہے  لہٰذا  ان عبادات سے متعلق بھی ماہرین کی طرف سے تجویز کردہ پابندیوں پر عمل  لازمی ہے۔

وبا سے نمٹنے کے لئے اسلام کی رہنمائی

کسی بھی وبا  اورمرض کی صورت میں اسلام دو طرح سے انسانیت کی رہنمائی کرتا ہے ۔ایک طریقہ  روحانی ہے کہ جس میں گناہوں سے توبہ اور ان  مسنون دعاؤں اذکار و اوراد کا پڑھنا جو کتب حدیث میں  جا بجا منقول ہیں۔ دوسرا طریقہ علاج اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا ہے۔

امراض چاہے وبائی یا غیر وبائی اسلام نے  علاج و دوا  کے ذریعے اس کے تدارک کی تلقین کی ہے،جیسے ایک موقع پر ایک اعرابی کا علاج و دوا کے متعلق دریافت کرنے پر رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

ترجمہ:دوا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت کے سوا ہر بیماری کے لئے دوا پیدا کی ہے[11]۔

اسی طرح ایک صحیح البخاری کی روایت میں ہے۔

ترجمہ: مجذوم سے اس طرح بھاگو ،جس طرح تم شیر سے بھاگتے ہو[12]۔

حافظ ابن حجر اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:

ترجمہ: یہ حکم امر طبعی یعنی مرض کا ایک جسم سے دوسرے جسم  میں لمس ، اختلاط یا  سونگھنے کے ذریعہ منتقل ہونے  کی وجہ سے دیا گیا کیونکہ اکثر امراض میں عادۃ  ایساہوتا ہے کہ کثرت اختلاط کی وجہ سے  بیماری مریض سے صحت مند انسان میں منتقل ہو جاتی ہے[13]۔

اسی طرح  ایک اور حدیث میں یہی بات جانوروں کے  متعلق بیان فرمائی :

ترجمہ: بیمار جانور کو صحت یاب کے پاس نہ لایا جائے[14]۔

بظاہر تو یہ حدیث جانور وں کے متعلق ہے ،لیکن اس سے امراض میں تعدی کا ہونا اور اس سلسلے میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔پھر خا ص طور وبا کے متعلق تو بالکل واضح حدیث  وارد ہوئی ہےکہ صحت عامہ کے پیش نظر اور وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے واضح الفاظ میں ہدایات دی گئی،رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

ترجمہ: جس شہر میں طاعون پھوٹ پڑا ہو، وہاں مت جاؤ، اوراگر پہلے سے اس شہر میں ہوں، تو وہاں سے باہر نہ جاؤ[15]۔

اس حکم کی حکمت یہی ہے کہ وبا اس علاقہ تک محدودرہے اور اس سے باہر نہ جائے اسی طرح باہر کے آدمی  کواس علاقے میں داخل ہوکرخود  کو ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا گیا ہے۔علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں کہ  جب وبا سے متاثرہ لوگوں کی تعداد بڑھ جائے تو ان کے لئے آبادی سے الگ ایک جگہ  مختص کی جائے  ،البتہ  ان کے ضروریات زندگی سے ان کو روکا نہیں جا سکتا [16]۔

مذکوہ بالا حدیث اور اس کی تشریح سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وبا کے شکار لوگوں کی تعداد محدود ہو تو ان کو الگ ایک جگہ  قرنطینہ  کیا جائے گا اور اگر وبا نے  پوری آبادی کو لپیٹ میں لے لیا ہو ،تو اس جگہ کا لاک ڈاؤن کرنا اور وہاں داخل ہونے اور وہاں سے باہر نکلنے پابندی لگانا  بھی اسلامی تعلیمات میں شامل ہے ، البتہ  یہ بات مدنظر رکھا  جائے گا کہ قرنطینہ اور لاک ڈاؤن دونوں صورتوں میں  ان  لوگوں کو ضروریات زندگی  کی فراہمی  یقینی بنائی جائے۔

نتائج

  • دیگر حالات کی طرح وبا کے وقت بھی شریعت اسلامی بھرپور رہنمائی فراہم کرتی ہے اور اس کے احکامات پر عمل کرکے اخروی نجات کے ساتھ وبا کے نقصان اور پھیلاؤ کو محدود کیا جاسکتا ہے۔
  • وبا ایک طبی معاملہ ہے لہٰذا اس میں طبی ماہرین کی آراء کو مدنظر کر فتویٰ جاری کیا جائے گا۔
  • حکومت کی طرف سے ایسے احکامات جو شریعت کے اصولوں سے متصادم نہ ہو ،ان پر عمل نہ کرنا شرعاً و قانوناً جرم ہے۔

[1]               وبائی صورتحال میں آئسولیشن،لاک ڈاؤن اور دیگر پابندیوں و حفاظتی تدابیر سے متعلق راقم کا ایک آرٹیکل

طاعون عمواس  سے  وبائی صورتحال میں رہنمائی” کا لنک:

[2]               البحر الرائق، محمد، 2: 307

[3]               صحیح مسلم، کتاب الفضائل،، حدیث نمبر:2363

[4]               مسند احمد ،  حدیث نمبر:4668

[5]               اسلام اور جدید معیشت وتجارت ،ص41

[6]               صحیح مسلم، کتاب السلام، حدیث نمبر:2231

[7]               ٍٍٍ المنہاج،14 :228

[8]               ٍٍٍ ٍصحیح البخاری، کتاب الاذان، حدیث نمبر:853

[9]               ٍٍٍ عمدۃ القاری،6: 146،

[10]             ٍٍٍ کفایت المفتی،3: 138، دار الاشاعت،کراچی

[11]             ٍٍٍ سنن ابی داؤد ، کتاب  الطب ، باب فی الرجل یتداوی، حدیث نمبر :3855

[12]             ٍٍٍ صحیح  البخاری، کتاب  الطب،  باب   المجذوم ،حدیث نمبر :5707

[13]             ٍٍٍ فتح الباری، ابن حجر احمد بن علی العسقلانی، 10: 160، دار المعرفۃ ، بیروت، 1379ھ

[14]             ٍٍٍ صحیح  البخاری، کتاب  الطب،  باب  لا ہامۃ  ،حدیث نمبر :5771

[15]             ٍٍٍ صحیح  البخاری، کتاب احادیث الانبیاء،  باب   حدیث الغار ،حدیث نمبر :4373

Advertisements
julia rana solicitors

[16]             ٍٍٍ المنہاج ،یحییٰ بن شرف النووی، 14: 228،دار احیاء التراث العربی ، بیروت،1392ھ

Facebook Comments

ڈاکٹر محمد عادل
لیکچرار اسلامک اسٹڈیز باچا خان یونیورسٹی چارسدہ خیبر پختونخوا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply