گلاب سنگھ کے بھائی دھیان سنگھ بھی لاہور دربار میں بااثر تھے۔ رنجیت سنگھ نے انہیں بھمبر، چبل اور پونچھ کی جاگیریں 1827 میں تحفے میں دی تھیں۔ 1828 میں یہ وزیرِ اعظم بنا دئے گئے۔ اور پھر ان کا عہدہ راجائے راجگاں (راجوں کا راجہ) قرار پایا۔ تیسرے بھائی سچیت سنگھ بھی اہم درباری تھے۔ دھیان سنگھ کے بیٹے ہیرا سنگھ رنجیت سنگھ کو بہت پسند تھے۔
جب رنجیت کی وفات ہوئی تو یہ فیملی تختِ لاہور کی سب سے زیادہ بااثر فیملی تھی۔ یہ وقت سکھ سلطنت کے لئے عدم استحکام کا تھا۔ تینوں بھائیوں کے پاس جموں اور پنجاب میں پچاسی جاگیریں تھیں۔ رنجیت سنگھ کی ایک تہائی آمدنی یہاں سے آتی تھی۔
رنجیت کی وفات کے بعد گلاب سنگھ نے مزید فوجی توسیع جاری رکھی۔ اس سے پہلے چین اور تبت کی فوج نے ان سے لداخ چھین لیا تھا۔ گلاب نے 1842 میں اسے واپس حاصل کر لیا۔ بلتستان اور گلگت میں ملٹری بھیجی۔ تبت پر حملہ کیا۔ تبت مشکل چیلنج تھا۔ شروع میں گلاب سنگھ کے جنرل جنرل زورآور سنگھ (جو ہندو راجپوت تھے) نے تبت میں کامیابی حاصل کی۔ اور سکھ سلطنت تبت میں گارتوک تک پہنچ گئی۔ یہ نیپال کے قریب اہم مقام ہے جہاں سے دریائے سندھ، ستلج، کرنالی، برہم پترا شروع ہوتے ہیں۔ تبت والوں نے اکٹھا ہو کر اور مضبوط چینی آرمی سے مدد لے کر اپنے علاقے سے بہت دور آ جانے والے جنرل زورآور کو شکست دی۔ چینی فورس لیہہ تک پہنچ گئی۔ اس وقت برطانیہ چین سے صلح کا معاہدہ کرنا چاہ رہا تھا۔ گلاب سنگھ کی چین کے ساتھ مزید لڑائی برٹش انڈین آرمی کی توجہ حاصل کر سکتی تھی، اس لئے جنگ بندی کیلئے برٹش دباوٗ بھی تھا۔ ڈوگرا فوج نے مزید جنگ نہیں کی۔ لیکن بعد میں ڈوگرا آرمی نے چینی افواج کو لداخ سے نکال دیا۔ سکھ، ڈوگرا، چین اور تبت کے درمیان اہم معاہدہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں گلاب سنگھ کو تبت میں جاگیر ملی۔ تبت اور کشمیر کے درمیان تجارتی روابط پر فیصلہ ہوا۔ اس جنگ بندی کو بہت واضح الفاظ میں نہیں لکھی گیا تھا۔ اور علاقے کی حدبندی نہیں کی گئی تھی۔ چین اور انڈیا کے درمیان آج اکسائی چن کے تنازعے کی بنیاد 1842 کا یہ معاہدہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد سکھ دربار میں دھڑے بن گئے۔ دھیان سنگھ اور گلاب سنگھ اس میں طاقتور تھے۔ دونوں بھائیوں کا آپس میں اتفاق نہیں رہا تھا کہ کس کی حمایت کی جائے۔ رنجیت کے آٹھ بیٹے تھے۔ سب سے پہلے کھڑک سنگھ 1839 میں حکمران بنے اور نومبر 1840 تک رہے۔ ان کے بعد ان کے بیوی مہارانی چاند کور نے خالصہ کا اقتدار سنبھالا۔ دو ماہ بعد ان کی جگہ رنجیت کے دوسرے بیٹے شیر سنگھ بنے۔ دو سال رہے۔ اس کے بعد چھ سالہ دلیپ سنگھ جس کے پیچھے عملاً ان کی والدہ مہارانی جندن کور تھیں۔ جن کے پیچھے حمایت سکھ فوج خالصہ دل کی تھی۔
اس دوران گلاب سنگھ نے چاند کور کی حمایت کی۔ ان کے خلاف دھیان سنگھ کی حمایت سے شیر سنگھ نے فوج کشی کی۔ لاہور کے دو ماہ کے محاصرے میں گلاب سنگھ نے بڑی دلیری سے مہارانی کی حفاظت بھی کی اور ساتھ ہی موقع دیکھ کر سکھ خزانے کو خالی کر دیا۔ جموں کو روپوں اور چاندی سے لدی سولہ گاڑیاں روانہ ہوئی۔ پانچ سو گھڑ سوار سونے کی مہروں کے تھیلوں کے ساتھ جموں گئے۔
اس لوٹ مار کی وجہ سے سکھوں نے جموں پر 1844 میں حملہ کیا۔ گلاب قیدی بنا لئے گئے لیکن فرار ہو گئے۔ اور جموں سے بیٹھ کر سکھ سلطنت کو گرتے ہوتے دیکھتے رہے۔
گلاب سنگھ کو ایک اور فائدہ یہ تھا کہ ان کے برٹش سے پرانے اور اچھے تعلقات تھے۔ جلال آباد محاصرے کے دوران جب برٹش نے سکھوں سے مدد مانگی تھی تو خالصہ سرکار نے گلاب سنگھ کو پشاور سے بھجوایا گیا تھا اور اس دوران گلاب سنگھ کی ہنری لارنس سے بہت اچھی دوستی ہو گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برٹش نے گلاب سنگھ کو جلال آباد دینے کی پیشکش کی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ گلاب کا سفاکانہ طریقہ اس علاقے کے لئے موزوں رہے گا۔ برٹش کا دوسرا خیال یہ تھا کہ جلال آباد لینے کے بعد گلاب سنگھ لداخ میں چین کو تنگ کرنے سے باز رہیں گے۔ گلاب نے انکار کر دیا۔ ان کی دلچسپی جموں، کشمیر، لداخ اور سنکیانگ کے علاقے میں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رنجیت سنگھ کے بعد ہونے والی تخت کے لئے خانہ جنگی کو برٹش غور سے دیکھ رہے تھے۔ وہ اب پنجاب پر جھپٹنے کے لئے تیار تھے۔ سنگھ برادران اور ہیرا سنگھ اس کھیل کے اہم کھلاڑی تھے۔ دھیان، سچیت اور ہیرا نے سکھ خانہ جنگی میں غلط سائیڈ کا انتخاب کیا۔ دھیان 1843 میں مارے گئے۔ اس کے بعد ہیرا اور پھر سچیت۔ گلاب سنگھ بچ گئے۔
گلاب سنگھ کیلئے ان کے بھائیوں اور بھتیجے کی موت خوش قسمت رہی۔ سچیت کی اولاد نہیں تھی۔ سچیت کا رام نگر کا علاقہ بھی ان کے حصے میں آیا اور دھیان سنگھ کے علاقے پر بھی قبضہ کر لیا۔ گلاب سنگھ جانتے تھے کہ سکھ سلطنت کمزور پڑ چکی ہے۔ 1845 میں گلاب سنگھ نے سکھوں سے اپنا تعلق ختم کر دیا۔ انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے معاہدہ کر لیا کہ وہ اینگلو سکھ جنگ سے لاتعلق رہیں گے۔
گلاب سنگھ 1846 میں برٹش کے پسندیدہ بن چکے تھے۔ گلاب نے سکھوں کے بارے میں انفارمیشن حربے برٹش سے شئیر کیں۔ اینگلو سکھ جنگ میں ان کی عدم شمولیت نے برٹش آرمی کو بہت فائدہ پہنچایا۔ اس نے نہ صرف پنجاب کی بلکہ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ بھی کر دیا۔
(جاری ہے)
ساتھ لگی تصویر جنرل زورآور سنگھ کا خاکہ ہے۔ بلتستان اور لداخ فتح کرنے کے علاوہ تبت میں فتوحات سے شہرت پائی۔ ان کی فتوحات نے جموں و کشمیر کے نقشے کو تشکیل دی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں