کمپلیکس۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

کمپلیکس صرف احساسِ کمتری ہی نہیں، احساسِ برتری بھی اسی کی شاخ ہے، بلکہ یہ دونوں احساسات ایک ہی شاخ کے دو کونے ہیں۔
کسی بھی کمپلیس کی بنیاد اپنی ظاہری یا باطنی خصوصیات کا دوسروں کی خصوصیات سے موازنہ کرنا ہے، تحت الشعور کی سطح پر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کمپلیکس کی شاخ کے کس کونے پر آپ بیٹھے ہیں اور نہ ہی اس بات کی کوئی اہمیت ہے کہ اپنے کمپلیکس کا اظہار آپ لوگوں کے سامنے کرتے ہیں یا تنہائی میں بڑبڑاتے ہیں، یہاں یہ بھی ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ آپ کا احساسِ کمتری یا برتری دوسروں کے ساتھ نفرت یا حسد کا باعث بنتا ہے۔

احساس کوئی بھی ہو، اپنی شخصیت کا دوسروں کے ساتھ تقابل کرنے میں نقصان آپ ہی کا ہے، ہر صورت میں آپ کی شخصیت کا توازن ڈگمگائے گا، خود کو دوسروں سے موازنے کی بنیاد لوگوں کو اپنی اہمیت کا احساس دلانا ہے، لیکن ایسی کوئی بھی کوشش ایلوژنز سے زیادہ کچھ نہیں۔
دوسروں کی نظر میں اپنی اہمیت منوانے کی کوشش میں آپ کی تمام انرجیز ایک مصنوعی ہوائی قلعہ بنانے میں صَرف ہو جاتی ہیں اور یہ قلعہ کسی ہلکی سی بادِ مخالف کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتا، اس کے بر عکس خود پہ اعتماد آپ کی حقیقی صلاحیتوں کو سامنے لاتا ہے۔

اگر تو فرد خود پہ اعتماد رکھتے ہوئے اپنی تمام توانائیاں اپنی اندرونی صلاحیتیں بروئے کار لانے میں صَرف کرتا ہے تو وہ آگے کی طرف بڑھتا ہے لیکن اگر یہی توانائی اپنے کمپلیکس کو چھپانے کی مصنوعی کوشش میں خرچ ہو رہی ہے تو کیچڑ میں پھنسی گاڑی کے ٹائروں کی طرح آپ ایک ہی جگہ گھومتے رہیں گے ۔
ہم اس بات کے عادی ہو چکے ہیں کہ ناخوشگوار واقعات زندگی کا حصہ ہیں اور اس دنیا میں رہتے ہوئے یہ واقعات ناگزیر ہیں لیکن درحقیقت ایسی تمام پریشانیاں فرد کی اپنی یا اس کے گرد افراد کی شخصیت میں توازن کے بگاڑ کا نتیجہ ہیں، اگر ہم اپنی توانائیوں کو مصنوعی قلعے بنانے پر خرچ کرنے سے گریز کریں تو شخصیت کا توازن برقرار رہے گا اور بگاڑ کے مواقع کم سے کم ہوں گے، یاد رکھنے کا ذیلی نکتہ یہ بھی ہے کہ دوسروں کو سدھارنے کی کوشش میں بعض اوقات ہم ان کے مفادات کو زد پہنچا رہے ہوتے ہیں اور اس حرکت کے نتائج عموما منفی ہوتے ہیں۔

احساسِ کمتری میں مبتلا فرد اپنے اندر کی خوبیوں کو، جو اس کی نطر میں کم ہیں، بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس سے آپ کی شخصیت کا حقیقی رنگ پسِ پشت چلا جاتا ہے، نتیجے میں وہ کمتری مزید واضح ہوکر سامنے آتی ہے جسے آپ چھپانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
مثلاً  کسی بھی چھوٹے سے اختلاف پر کسی ٹین ایجر کا اچانک بھڑک اٹھنا درحقیقت اس کے اندر کے احساسِ بزدلی کو چھپانے کی مصنوعی کوشش ہے، اپنے اندر کے شرمیلے پن کو چھپانے کی کوشش میں طبعاً شرمیلے انسان سے بعض اوقات انتہائی بے شرم اور گھٹیا فعل بھی سرزد ہو سکتا ہے۔

صورتحال کوئی بھی ہو، واقعہ یہ ہے کہ کمپلیکس بذاتِ خود اتنا نقصان دہ نہیں جتنا اس کو چھپانے کی مصنوعی کوشش۔
کسی بھی قسم کے کمپلیکس سے جدوجہد بے سود ہے، بلکہ ایسی جدوجہد مزید اذیت ناک ہے، اس کا واحد حل اپنی شخصیت سے کمپلیکس کو نکال پھینکنا ہے جو کہ اتنا آسان نہیں۔

یہ بات ذہن سے نکال دیجئے کہ دوسرے بھی آپ کی کمیوں یا کوتاہیوں کو وہی اہمیت دیتے ہیں جتنی کہ آپ خود ، کیونکہ ہر شخص کی دلچسپی کا محور اس کی اپنی ذات ہے نہ کہ آپ، اس لیے ایسے کسی بھی کمپلیکس کو اپنے ناتواں کندھوں سے اتار پھینکئے، یہ بھول جائیے کہ لوگ آپ کی شخصیت میں اپنی ذات سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔

اپنے اندر کے احساسِ کمتری سے لڑنے کی بجائے اسے دوسری خصوصیات سے کمپینسیٹ کیجئے، ظاہری خوبصورتی اور شخصیت کا پرکشش ہونا یہ دو مختلف چیزیں ہیں، آنکھ ناک یا رخسار کا ہر لحاظ سے خوبصورت ہونا اس بات کی ضمانت نہیں کہ انسان پرکشش بھی ہے، اور اس کے برعکس بعض اوقات واجبی سے نین نقش والے افراد بھی بلا کے پرکشش ہوتے ہیں، اگر آپ خوبصورت نہیں بھی تو آپ پرکشش بن سکتے ہیں اس کیلئے اپنی حقیقی شخصیت کا اظہار لازم ہے، اسی طرح جسمانی خامیوں کو اپنے اندر کے اعتماد کے ساتھ کمپینسیٹ کیا جا سکتا ہے، تاریخ میں ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ جسمانی طور پر بدصورت یا لاغر افراد چٹان کی طرح مضبوط اور ارادے کے پکے تھے اور ایسے افراد نے زندگی میں غیر معمولی کامیابیاں سمیٹیں، اگر آپ اچھا نہیں بول سکتے یعنی کہ اچھے مقرر نہیں تو اچھے سامع بن سکتے ہیں، انگریزی زبان کے ایک محاورے کے مطابق ، ہر شخص جھوٹ بولتا ہے لیکن اس سے کوئی بگاڑ پیدا نہیں ہوتا کیونکہ کوئی کسی کو سن ہی نہیں رہا، اچھا سامع اچھے مقرر کی نسبت اپنی شخصیت میں کہیں زیادہ مقناطیسیت رکھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شرمیلے لوگوں کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ شرمیلا پن اپنے اندر بلا کی کشش رکھتا ہے، اسے کسی مصنوعی کوشش سے چھپانے میں آپ اپنی ذات کے توازن میں بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں۔
دوسروں سے متآثر ہوتے ہوئے ان جیسا بننے کی کوشش ایک مضحکہ خیز پیروڈی سے زیادہ کچھ نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply