چرسی ڈھولا

آج ہر کالج اور یونیورسٹی کا نوجوان سگریٹ نوشی کو ایک فیشن سمجھتا ہے نہ کہ برائی۔ اس کے نتائج سے باخبر ہوتے ہوۓ بھی ہمارا نوجوان اس کی لت میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کا 50 فیصد سے زیادہ طبقہ سگریٹ نوشی کا عادی ہے۔ کالج اور یونیورسٹیز کے طلبہ ابتدا میں تو اسے فیشن کے طور پر لیتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔ پہلے پہل تو یہ زہر شوق کی وجہ سے اندر جاتا ہے، بعد میں نوجوان اسے اپنی ضرورت بنا لیتے ہیں۔
اب ہمارے تعلیمی اداروں کا نوجوان صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس سے بھی چار قدم آگے نکل چکا ہے۔ سگریٹ کے ساتھ ساتھ چرس کو بھی اپنی بیٹھک کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔آج تو طلبہ نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کے حساب سے نشوں کو اپنے آپ سے منسوب کر لیا ہوا ہے۔ انجینئرنگ کے طلبہ چرس کو مٹھائی اور دوائی کے نام سے یاد کرتے ہیں جب کہ میڈیکل کے طلبہ شراب کو دوائی، دارو جیسے پاکیزہ ناموں سے یاد کرتے ہیں۔
ہماری نوجوان نسل کا اس گھناؤنے کام میں مبتلا ہونا تو اپنی جگہ حساس ہے، اس سے بڑی پریشانی کی بات یہ ہے کہ ان چیزوں کی سپلائی کرنے والوں کا نیٹ ورک اس قدر مضبوط ہے کہ ہمارے نوجوان تک ان چیزوں کی ترسیل باقاعدگی سے ہوتی ہے۔ بجلی بند ہو، گیس بند ہو، چاہے ملک بند ہو، لیکن اس زہر کی ترسیل آسانی سے ہو رہی ہوتی ہے۔ اس سب جانتے ہیں کہ یہ چیزیں کہاں سے آتی ہیں۔
حکومت کا نشے کی روک تھام کے اقدام کا تو مجھے علم نہیں کیونکہ یہ سلسلہ تھمنے کے بجاۓ دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن جہاں تک سگریٹ کی بات ہے، اس کی روک تھام کے لیے حکومت نے پہلے تو چھوٹی ڈبی (جس میں دس سگریٹ ہوتی تھیں) پر پابندی لگائی اور اب اس کی کھلی فروخت پر بھی پابندی لگا رہی ہے۔ علاوہ ازیں ہر سال اس قانونی زہر پر ٹیکس لگنے کے باوجود بھی اس کے استعمال میں کمی نہیں آ رہی۔ اس کے استعمال میں کمی اسی صورت میں آ سکتی ہے جب عوام بھی مخلص اور متحد ہو کر اس کی روک تھام کے لیے عملی اقدام اٹھائیں۔

Facebook Comments

عمیر ارشد بٹ
مرد قلندر،حق کا متلاشی، علاوہ ازیں سچ سوچنے اور بولنے کا عادی ہوں۔ حق بات کہتے ہوۓ ڈرنے کا قائل نہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply