شکر کیجیے کہ صرف آموں کے درخت کٹے۔۔سعید چیمہ

چیونٹی کو ہاتھی بنانا تو کوئی ہم سے سیکھے، اب دیکھ  لیجیے کہ خوامخواہ درختوں کے کٹنے پر واویلا مچا  رہے ہیں، اس سوشل میڈیا  کا بھی بیڑا غرق ہو جس کو دیکھو آم کے درخت کٹنے پر کلبلا رہا ہے اور دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے پنڈی بوائز اور حکومت کو لتاڑ رہا ہے،  اصل میں بات یہ ہے کہ دوسروں کا سکھ چین دیکھ کر ہمارے پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں، ملتان میں اگر آم کے درخت کٹ رہے ہیں تو آپ کو یا ہمیں اس سے کیا تکلیف، کیا آپ کو یہ بات سجھائی نہیں دیتی کہ سینکڑوں ایکڑ پر پھیلے آم کے باغات کٹنے سے کیسے شاندار محل تیار ہوں گے، شداد اگر زندہ ہوتا تو احساسِ کم تری کا شکار ہو جاتا، خدا ان لوگوں کو سلامت رکھے جو درخت کاٹ محلات کی کالونی بنانے جا رہے ہیں، جس کو دیکھ کر دور سے ہی غریبوں کا دم نکل جایا کرے گا، آپ فی الحال شکر کیجیے کہ آم کے درخت کاٹ کر محلات بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے، وگرنہ تو ظلمات کا دہر ہے، کیا عجب تھا کہ انسانوں کو کاٹ کر محلات تیار کیے جاتے، محلات کی بنیادوں میں ہڈیاں چنوائی جاتیں، اور انسانی کھالوں کو دیواروں پر بناوٹ کے طور  پر سجا  دیا جاتا، آخر پرانے زمانوں میں بھی تو بادشاہ درندوں کی کھالیں اپنے محلات کی دیواروں پر لٹکاتے تھے،  آج بس تھوڑا سا زمانہ ہی تو بدلا ہے، درندوں کی کھالوں کے بجائے اگر انسانوں کی کھالیں دیواروں پر سجا دی جائیں تو سورج مغرب سے تو نہ طلوع ہو گا، تب ایک شخص مطلق العنان حکمران ہوا کرتا تھا، آج ایک پورا ادارہ بادشاہ ہے، جو ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا بیٹھا ہے، تب بھی آواز اٹھانے والے کو پسِ زندان ڈالا جاتا تھا،۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب بھی جیلوں کی تاریک کوٹھڑیوں میں حق پرست ٹھونسے جاتے ہیں، تب بھی سچ بولنے والے دار پر چڑھائے جاتے تھے، آج بھی ایسوں کے مقدر میں گولی لکھی جاتی ہے، اس وقت بھی یک مشت غدار ٹھہرایا جاتا تھا، آج بھی ملک و ملت سے غداری کی قبا پہنا دی جاتی ہے، تب بھی حق پرستوں کو ملک سے ہجرت پر مجبور کیا جاتا تھا، آج بھی لوگ دوسرے ممالک میں سیاسی پناہیں ڈھونڈتے ہیں، لیکن تمام تر گناہوں اور ذلتوں کے بعد بھی بادشاہ اور ملوکیت کی پیداوار حکمران ایک ایسا کام کرتے تھے جو قابلِ تحسین ہے، بادشاہ یا حکمران جو بھی شہر فتح کرتے، اس میں ایک باغ ضرور لگاتے، اگر شہر میں نہر نہ ہوتی تو سینکڑوں کلو میٹر تک دھرتی کا سینہ کاٹ کر شہر تک نہر لائی جاتی اور ایک پُر فضا مقام پر باغ بسایا جاتا، دنیا جہاں سے پودے منگوائے جاتے، مالیوں کو بھاری تنخواہوں پر باغ کی دیکھ بھال کے لیے مختلف ممالک سے بلوایا جاتا، اور پھر پانچ دس سال میں باغ تیار ہو جاتا، جس کے پھولوں کی مہک سے شہر کی فضا معطر ہو جاتی، پھل ایسے رس بھرے اور میٹھے ہوتے کہ گمان غالب آتا کہ جنت سے اتارے گئے ہیں، اگر کوئی بادشاہ کسی شہر کو فتح کرتا تو شہر کا شہر تباہ کر دیتا مگر مجال ہے جو پہلے سے موجود باغ کے کسی پیڑ کی ایک ٹہنی بھی کاٹتا، لیکن ہمارے ہاں تو کچھ بھی ممکن ہے، ہر کوئی ہاتھ میں عصا لیے پھرتا ہے، صاحبِ یدِ بیضا بنا بیٹھا ہے، آموں کے باغات کٹنے پر واویلا کیوں کیا جا رہا ہے، یہاں تو انسان کاٹ دئیے جاتے ہیں، بادشاہ کا دربار سلامت رہے، باغات کٹتے رہیں گے، محلات بنتے رہیں گے، کاٹیے صاحب آم کے پیڑ کاٹیے اپنے عشرت کدے تعمیر کرنے کے لیے، اگر پھر بھی آپ کے قصر تعمیر نہ ہوں تو انسان کاٹنا شروع کر دیجیے، ویسے بھی سو دو سو سال بعد زرعی زمین ختم ہونے سے اناج کی قلت ہو جائے گی اور لوگ ایک دوسرے کو کاٹنا شروع کر دیں گے، مگر آپ کی تو آنے والی نسلیں بھی محفوظ ہوں گی، یہاں اگر اناج کی قلت ہو گی تو یورپ بھاگ جائیں گی، یہاں مرنے، گلنے، سڑنے کو ہماری نسلیں کافی ہوں گی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply