اسماعیلی اور ان کے فرقے(1)۔۔لیاقت علی ایڈووکیٹ

مسلمانوں کی تجارت پیشہ برادریوں میں اسماعیلی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے مختلف فرقے (برصغیر کے تناظر میں بوہرے اور آغا خانی) اپنے مخصوص دینی عقائد، منفرد سماجی تنظیم، رواداری اور معاشی و معاشرتی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لینے کے باعث خصوصی مطالعہ کے مستحق ہیں۔اسماعیلی کمیونٹی زیادہ تر جنوبی ایشیا، شام، سعودی عرب، یمن، چین، تاجکستان، افغانستان اور مشرقی افریقہ میں رہتی ہے۔

پچھلے کچھ سالوں سے اسماعیلی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد کاروبار اور روزگار کی تلاش میں یورپ اور شمالی امریکہ میں بھی بس گئے ہیں۔ حتمی طور پر تو نہیں کہا جا سکتا کہ دنیا بھر میں اسماعیلیوں کی کُل کتنی تعداد ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق دنیا کے چالیس سے زائد ممالک میں موجود اسماعیلیوں کی تعداد ڈیڑھ سے دو کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔

پاکستان میں اسماعیلی کمیونٹی (جو دادؤی بوہروں اور نزاری آغا خانی خوجوں میں منقسم ہے) کی کل کتنی آبادی ہے؟ اس بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے اور اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ خود کمیونٹی کی طرف سے اس حوالے سے کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کئے جاتے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسماعیلی پاکستان کی کُل آبادی کا چھ فی صد ہیں، جب کہ اس تعداد سے اختلاف رکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی آبادی چھ لاکھ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کمیونٹی کی اکثریت تجارت، صنعت، بینکنگ، انشورنس، میڈیسن اور سیاحت کے علاوہ معاشی زندگی کے متعدد شعبوں سے وابستہ ہے۔ پاکستان کی معیشت کے مختلف شعبوں میں اسماعیلیوں کا حصہ اپنی آبادی کے تناسب سے بہت زیادہ ہے۔

اسماعیلی تحریک کی ابتدا، ارتقا اور اس کے پھیلاؤ کے بارے میں ایک سے زائد نکتہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ وہ محقق اور مورخ جو تاریخ کے سازشی نظریے پر یقین رکھتے اور اسلام کو خالص عربی روایات میں محدود دیکھنا چاہتے ہیں، اسماعیلی تحریک کو ’’اصل اسلام‘‘ کے خلاف ’’عجمی سازش‘‘ قرار دیتے ہیں، لیکن محققین کا وہ گروہ جو تہذیبوں اور ثقافتوں کے باہمی تال میل سے مذہب پر مرتب ہونے والے اثرات کو ایک بدیہی حقیقت سمجھتا ہے، اسماعیلی تحریک کو جزیرہ نمائے عرب سے باہر شمال اور جنوب مغربی افریقہ، ایران، وسطی ایشیا اور ایشیا کوچک کے ممالک میں اسلام کے پھیلاؤ کا لازمی نتیجہ خیال کرتا ہے۔

مسلمان عربوں کے ہاتھوں مفتوح ہونے کے بعد چند ہی عشروں میں ان خطوں کے عوام نے سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشی وجوہات کی بنا پر جوق در جوق اسلام قبول کر لیا تھا۔ تاہم قبول اسلام کے اس عمومی رحجان کے برعکس بعض صورتوں میں تبدیلی مذہب کا یہ عمل تقریباً ایک صدی تک جاری رہا۔

نسلی اور ثقافتی اعتبار سے متنوع قبائل اور گروہوں کے قبول اسلام نے کثیر الجہتی سیاسی چیلنجوں اور فکری رحجانات کو جنم دیا۔ متنوع ثقافتوں اور نسلوں کے باہمی اختلاط اور اقتدار کے حصول کی کشمکش کے نتیجے میں مسلمانوں میں جو اختلافات پیدا ہوئے، ان کی نوعیت محض فرقہ ورانہ نہیں تھی، بلکہ ان اختلافات کے پس پشت سماجی، سیاسی، ثقافتی اور معاشی عوامل کارفرما تھے کیونکہ یہ عوامل سیاسی خیالات اور فلسفیانہ نظریات کی تشکیل اور ترویج میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس لئے ان کا تجزیہ کئے بغیر معروضی نتائج مرتب کرنا ممکن نہیں ہے۔

اس عہد میں سیاسی اختلاف کا اظہار چونکہ مذہبی محاورے میں ہوتا تھا، اس لئے اس دور میں سیاسی اور نظریاتی اختلاف کی بدولت ایسے متعدد فرقے پیدا ہو گئے تھے جو باہمی اختلافات کے اظہار کے لئے مذہبی عقائد کا سہارا لیتے تھے۔ اس صورت حال کو ایک یورپین مورخ نے اس طرح بیان کیا ہے کہ مغرب میں جو شخص موجودہ سیاسی نظام یا سیاسی قیادت کو تبدیل کرنے کا خواہاں ہوتا ہے وہ ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے جب کہ مشرق میں ایسے اشخاص اپنی سیاسی خواہشات اور مقاصد کو مذہبی جذبات میں تبدیل کر کے نئے نئے فرقے اور مذاہب قائم کر لیتے ہیں۔

مسلمانوں میں سب سے پہلا اور اہم ترین اختلاف جو پیدا ہوا، وہ مسئلہ خلافت تھا۔ اس اختلاف کے نتائج مسلمانوں کے لئے نہایت دیرپا اور اور مہلک ثابت ہوئے۔ ابھی حضرت محمد صلی علیہ وسلم کا جسد مبارک قبر میں استراحت بھی کرنے نہ پایا تھا کہ مسلمان ان کی جانشینی کے لیے آپس میں مناقشہ کرنے لگے۔ لیکن اس امر کا اعتراف ضروری ہے کہ جانشینی کا تعین ایک ناگزیر سوال تھا کیونکہ اسلام کے حوالے سے ایک ابتدائی ریاست قائم ہو چکی تھی اور یہ ناممکن تھا کہ اس ریاست کو بغیر رہنمائی اور محافظت کے چھوڑ دیا جائے۔

حالات کا اقتضا تو یہ تھا کہ مسلمان اس مسئلے کو باہمی افہام و تفہیم سے حل کر لیتے لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا اور خلافت کا جو تصفیہ ہوا، اس پر تمام مسلمان متفق نہ ہو سکے۔ ابتدائی طور پر تو اس اختلاف نے کوئی ناگوار صورت اختیار نہیں کی، لیکن بعد میں یہ مسلمانوں کے انتشار اور خانہ جنگی کا موجب بن گیا۔ حضرت محمد ؐ کی جانشینی سے پیدا ہونے والا یہ سیاسی اختلاف رفتہ رفتہ مذہب میں جگہ پا گیا اور معتقدات کی ذیل میں شمار ہونے لگا۔

خلیفہ کی تقرری کے حوالے سے پیدا ہونے والے اس اختلاف کے نتیجے میں مسلمان دو فرقوں سنی اور شیعہ میں منقسم ہو گئے لیکن یہ پیش آمدہ واقعات کی محض سادہ توجیح ہے۔ تاریخ کا کوئی بھی سنجیدہ طالب علم اس سے مطمئن نہیں ہو گا اور اسلامی تاریخ کے اس پہلے اختلاف کے پس پشت جو سیاسی اور معاشی عوامل کارفرما تھے، ان کی چھان بین کرنا ضروی سمجھے گا۔ ان محرکات کے بارے میں تحقیق کرنے کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ واقعات کی ترتیب و تشکیل میں مذہبی عقیدے کی اہمیت کو کم یا نظر انداز کیا جائے۔ بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ ہم جسے روحانی یا مذہبی مظہر خیال کرتے ہیں، اس کے پس پشت بھی سماجی اور معاشی عوامل مصروف کار ہوتے ہیں اور ان عوامل سے صرف نظر کر کے کسی سیاسی اور مذہبی مظہر کی درست تفہیم اور ادراک ممکن نہیں ہے۔

مسلمانوں کے مابین پیدا ہونے والی اس پہلی نظریاتی تفریق اور ان کی سیاسی زندگی میں آئندہ آنے والے تغیرات کے سیاسی اور سماجی پہلوؤں کی درست تفہیم کے لئے ان کو اسی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ جہاں تک اسماعیلی تحریک کا تعلق ہے، اس کو بھی ہم اسی وقت ہی درست طور پر سمجھ سکتے ہیں، جب ہم اس کی ابتدا، ارتقا اور پھیلاؤ کے پس پشت معاشی، سماجی اور سیاسی محرکات کو پیش نظر رکھیں، بصورت دیگر ہم فرقہ ورایت کی بھول بھلیوں میں کھو جائیں گے۔

ٹائن بی شیعوں کو اسلام کا بیرونی اور خوارج کو اندورنی پرولتاریہ قرار دیتا ہے۔ شیعہ زیادہ تر غیر عرب (ایرانی) جبکہ خوارج عرب نژاد بدو تھے۔ عرب مسلمانوں نے جب ایران اور عراق کو فتح کرنے کے لئے فوجی دستے بھیجے تو جنگی حکمت عملی کے تقاضوں کے تحت ان علاقوں میں فوجی چھاونیاں بھی بنانا پڑیں۔ ان فوجی چھاؤنیوں میں بہت سے غیر عرب نسلوں خاص طور پر ایرانی النسل فوجیوں کو رکھا جاتا تھا۔

بعض مورخین کا اندازہ ہے کہ کوفہ کی نصف سے زائد آبادی غیر عربوں پر مشتمل تھی۔ وہ زیادہ تر غلام، گھریلو ملازمین یا چھوٹے موٹے دستکار تھے۔ ان میں اکثریت ان افراد کی تھی جنھیں جنگ کے دوران گرفتاری کے بعد غلام بنا لیا گیا تھا۔ یہ غیر عرب اپنے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کی وجہ سے حکمرانوں سے ناخوش اور ناراض تھے۔ وہ حکمرانوں کے برے سلوک ہی کے شاکی نہ تھے، وہ عربوں کو ثقافتی اور تہذیبی اعتبار سے بھی اپنے سے حقیر جانتے تھے۔

حکمران عرب اشرافیہ اور محکوموں کے مابین پائے جانے والے اس تضاد کو بنو امیہ کی ناقص اور جبر پر مبنی سیاسی اور انتظامی پالیسیوں نے مزید تیز کر دیا تھا۔ بنو امیہ کی پالیسیوں کی مخالف شیعہ قیادت کو سیاسی حمایت غیر عرب ایرانیوں سے ملی۔ بہت سی دیگر وجوہات کے علاوہ ایرانیوں کی طرف سے حضرت علیؓ کی حمایت کی ایک وجہ ان کے ہاں پائے جانے والا بادشاہت کا ادارہ بھی تھا۔قیادت کے انتخاب کے لئے باہمی صلاح مشورہ عرب روایت تھی، جب کہ ایرانی اس ضمن میں وراثت پر یقین رکھتے تھے۔

یہ ایرانی اثرات ہی کا نتیجہ تھا کہ عرب مسلمانوں میں بھی خلافت کو مورثی حق خیال کرنے کا تصور پیدا ہوا۔ ان (ایرانیوں) کے نزدیک چونکہ حضرت محمد صلی علیہ وسلم کی کوئی اولاد نرینہ نہ تھی، اس لئے حضرت علی ان کے داماد اور چچازاد ہونے کی وجہ سے خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے اولین حقدار تھے۔ یہ اور بہت سے دیگر سیاسی، معاشی اور ثقافتی عوامل نے شیعیت کو اہل ایران میں مقبول بنایا۔

اہل تشیع کے نزدیک خلیفہ یا امام (امامت کی اصطلاح خلافت کے مقابلہ میں زیادہ جامع اور ہمہ گیر ہے) کا تعین عوام کی رائے پر منحصر نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ نص قطعی سے عمل میں آتا ہے۔ امامت کو وہ لوازمات دین میں تصور کرتے ہیں اور توحید و رسالت کی مانند ایمان کا جزو قرار دیتے ہیں۔ شیعہ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ ہر امام کا ایک وصی ہوتا ہے اور اس وصی کا تقرر بالنص یا منجانب اللہ ہوتا ہے۔

اسماعیلی فرقے کی ابتدا اس وقت ہوئی جب چھٹے امام (اسماعیلیوں کے نزدیک پانچویں امام کیونکہ وہ حضرت علی کو امام نہیں مانتے بلکہ انھیں وصی قرار دیتے ہیں) حضرت امام جعفر صادق 148 ہجری (765ء) فوت ہوئے ( ایک روایت کے مطابق انہیں زہر دیا گیا تھا) اور ان کی جانشینی کا مسئلہ درپیش ہوا تو شیعہ دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ان میں سے ایک گروہ نے کہا کہ امام جعفر صادق کے بعد ان کے بڑے بیٹے اسماعیل جو اپنے والد کے انتقال سے چند سال قبل (755ء) وفات پا چکے تھے، امام منصوص یا مامور من اللہ ہیں اور دوسرے گروہ نے ان کی بجائے ان کے دوسرے بیٹے سیدنا موسیٰ کاظم کو امام تسلیم کر لیا۔

پہلا گروہ حضرت اسماعیل کے نام کی نسبت سے اسماعیلی کہلاتا ہے اور وہ دھڑا جس نے امام موسیٰ کاظم کو امام تسلیم کر لیا، اثنا عشری کہلایا اور جمہور شیعہ کا تعلق اسی فرقے سے ہے۔ یہ فرقہ امامت کی ابتدا حضرت علیؓ سے کرتا ہے اور بارہ اماموں پر ایمان رکھتا ہے اور بارہویں امام کو مستور خیال کرتا ہے۔

اسماعیلیوں کے نزدیک دیگر شیعہ فرقوں کی طرح امام کا تعین نص قطعی سے عمل میں آتا ہے، اس لئے امام کو اس کے منصب سے ہٹانے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے۔ موروثی حق ہونے کے باعث امامت باپ سے بیٹے میں منتقل ہوتی ہے۔ لگتا ہے کہ یہ عقیدہ بہت بعد میں متشکل ہوا، کیونکہ اگر اس اصول کو سختی سے پیش نظر رکھا جائے تو بہت سے ایسے افراد بھی امامت کے منصب پر فائز ہوئے، جو اس اصول پر پورے نہیں اترتے تھے اور اسماعیلی ریکارڈ میں اس انحراف کا کوئی جواب بھی موجود نہیں ہے۔

سنہ 1094ء میں اسماعیلی کمیونٹی میں اٹھارویں امام مستنصر کی وفات کے بعد ان کی جانشینی کے مسئلے پر ان کے بڑے بیٹے نزار اور سب سے چھوٹے بیٹے اکیس سالہ مستعلی کے درمیان جانشینی کے سوال پر مناقشہ ہو گیا اور اسماعیلی ایک دفعہ پھر دو دھڑوں؛ نزاری اور مستعالی میں منقسم ہو گئے۔ مشرق میں یعنی ایران کے اسماعیلی نزار اور اس کی اولاد کو امامت اور خلافت کا مستحق خیال کرنے لگے لیکن مغرب یعنی مصر اور یمن میں مستعلی اور اس کی اولاد کو امامت کا مستحق سمجھا گیا۔ اول الذکر آغاخانی خوجے اور موخرالذکر بوہرہ کہلاتے ہیں۔ ایک دفعہ پھر اقتدار کی کشمکش کو مذہبی اختلافات کا رنگ دے دیا گیا اور اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ قرون وسطیٰ کی مجبوری بھی تھی کیونکہ اس عہد میں سیاسی اختلافات کے اظہار کا موجود ذریعہ مذہب ہی تھا۔

اسماعیلی تحریک اسلامی عقائد اور یونانی فلسفہ کا امتزاج تھی۔ اس کا آغاز ایک واضح سیاسی مقاصد کی حامل تحریک کے طور پر ہوا تھا، جس میں معاشرتی عدل و انصاف کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ سماجی اور معاشی انصاف کے حصول کے لئے سرگرم عمل اسماعیلی تحریک کا رحجان ابتدائی اشتراکیت کی طرف تھا یا کم از کم اس کے مخالفین کا اس کے بارے میں یہی کہنا تھا کیونکہ اس تحریک سے وابستہ افراد وسائل کو عوام کی ضرورتوں کے مطابق تقسیم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔

اسماعیلی تحریک کے نزدیک اقتدار حاضر امام کا حق تھا۔ اس لئے اس تحریک کو اس انداز میں منظم کیا گیا تھا کہ جب بھی موقع ملے ’’غاصبوں‘‘ کو ایوان اقتدار سے باہر کر کے حاضر امام کو مسند اقتدار پر بٹھا دیا جائے۔ اس تحریک کے لئے کھلے طور پر عباسی حکمرانوں کو چیلنج کرنا تو ممکن نہ تھا، اس لئے اس کی تنظیم خفیہ بنیادوں پر کی گئی تھی اور اس تحریک کو ان علاقوں میں بطور خاص منظم کیا گیا تھا جہاں عباسی سلطنت کے کنٹرول کی نوعیت کمزور تھی۔ جوں جوں اس تحریک کا اثر و نٖفوذ بڑھا تو اس کے کار پردازوں نے اقتدار کی سیاست کو اپنا مطمع نظر بنا لیا اور ان کی توجہ وسائل کی منصفانہ تقسیم سے ہٹ گئی اور وہ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے میں لگ گئے۔

اسماعیلی عقائد کے مطابق امام زمانہ کو دین اور دنیاوی امور میں اختیار کلی حاصل ہے، اس لئے اس کی موجودگی میں کوئی دوسرا خلیفہ یا حاکم نہیں ہو سکتا اور جو کوئی ایسا کرے گا وہ غاصب ہو گا۔ اسماعیلی کمیونٹی اپنی خفیہ تنظیمی سرگرمیوں اور اپنے رہنماؤں کی قابل عمل سیاسی حکمت عملیوں کی بدولت عباسی سلطنت کے لئے ایک حقیقی خطرہ بن کر ابھری۔ کئی عشروں پر محیط انڈر گراونڈ سیاسی کام کی بدولت وہ بغداد میں قائم عباسی خلافت (750-1258) کے مقابل اپنے امام کی قیادت میں فاطمی خلافت (909-1171) قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔

اس سلطنت میں تیونس سے لے کر فلسطین تک کے علاقے شامل تھے۔ مصر کا دارالحکومت قاہرہ اور وہاں جامعہ الآزہر کی بنیاد بھی اسماعیلیوں نے رکھی تھی۔ فاطمی خلافت مصر میں 567ھ تک قائم رہی، اس کا خاتمہ صلاح الدین ایوبی نے بغداد کی عباسی خلافت کے عملی تعاون سے کیا تھا۔

11ویں صدی میں اسماعیلی تحریک میں جو اختلاف پیدا ہوا، اس نے اسماعیلی دعوت کو دو مراکز میں منقسم کر دیا۔ مشرق میں ایران کو نزار کے پیروکاروں نے اپنا مسکن بنایا، جب کہ مغرب میں یمن میں مستعلی کے ماننے والوں نے اپنا مرکز قائم کیا۔ ابتدائی طور پر حصول اقتدار کی جنگ نے دو مستقل مذہبی فرقوں (اسماعیلی بوہرہ فرقہ اور نزاری اسماعیلی فرقہ) کو جنم دیا، جو آج تک موجود ہیں۔ اسماعیلوں کا داؤدی بوہرہ فرقہ مستعلی سلسلے کے 21 ویں امام طیب کو امام مستور خیال کرتا ہے۔

اگرچہ اس وقت سے آج تک بیعت ان کے نام پر ہی لی جاتی ہے۔ بوہرے امام طیب کی امامت کے پیروکار ہوتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام آخر الزماں یعنی امام مہدی امام طیب کی اولاد سے ہوں گے۔ ان کے عقیدہ کے مطابق امامت کا سلسلہ ان کی نسل میں جاری وساری ہے۔ بوہروں کے نزدیک امام طیب کی اولاد میں سے ہر زمانہ میں ایک امام مستور ہوتا ہے۔ اب اس فرقے کے رہنما داعی مطلق کہلاتے ہیں اور انھیں داؤدی بوہرے امام مستور کا نائب یا باب خیال کرتے ہیں۔ داعی مطلق امام کے باب یا نائب کی حیثیت میں جماعت کے تمام دینی اور دنیادی امور پر کلی اختیار رکھتا ہے۔ 96 سالہ سیدنا محمد برہان الدین اس فرقے کے 52ویں داعی مطلق تھے اور ممبئی بھارت میں رہتے تھے۔ پچھلے سال ان کی وفات کے بعد ان کی جانشینی پر بھی تنازعہ کھڑا ہو چکا ہے اور معاملہ ممبئی کی ایک عدالت میں زیر سماعت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments