فلسفۂ غربت ۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

ٹھنڈے دماغ کے ساتھ اس سوال پہ غور کیجئے کہ ایک ایسا عام آدمی کس طرح دولت مند بن سکتا ہے جس کا جنم کسی کچی بستی میں ہوا ہو ؟
ایک راستہ بدمعاشی کا ہے، جس کی عام آدمی نہ تو ہمت کر سکتا ہے اور نہ ہی سماجی و اخلاقی لحاظ سے یہ راستہ چنا جانا چاہئے، اساطیری کہانیوں میں اچانک کسی خزانے کا ملنا یا لاٹری کا نکلنا بھی آپشن نہیں کہ حقیقی زندگی میں فرد کو مرتے دم تک ایسی کوئی چیز ملنے والی نہیں، عقلِ سلیم کے متعین کردہ راستے بھی آپ کو کچی بستی سے نہیں نکلنے دیں گے کیونکہ آپ کے پاس سرمایہ نہیں۔
منطقی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہمیشہ منطقی ہی ہوگا، اگر فرد نے غربت میں جنم لیا ہے تو اس کے اردگرد غربت ہی کا راج ہوگا، اس کا ذہنی نظم ہی ایسی توانائی کا اخراج کر رہا ہے جو اسے خطِ غربت پہ جمائے رکھے گی، ایسے سماجی و شعوری ماحول میں خطِ امارت پر خود کو منتقل کرنا فرد کیلئے انتہائی مشکل ہے۔
درحقیقت اس کی دو بڑی وجوہات ہیں
اپنی غربت سے نفرت
دوسروں کی امارت سے حسد
آپ کے لاشعور میں یہ دو کانٹے جب تک موجود ہیں، پھولوں تک رسائی ممکن نہیں۔
انسانی عمر کے اوائل میں ہی بچے کی نفسیات میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ اگر کوئی چیز تمہیں پسند نہیں تو ضروری نہیں کہ تم اس سے بچ پاؤ، جیسے سکول، ناپسندیدہ غذا، دوا، ڈسپلن، رشتہ داروں کا ادب، معاشرے کی اقدار وغیرہ، اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ ناپسندیدگی کے باوجود اسے یہ سب کچھ کرنا ہوگا اگرچہ بچے کی روح چیخ چیخ کر یہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ وہ یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہتا، یعنی کہ بچہ جس چیز سے نفرت کرتا ہے وہی اس کیلئے لازم قرار دے دی جاتی ہیں،
صرف بچے ہی نہیں، بڑے بھی بعض اوقات یہ سوال خود سے پوچھتے ہیں کہ جس سے وہ بچنا چاہتے ہیں وہی چیز ان پر بار بار اور گاہے زندگی بھر کیوں مسلط رہتی ہے؟
اس کیفیت سے سمجھوتہ کرنا بہت مشکل ہے کہ آپ جس چیز سے بچنا چاہ رہے ہیں وہ ہو کر رہتی ہے، اور اگر اسی چیز سے آپ نفرت کرتے ہیں تو وہ تادمِ حیات آپ کے پاؤں کی زنجیر بن کر رہے گی۔
آپ اپنی غربت، سٹیٹس، ظاہری شکل و صورت، اپنی جاب، دوستوں، معاشرے یا حکومتِ وقت سے نفرت کر سکتے ہیں ، اور یہ نفرت جتنی شدید ہوگی ان بلاؤں کے آپ کے گلے کا طوق بننے کے امکانات اتنے زیادہ ہونگے، کیونکہ اپنی نفرت سے آپ جس آبجیکٹ کو اہمیت دے رہے ہیں، آپ کے دماغ سے نکلتی لہریں یا انرجی آپ کی زندگی میں بار بار اسی آبجیکٹ کو سامنے لا رہی ہیں، آپ کو یہ پسند ہو یا نہیں لیکن قانونِ فطرت یہی ہے کہ آپ اپنی توجہ کے اوزار سے اپنے مستقبل کے واقعات خود تراشتے جارہے ہیں، یہ واقعات منفی ہوں یا مثبت ،قانونِ فطرت کے نزدیک ان کی کوئی اہمیت نہیں، بلکہ منفی واقعات کے تراشنے کا عمل زیادہ تیزی سے وقوع پذیر ہوتا ہے کیونکہ اس میں آپ کے اموشنز پوری قوت کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔
امیر بننے کی خواہش کے باوجود کچی بستی میں پیدا ہوئے شخص کے دولتمند بننے کے امکانات اس لیے کم ہیں کہ تحت الشعور کی سطح پر اسے یقین ہے کہ وہ کبھی امیر نہیں بن سکتا، اور صرف خواہش کا ہونا کافی نہیں اس کیلئے عملی نیت کا ہونا ضروری ہے ( عملی اقدام کی اہمیت ثانوی ہے )، یہاں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ عملی اقدام کی نسبت عملی نیت ایسے فرد کیلئے مشکل ترین کام ہے۔
عملی نیت سے مراد خواہش کی تکمیل کے وصول کرنے کی قوت ہے، یعنی خواب کی تعبیر کو ممکنات کی فہرست میں پورے یقین کے ساتھ لانا ، اور فرد کیلئے یہ کام بیک وقت مشکل بھی ہے اور آسان بھی۔
1۔ میں امیر بننا چاہتا ہوں
2۔ میں امیر بننے کیلئے مکمل اور پورے یقین کے ساتھ تیار ہوں۔
ان دو جملوں ، یعنی چاہنے اور تیار ہونے کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے،
نوٹ کیجئے کہ ایک غریب آدمی کسی مہنگے شاپنگ مال میں خود کو بہت بے چین اور اجنبی محسوس کرتا ہے، وہ اپنی چال میں جس قدر بھی اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کر لے یہ بات واضح محسوس ہوتی ہے کہ وہ خود کو غلط جگہ پہ محسوس کر رہا ہے کیونکہ اس کے لاشعور میں یہ آہنی یقین چمٹا ہوا ہے کہ وہ ان تمام مہنگی اشیاء کی خریداری کا متحمل نہیں۔ امارت غریب آدمی کے ذہن کے کمفرٹ ذون میں کسی طور فِٹ نہیں ہوتی اس لیے نہیں کہ اس کے دماغ میں اس کی گنجائش نہیں بلکہ اس لیے کہ وہ اس کا تصور کرنے سے بھی کانپتا ہے کیونکہ اس کی توجہ اس کی خالی جیب پر ہے، ایسے میں خریداری کا سوچتے ہوئے بھی فرد کی سوچ کے پر جلتے ہیں۔
نئی چارپائی مہنگی اور آرام دہ ضرور ہو سکتی ہے لیکن پرانی چارپائی فرد کے خدوخال کو جس طرح خود میں سمو لیتی ہے نئی چارپائی میں وہ کوالٹی نہیں، یہی کمفرٹ ذون ہے اور اس سے نکلنا ہی سب سے مشکل کام ہے، غریب آدمی غربت کی چارپائی کے اسی کمفرٹ ذون میں حقہ پی کے سو رہا ہے۔
غریب آدمی امارت کے صرف بیرونی پہلو سے واقف ہے، خوبصورت بنگلہ، بڑی گاڑی، مہنگے قالین، زرق برق لباس وغیرہ، اگر غربت کے مارے کو یہ تمام آسائیشیں مہیا بھی کر دی جائیں تو اس کی تن بولی اور سوچ کو بدلنے میں کئی سال لگ جائیں گے، اگر ایسے فرد کو نوٹوں سے بھرا بیگ دے دیا جائے تو وہ ، واللہ خیر الرزقین ، کا نعرہ لگاتے ہوئے اس رقم کو ایسی جگہوں پہ خرچ کرے گا کہ عقل دنگ رہ جائے گی اور چند ہی دنوں میں وہ انہی دو کپڑوں میں اپنی چارپائی پہ لیٹا ہوگا کیونکہ سوچ کی توانائی کی سمت اور بیرونی میسر وسائل ایک دوسرے سے میل نہیں کھا رہے۔
غریب آدمی جب تک امارت کے وصف سے واقف نہیں ہوجاتا، جب تک اپنے کمفرٹ زون میں امارت کے ممکنہ تصور کو جگہ نہیں دیتا تب تک نہ تو وہ امیر بن سکتا ہے اور نہ ہی وہ کسی حادثاتی امارت کو برقرار رکھ سکتا ہے۔
دوسرا فیکٹر حسد ہے، دوسرے کی کامیابی یا امارت سے حسد کا مطلب اس کی کامیابی سے نفرت کرنا ہے،
حسد اپنے اندر کوئی تعمیری احساس نہیں رکھتا بلکہ مکمل طور پر تباہ کن عنصر ہے، انسانی نفسیات ایسی ہے کہ جس چیز سے انسان حسد کر رہا ہے لاشعوری طور پر وہ اس چیز کی اہمیت کو گرانے کی کوشش کرتا ہے، امارت سے حسد ہے تو لاشعور میں امارت ایک بے کار اور فضول چیز کی طرح پیش ہوتی ہے اور مختصر وقت میں یہ یقین جڑ پکڑ لیتا ہے کہ امارت جیسی بے کار چیز کی کوشش وقت کا ضیاع ہے اور فرد اپنے کمفرٹ زون کو ہی ترجیح دیتا ہے۔ شروع میں یہ احساس ایک دفاعی نظام کی طرح کام کرتا ہے کہ چونکہ یہ چیز میرے پاس نہیں تو مجھے درحقیقت اس کی ضرورت بھی نہیں، وقت کے ساتھ لاشعور میں یہ دفاعی رویہ غیر میسر چیز کو ” رافضی ” قرار دے دیتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply