ننگے پاؤں چلنے والو۔۔نذر حافی

پنجاب پاکستان کا ایک منفرد صوبہ ہے۔ اسے بڑے دماغوں کی دھرتی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی ایک یونیورسٹی (پنجاب یونیورسٹی) سے چار وزیراعظم، دو نوبل انعام یافتہ سائنسدان (ڈاکٹر عبدالسلام، ہرگوبند کھرانہ) اور ان گنت سیاستدان، ادیب، شاعر، صحافی اور نامور لوگ نکلے۔ اس منفرد صوبے کا دِل اس کا ضلع جھنگ ہے۔ جھنگ پنجاب کے وسط میں واقع ہے۔ اس کی چار تحصیلیں جھنگ، شورکوٹ، احمد پور سیال اور آٹھارہ ہزاری ہیں۔ 1288ء میں جھنگ کا پہلا شہر آباد ہوا۔ یہ شہر ایک ولی خدا حضرت شاہ جلال بخاری کے حکم سے بسایا گیا، پھر یہ شہر اولیائے کرام کی محبت کے ساتھ ساتھ پھلتا پھولتا گیا۔ یہاں ہیر رانجھا جیسی صوفیانہ اور عارفانہ داستان پروان چڑھی، یہیں مرزاں صاحباں جیسا صوفیانہ قصہ تخلیق ہوا، اسی کی مٹی میں پیر تاج الدین اٹھارہ ہزاری جیسے ولی آسودہ خاطر ہیں۔

آج اس کی آبادی پچاس لاکھ سے تجاوز کر رہی ہے۔ البتہ یہاں اگر پانچ دریا پانی کے بہتے ہیں تو چھٹا دریا جہالت کا بھی رواں دواں ہے۔ بڑے بڑے دماغوں کی زرخیز سرزمین پر پِستہ قامت اور موذی حشرات الارض بھی پائے جاتے ہیں۔ اگر یہ فنکاروں، ہنرمندوں، صوفیائے کرام، سائنسدانوں، شعراء اور ادباء کی سرزمین ہے تو انسان کُش درندوں کے بِل بھی اسی سرزمین پر پائے جاتے ہیں۔ اگر یہاں صوفیائے کرام نے انسانیت کو بچانے کے لئے پریم کے دیپ جلائے ہیں تو یہیں پر انسان کُش درندوں نے خون کے دریا بھی بہائے ہیں۔ آپ دِل تھام کر یہ کالم پڑھئے اور جان لیجئے کہ اگر پنجاب کا دل جھنگ ہے تو جھنگ کا دل شورکوٹ ہے۔ شورکوٹ حضرت سلطان باہو کی جنم بھومی اور مقامِ وصال بھی ہے۔ یہاں متعدد اولیائے کرام کے مزارات ہیں۔ میلے، جشن اور عرس یہاں کی زندگی کا معمول ہیں۔

دو روز پہلے یہاں کی ثقافت کے مطابق ایک عرس تھا۔ اس عرس میں لیاقت بھولی نامی ایک شخص نے کلہاڑی کے پے در پے وار کرکے ایک دوسرے آدمی کو تکہ بوٹی کر دیا۔ یہ واقعہ دن دیہاڑے، ایک میلے کے دوران سرِعام رونما ہوا۔ قابلِ ذکر ہے کہ پنجاب کی سرزمین پر ایسے وحشتناک قتل معمول ہیں۔ یاد رہے کہ گلے کاٹنے، مسافر بسوں پر شبخون مارنے، جلوسوں اور گھروں پر پتھر پھینکنے، لاشوں کا مُسلہ کرنے اور مذہبی منافرت کی آڑ میں ٹارگٹ کلنگ یا خنجر اور کُلہاڑی سے مارنے کے واقعات جہاں بھی ہوتے ہیں، ان کے پیچھے بڑے بڑے دماغ بیٹھے ہوتے ہیں۔ اب ہم اربابِ اقتدار سے کیا اپیل کریں! ہم نے پولیس سے کیا شکوہ کرنا ہے! ہم فوج کو کیا بتائیں کہ قاتل کون ہے! ہم خفیہ ایجنسیوں کو کیا نشاندہی کریں کہ ایسے واقعات کے پیچھے خفیہ ہاتھ کون سا ہے!؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم تو عوام النّاس سے بات کیا کرتے ہیں، عوام سے آج بھی بس اتنی سی عرض ہے کہ جس مُلک میں اُس مُلک کے بانی کو کافر کہنے والے ہر مقتدر ادارے کے اندر موجود ہوں، جس ملک میں اس ملک کے بانی کے مزار کے شہر میں ریلیاں نکال کر اُس کے عقیدے کی توہین کی جاتی ہو اور جس مُلک میں اُس مُلک کے بانی کی ریزیڈنسی کو اُڑا دینے والے شریکِ اقتدار ہوں، اُس ملک میں ہندووں کے مندر، عیسائیوں کے چرچ، اولیائے کرام کے مزارات، بچوں کے سکول، کاروباری مراکز اور عرس و میلے کبھی بھی محفوظ نہیں رہ سکتے۔ عوام النّاس سے ہماری مودبانہ درخواست ہے کہ عقل سے پیدل ہو کر ننگے پاوں سفر نہ کیا کریں۔ جس مکان میں موذی حشرات الارض گھسے ہوئے ہوں، اُس کے مکین ننگے پاوں نہیں چلا کرتے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply